• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آخر69سالوں بعد وہ روشن صبح طلوع ہو چکی جس کی ایک جھلک دیکھنے کے لئے لاکھوں لوگ اندھیرے کی گھمبیر دیواروں کو ٹکریں مارتے دوسرے جہان رخصت ہوئے مگر ان کی قربانیوں سے ایک اینٹ کا فاصلہ روشن دان کی شکل دھار گیا۔ ایک دنیا پر حقیقت واضح ہونے لگی۔ وطن سے محبت کرنے والوں کی ترسی ہوئی نگاہوں نے اس دن کے ساتھ جڑے پیغام سے وہ نور اخذ کیا جو اگلی منزلوں کو آسان تر بنانے والا ہے۔ جمہوریت، قانون اور اداروں کی سر بلندی کا خواب دیکھنے والے تو ایک ذرا سی مسکراہٹ سے کِھل اُٹھتے ہیں یہاں تو ایک نئی تاریخ لکھی گئی۔ کچھ جملے ایک نئی سوچ کی بشارت بن کر اترے تو لاکھوں لوگوں نے سکھ کا سانس لیا۔ 21توپوں کی بجائے دِلوں میں جذبوں کے ٹھاٹھیں مارتے سمندروں کی موجوں نے اچھل اچھل کر نعرئہ حق بلند کیا۔ بد قسمتی سے پاکستان کو ایک لمبے عرصے سے اندرونی خلفشار کا سامنا ہے۔ اُس وقت بھی جب ہمارے اردگرد، دائیں بائیں اور اندر دشمنوں کی چالیں بکھری پڑی ہیں ہم ایک دوسرے پر حملہ کرتے رہے، ہمیں ان بارودی سرنگوں کو تلاش، حدف کرنے اور ان سے اپنے لوگوں کو بچانے کی بجائے ایک ایسی لا یعنی جنگ کا شکار کر دیا گیا جس کا حاصل کچھ بھی نہیں۔ عالمی سطح پر ہمارے اندرونی اختلافات کا چرچا رہا جس سے پوری دنیا میں ہماری جگ ہنسائی ہوئی۔ سیاسی جماعتوں کا اختلاف معمول کی بات ہے مگر عدلیہ، انتظامیہ اور دفاعی اداروں کے درمیان رنجشیں قوموں کا مورال کم کر کے انھیں خانہ جنگی کی طرف دھکیلتی ہیں۔ ویسے دیکھا جائے تو ہم پچھلے کچھ سالوں سے اس خانہ جنگی کا کئی سطح پر شکار ہیں۔ اس میں کوئی دو رائے نہیں کہ آمروں کی نظریں اپنے ادارے کی مضبوطی کی بجائے اسلام آباد کے تخت پر مرتکز رہی ہیں۔ مگر اس میں بھی کوئی شک نہیں کہ اس سوچ کو بڑھاوا دینے والوں میں سیاست، میڈیا کے کچھ حصے اور صحافت میں ایک خاص گروپ ہمیشہ جلتی پر تیل ڈالنے اور استعمال ہونے کے کام آتا رہا ہے۔ ان کی تمام تر دکانداری حکومت اور اداروں کے درمیان غلط فہمیوں پر مبنی رہی ہے۔
پاکستان کی فوج ایک طاقتور ادارہ ہے مگر کچھ اپوزیشن رہنماؤں کے ہمدردانہ بیانات اور نعرے سن کر افسوس ہوتا ہے کہ وہ قوم کے محافظوں کے کردار کو ہر وقت زیر بحث لا کر جنگی صورتحال کیوں پیدا کئے رکھتے ہیں۔ اب جب کہ فوج کی طرف سے جنرل قمر جاوید باجوہ کی سوچ کا آئینہ دار بیان سامنے آیا ہے تو مطلع ایک دم صاف ہوگیا ہے۔ وزیر اعظم کی قانونی بالا دستی کو تسلیم کر کے قوم کو ایک مرکز پر لا کھڑا کیا اور ملک صحیح معنوں میں صحیح ڈگر پر رواں دواں ہوگیا ہے اس کا مطلب یہ نہیں کہ ایک دن میں ہمارے تمام مسائل حل ہو جائیں گے۔ کرپشن، بے انصافی، بے روزگاری اور دیگر مسائل حل ہو جائیں گی مگر یہ ضرور ہے کہ ملک کی گاڑی کبھی اِدھر کبھی اُدھر بھٹکنے کی بجائے قانون کی موٹروے پر گامزن ہو جائے گی۔ جب سفر کا آغاز ہو جائے تو بہتری کے وسیلے نکلتے رہتے ہیں اور منزل مقدر ہو کے رہتی ہے۔ ایسے میں ہر وقت ایک دم پینترا بدل کر کسی ادارےکے خلاف صف آراء ہوگئے ہیں۔ مطلب پہلے اُس کی تعریفیں ادارے کے لئےنہیں تھیں بلکہ چند افراد کی شاباشی پر منحصر تھیں اور اب جب دیگر جمہوری ممالک کی طرح پاکستان اپنی سمت درست کرنے لگا ہے تو مخصوص طبقے کی آہ و زاری سمجھ سے بالا تر ہے۔ اُن کا یہ حال ہے کہ اگر ادارے آپس میں دست و گریباں رہیں تو یہ خوش، اگر ایک دوسرے پر الزام تراشی کا موسم بنا رہے یہ مطمئن آخر یہ کس قسم کی حب الوطنی ہے جو اپنی دِھرتی کی خاطر متحد ہونے پر سیخ پا ہے۔ کیا یہ ایجنڈا کسی محب وطن پاکستانی کا ہوسکتا ہے کہ وہ آپس کی تقسیم کے لئے دن رات ایک کردے۔ ان کا مسئلہ یہ ہے کہ اب میڈیا پر جمہوریت کے حق میں بات کرنے والے اداروں کی تحسین کریں گے اور انھیں ان کی گفتگو سے وہ مواد نہیں مل سکے گا۔ جس کا بہانہ بنا کر یہ ان پر غداری اور دشمن کے فتوے لگا کر اپنا کاروبار چمکا سکیں۔ جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ اقدام تاریخ کے سنہری باب میں رقم ہو چکا ہے۔ زمانہ ان کی تحسین کرے گا۔ ان کی قیادت میں فوج مذیدترقی کرے گی ، شاعر اپنی خوشی اور مرضی سے اپنے غازیوں کے ترانے لکھتے رہیں گے شہیدوں پر جذبوں کے پھول نچھاور کرتے رہیں گے۔ ہمارے لوگ ایک عرصہ بادشاہوں کی غلامی کا شکار رہے ہیں۔ پھر مسلمانوں میں سپہ سالار کا ایک خاص مقام ہوتا تھا۔ مسئلہ یہ ہوا کہ نئے دور میں بھی لوگوں کے ذہن میں اسی سپہ سالار کی تشبیہ قائم رہی جبکہ جمہوری نظام میں وزیر اعظم کا عہدہ سب سے معتبر اور طاقتور سمجھا جاتا ہے۔ فرد سے اختلاف ہوسکتا ہے، اُسے پسند نا پسند کیا جاسکتا ہے مگر عہدے کا احترام ملک کے قانون کو تسلیم کرنے کے مترادف ہے۔ مقام شکر ہے کہ ہم اتنے سالوں بعد ایک قوم بننے کی ڈگر پر آ چکے ہیں۔ جب اچھے دن آتے ہیں تو اپنے ساتھ کئی خوشخبریاں لاتے ہیں۔ وزیر اعظم کے ساتھ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کا چین کا دورہ بھی کوئی کم اہمیت کا حامل نہیں۔ اب نعرہ بازی اور جذباتی تقاریر کی بجائے عملی اقدامات اور سیاسی شعور سے قوم کو ترقی سے ہمکنار کرنے کا وقت ہے۔ جب جمہوریت کے حامی روشن خیالی کے علمبردار قانون کی بالا دستی کے خواہاں خاموش رہیں گے تو دنیا ہمیں تنگ نظر اور آمریت پسند قوم گردانے گی آئیے ملک کے وسیع تر مفاد کے خلاف بولنے والوں کا محاسبہ کریں۔ کم از کم ان کی گفتگو کا بائیکاٹ کر کے ہی انھیں احساس دلایا جاسکتا ہے کہ انھیں فہم و فراست اور شعوری وبالیدگی کی اشد ضرورت ہے۔ ملک کی فضاؤں کو ایک نئی اور روشن صبح مبارک ہو۔

.
تازہ ترین