• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
اوالدین نے اسے ایک طرح سے شہر بدر کردیا تھا کیونکہ وہ پندرہ سال کی عمر میں 39سالہ اپنی ٹیچر کے عشق میں گرفتار ہوگیا تھا ، اسی ٹیچر کا بڑابچہ خود اس نوجوان لڑکے سے دو سال بڑا تھا لیکن’’ عشق نہ پچھے ذات‘‘ کے مصداق لڑکا ہر وقت اٹھتے بیٹھتے اپنی ٹیچر کا دم بھرنے لگا تھا ، والدین اپنے بیٹے کی یہ کیفیت دیکھ کر پریشان ہوگئے انہیں یہ فکر لاحق ہوگئی کہ کہیں ہمارا بیٹا اپنی ٹیچر کے عشق میں اپنی تعلیم ادھوری نہ چھوڑ دے اس لئے انہوںنے اپنے بیٹے کو دوسرے شہر بھیج دیا ، لڑکا دوسرے شہر چلا تو گیا لیکن اس کے دل سے اپنی ٹیچر کی محبت جو اس کی ماں سے بھی بڑی تھی کم نہ ہوئی اور اس ٹیچر نے بھی اپنی محبت کا دم بھرنے والے اس لڑکے کو نہ چھوڑا اور پھر بالآخر اس ٹیچر نے بعد ازاں اس نوجوان لڑکے سے شادی کرلی ۔ لڑکے نے تعلیم مکمل کرکے ایک بینکار کی حیثیت سے اپنی عملی زندگی کا آغاز کردیااور بطور بینکار اپنی پروفیشنل لائف کے ساتھ اس نے سیاست میں بھی حصہ لینا شروع کردیا اور پھر ساری دنیا نے دیکھا کہ ایمانوئیل ماخرون (Emmanuel Marcron)نے 39سال کی عمر میں جوہری توانائی رکھنے والے بڑے ملک فرانس کے صدرکا الیکشن جیت کر اس کی صدارت سنبھال لی، 21دسمبر 1977میں پیدا ہونے والے ایمانوئیل نے 2004ء میں اپنی گریجویشن مکمل کی تھی اور عملی زندگی میں قدم رکھنے کے تیرہ سال بعد ایک عالمی طاقت کی حیثیت رکھنے والے ملک کی صدارت جیت لی۔ اس سے پہلے کینیڈا میں جسٹن ٹروڈو نے بھی الیکشن جیت کر کینیڈا کی وزارت عظمیٰ حاصل کرلی تھی ، ٹروڈو نے تقریباً43سال کی عمر میں وزارت عظمیٰ حاصل کی تھی، دنیا میں یہ پہلی مرتبہ نہیں ہوا بلکہ اس سے قبل بھی کئی افراداس عمر میں ملک کے اہم ترین عہدوں پر فائز ہوچکے ہیں ، اسی طرح دنیا کا اگر جائزہ لیا جائے تو وہاں نوجوانی میں ہی لوگ بزنس ٹائیکون بن جاتے ہیں اپنے آئیڈیاز سے بڑے بڑے کارہائے نمایاں انجام دیتے ہیں، اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ یہ ترقی یافتہ ممالک اپنی یوتھ کی ہر موقع پر حوصلہ افزائی کے ہار پہناتے ہیں ان کی چھوٹی سی اچیومنٹ پر انہیں داد دے کر ان کے اعتماد میں اضافہ کرتے ہیں، اس کے برعکس ہمارے ملک میں اپنے بچوں کو ’’جن آیا ہے ‘‘ سو جائو ورنہ جن پکڑ کر لے جائے گا، بچے اٹھانے والا بابا پکڑ کر لے جائے گا، کھیلتے ہوئے کپڑے گندے کئے تو گھر میں نہیں گھسنے دونگی، آج ابا کو آنے دو تمہاری وہ درگت بنوائوں گی کہ یاد رکھو گے ، وغیرہ وغیرہ کی چوسنی لے کر بڑے ہونے والی ہماری یوتھ اس تیزی سے ترقی نہیں کرتی جیسے ترقی یافتہ ممالک کے بچے آگے بڑھ کر اپنے ملک کے ہر شعبہ کو سنبھال رہے ہیں ، ہمارے ملک میں یوتھ کی تعداد بہت زیادہ ہے ہمیں ان کی حوصلہ افزائی کرکے نہ صرف ان کی صلاحیتوں کو نکھارنا ہے بلکہ ان سے کام بھی لینا ہے ہمیں انہیںذمہ داریاں دینے سے پہلے اس بات کا انتظار نہیں کرنا کہ ان کی کنپٹی کے اوپر بالوں میں سفیدی آئے گی تو یہ کچھ کرنے کے قابل ہونگے ، میں یہ بھی کہنا چاہتا ہوں کہ آئندہ الیکشن کے بعد مریم نواز ، بلاول بھٹو، حمزہ شہباز، مصطفیٰ کمال، بختاور بھٹو، آصفہ بھٹو اور ملالہ کو حکومت میں کچھ نہ کچھ کردار ملنا چاہیے ان میں ہوسکتا ہے کہ کچھ ابھی الیکشن لڑنے کی عمر کو نہ پہنچے ہوں لیکن پھر ان کی حوصلہ افزائی ہونا چاہیے کیونکہ جب تک ہم ہر شعبہ میں یوتھ کے حوالے سے نئی سوچ کو موقع نہیں دینگے ہم ترقی کے اہداف حاصل نہیں کرسکتے، لیکن میرا یہ کہنے یہ لکھنے کا مقصد ہر گز نہیں کہ میں نے جو چند نام تحریر کئے ہیں ، آئندہ اقتدار میں آنے یا حکومتی امور چلانے کا حق صر ف انہیں ہی حاصل ہوں بلکہ ان کے آگے آنے سے ان نوجوانوں کو بھی حوصلہ ملے گا جن میں بے پناہ صلاحیتیں موجود ہیں اور نہ صرف ان کی سوچ مثبت ہے بلکہ وہ پاکستان کیلئے کچھ کرنے کا جذبہ رکھتے ہیں کیو نکہ آئندہ آنے والے وقت میں صرف نام یا شخصیات پرستی نہیں ہوگی بلکہ جو کام کرے گا اسے پذیرائی ملے گی وقت بہت تیزی سے تبدیل ہوا ہے اور مجھے یہ جان کر بہت خوشی ہوئی ہے کہ مصطفیٰ کمال نے ایک مثبت اسٹینڈ لے کر کراچی کے عوام کیلئے آواز بلند کی ہے اور مجھے اس بات سے بھی بہت خوشی ہوئی ہے کہ اس روایتی سیاست کے سمندر میں گلوکار جواد احمد نے بھی اپنی سیاسی پارٹی بنانے کا اعلان کیا ہے میں ان کی ہمت کی داد دیتا ہوں۔ آئیں ہم سب مل کر ہر شعبے میں نئے آنے والوں کو ویلکم کہہ کر ان کی حوصلہ افزائی کریں تاکہ حقیقی تبدیلی آئے۔

.
تازہ ترین