• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ذرا آپ ہی بتایئے جب ہم مدر ڈے اور فادر ڈے نہیں مناتے تھے تو کیا ہم اپنے ماں باپ سے محبت نہیں کرتے تھے؟ کیا جب سے اقوام متحدہ نے یہ دن منانے کی ہدایت کی ہے اس کے بعد ہی ہمیں اپنی اماں اور اپنے ابا یاد آنا شروع ہوئے ہیں؟ یہ سوال میں مغربی معاشرے سے نہیں کر رہا ہوں، اپنے معاشرے سے کر رہا ہوں۔ ناخلف اور ناہنجار بیٹے اور بیٹیاں پہلے بھی ہوتے تھے اور یہ دن منانے کے بعد بھی ہوتے ہیں۔ ماں باپ سے محبت اور ان کے لئے جان قربان کرنے والی اولاد پہلے بھی ہوتی تھی اور اب بھی موجود ہے۔ مدر ڈے یا فادر ڈے پر ماں یا باپ کے لئے گلدستے خریدے جاتے ہیں، تحفے تلاش کئے جاتے ہیں اور بڑے تام جھام کے ساتھ پیش کئے جاتے ہیں بلکہ اب تو انٹر نیٹ آگیا ہے۔ فیس بک، واٹس ایپ اور اسی قسم کے دوسرے ایپس پر ماں باپ سے محبت کا اظہار کیا جاتا ہے۔ جیسے اس کے بغیر ماں باپ کو علم ہی نہیں ہوتا کہ ان کے بچے ان سے محبت کرتے ہیں۔ ہمیں تو ڈر لگ رہا ہے کہ اب تک تو ماں اور باپ کے دن منائے جاتے ہیں۔ کل کو بھائیوں اور بہنوں کے دن بھی منائے جانے لگیں گے بلکہ ہو سکتا ہے چچا چچی، ماموں ممانی اور پھوپھا پھوپھی کے دن بھی منائے جانے لگیں۔ آخر ان رشتے داروں نے کیا قصور کیا ہے، ان کے دن کیوں نہیں منائے جاتے۔ اور اگر نانا نانی اور دادا دادی زندہ ہیں تو ان کے دن بھی منانے چاہئیں۔ جب رونق ہی لگانا ہے تو یہ بھی سہی۔ اب یہاں مجھے جگجیت سنگھ یاد آ رہا ہے۔ وہی جگجیت سنگھ جس نے غزلیں گا گا کر اپنی گائیکی کا لوہا منوایا تھا۔ آج وہ ہم میں نہیں ہے۔ مگر اپنی زندگی میں اس نے ایسے ہی موقع پر کہا تھا کہ یہ سب تماشے تاجروں کا کاروبار چمکانے کے لئے کئے جاتے ہیں۔ ایسے دن جب آتے ہیں تو پھولوں اور دوسرے تحفوں کی خوب بکری ہوتی ہے۔ دکانیں بھر جاتی ہیں ایسی چیزوں سے۔ اور خریدنے والے خوب اپنی جیبیں خالی کرتے ہیں۔ آپ کہہ سکتے ہیں کہ یہ صارف معاشرہ ہے۔ اس معاشرے میں جب تک پیسہ ایک ہاتھ سے دوسرے ہاتھ میں نہیں جائے گا اس وقت تک یہ معاشرہ چل ہی نہیں سکتا۔ اس صارف معاشرے کو آپ کتنا ہی برا بھلا کہتے رہیں، لیکن معاشی ترقی اسی طرح ہوتی ہے۔ ہمیں تو شکایت صرف یہ ہے کہ یہ سارے دن مناتے ہوئے اس حقیقت کا اعتراف کیوں نہیں کر لیا جاتا۔ تو مان لیجئے کہ یہ سب کاروبار ہے۔ اس کاروبار میں ابا اماں کی محبت کی قیمت بھی لگ جاتی ہے۔
اچھا، اب یاد آیا کہ ہمیں یہ سمجھایا جاتا ہے کہ دراصل یہ دن مغربی معاشرے کے لئے منائے جاتے ہیں۔ وہاں لڑکا یا لڑکی اٹھارہ سال کے ہوتے ہیں تو ماں باپ ان سے کہتے ہیں کہ اب تم خود اپنے پیروں پر کھڑے ہونے کی کوشش کرو۔ ماں باپ ان کی ذمہ داری سے سبکدوش ہو جاتے ہیں۔ وہ بچے اپنے ماں باپ سے علیحدہ ہو تے ہیں تو بڑھاپے میں ماں باپ اکیلے رہ جاتے ہیں۔ ان کے بیٹے بیٹیاں اپنے اپنے کاموں میں اتنے مصروف ہو جاتے ہیں کہ ماں باپ کے لئے ان کے پاس بہت ہی کم وقت ہوتا ہے۔ لیکن ذرا ٹھہریئے۔ مجھے انگلستان میں اپنے بیٹے کا گھر یاد آ گیا۔ یہ انگلستان کا جنوب مشرقی شہر ہے۔ اس کے گھر کے سامنے سفید بالوں والے بوڑھے میاں بیوی اکیلے رہتے ہیں۔ ان کی بیٹی کسی دوسری جگہ رہتی ہے۔ لیکن وہ بیٹی ہفتے میں ایک دو دن ماں باپ کو دیکھنے ضرور آتی ہے۔ اور پھر وہ بوڑھے میاں بیوی بھی ہمارے بوڑھوں کی طرح ہر وقت ہائے وائے نہیں کرتے رہتے کہ ہائے، ہمارے بچوں نے ہمیں چھوڑ دیا۔ ان کے پاس ایک اچھا سا کارواں ہے۔ ہر سنیچر کے دن وہ دونوں اس کارواں میں بیٹھ کر سیر کرنے چلے جاتے ہیں۔ اب وہ کہاں جاتے ہیں؟ یہ تو ہم نے نہیں معلوم کیا لیکن وہ اتوار گزار کر واپس آتے ہیں۔ ٹھیک ہے ایسا بھی ہے کہ بڑے بوڑھے وہاں اپنے بچوں سے دور تنہا رہنے پر مجبور ہیں۔ لیکن ہماری طرح وہاں بھی بچے ہر قسم کے ہیں۔ ناخلف بھی ہیں اور فرماں بردار بھی۔ چو نکہ وہاں ہر ایک کی اپنی اپنی مصروفیات ہوتی ہیں اس لئے یہ دوری پیدا ہو جاتی ہے۔ اب یہ سمجھنا کہ چونکہ ماں باپ اپنے بچوں کو بالغ ہوتے ہی اپنے آپ سے علیحدہ کر دیتے ہیں اس لئے ان میں محبت باقی نہیں رہتی، بالکل غلط ہے۔ اس کے لئے اور کچھ نہیں تو ہالی وڈ کی ایک پرانی فلم Look Who's comming for Dinner دیکھ لیجئے۔ ماں باپ جب دیکھتے ہیں کہ ان کی بیٹی جس نوجوان کو کھانے پر لے کر آئی ہے،اور جس سے وہ شادی کرنا چاہتی ہے وہ کالا نیگرو ہے، تو ان پر جیسے قیامت ہی ٹوٹ پڑتی ہے۔ لیکن چونکہ وہ مغربی معاشرے سے تعلق رکھتے ہیں، ہمارے مشرقی معاشرے سے نہیں، اس لئے وہ رونا دھونا اور وہ جھاڑ پٹخ نہیں ہوتی جو ہمارے ہاں ایسے موقع پر کی جاتی ہے بلکہ خاموشی سے دل پر پتھر رکھ کر اسے قبول کر لیا جاتا ہے۔ ماں باپ کہیں کے بھی ہوں، ماں باپ ہی ہوتے ہیں۔ اسی طرح اولاد بھی کہیں کی بھی ہو اولاد ہی ہوتی ہے۔
اب یہاں تک پہنچتے پہنچتے اپنا معاشرہ یاد آنے لگا ہے۔ ہمارے ہاں بھی مخلوط خاندان ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ وہ خاندان جہاں ماں باپ بہن بھائی، چچا ماموں اور دوسرے خاندان والے اکٹھے رہتے ہیں آہستہ آہستہ ختم ہوتے جا رہے ہیں۔ بیٹیاں شادی ہو کر اپنے گھر چلی جاتی ہیں۔ اور بیٹے اپنے اپنے کام پر دوسرے شہر یا دوسرے ملک چلے جاتے ہیں۔ گویا وہ ’’نیو کلیئر فیملی‘‘ جو مغرب میں کافی عرصے سے موجود ہے ہمارے ہاں بھی وجود میں آ رہی ہے بلکہ بڑے شہروں میں آ چکی ہے۔ مغرب میں، خاص طور سے ان ملکوں میں جہاں فلاحی ریاستیں ہیں، وہاں معاشرہ (حکومت) ان بزرگوں کی دیکھ بھال کرتا ہے۔ ان کے لئے کونسل کے گھر موجود ہیں۔ ان کی دیکھ بھال کے لئے کونسل کی طرف سے خواتین کی خدمات مہیا کی جاتی ہیں لیکن ہمارا معاشرہ اور ہماری حکومت تو ایسی نہیں ہے۔ یہاں کون حکومت یا کونسل بزرگوں کا خیال رکھ سکتی ہے۔ اس کا مطلب یہ ہے کہ ہمارے یہاں بزرگوں کے لئے اچھے دن نہیں آ رہے ہیں۔ اب یہاں مجھے انور مقصود کا وہ ٹیلی وژن ڈرامہ یاد آ رہا ہے جس میں نوید شہزاد اس بوڑھی عورت کا کردار کر رہی ہیں جس کے کان اور آنکھیں ہر وقت اپنے ان بچوں کی آواز پر لگے رہتے ہیں جو دوسرے ملک میں ہیں۔ تو صاحب، ہمارے ہاں وہ ہولناک وقت آنے ہی والا ہے۔ اس لئے میں اپنے وہ تمام الفاظ واپس لے رہا ہوں جو میں نے شروع میں مدر ڈے اور فادر ڈے کے بارے میں لکھے ہیں۔ ہمیں یہ دن ضرور منانے چاہئیں۔ اور آنے والے خوف ناک دنوں کے لئے منانا چاہئیں۔ چاہے وہ دکھاوے کے لئے ہی کیوں نہ ہوں۔ ماں باپ کو یہ احساس تو ہو گا کہ ہمارے بچے ہم سے محبت کرتے ہیں۔

.
تازہ ترین