• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پرائمری اسکول نہ صرف نظام تعلیم کی بنیادی اکائی بلکہ معاشرے کی بنیاد اور بچوں کی پہلی رسمی درسگاہ ہوتے ہیں مگرپاکستان میں ان اسکولوں کی حالت ِ زار ناقابلِ بیان ہے۔ وزارت تعلیم کے ذیلی ادارے تعلیمی منصوبہ بندی و انتظامات کی رپورٹ 2015-16میں پرائمری اسکولوں کے حوالے سے نہایت افسوسناک انکشافات سامنے آئے ہیں۔ رپورٹ کے مطابق ملک کے قریباً33فیصد پرائمری اسکول پینے کے پانی کی سہولت سے محروم ہیں یعنی1لاکھ 21ہزار پرائمری اسکولوں میں سے 39ہزار اسکولوں میں پینے کا پانی نہیں ہے۔ 60ہزار اسکول بجلی اور 38ہزار اسکول بیت الخلاء جیسی بنیادی سہولت سے محروم ہیں۔ 7ہزار 800 اسکولوں میں ایک بھی کلاس روم نہیں جبکہ 10ہزار 500اسکول عمارت کے بغیر اور 34ہزار اسکول چار دیواری کے بغیر قائم ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق پنجاب میں صورتحال قدرے بہتر ہے جہاں 0.3فیصد اسکول پینے کے پانی سے محروم ہیں۔ خیبرپختونخوا میں یہ شرح 27فیصد اور بلوچستان میں 38فیصد ہے۔سندھ میں نصف کے قریب اسکولوں میں پینے کا پانی نہیں ہے۔ اس قیامت خیز گرمی میں ننھے منے بچوں کو حصولِ تعلیم کے دوران پانی کے بغیر کیا مشکلات پیش آتی ہوں گی، اس کا اندازہ لگانا چنداں مشکل نہیں ہے جبکہ چاردیواری، کلاس رومز اور بیت الخلاء کے بغیر تو اسکول کی عمارت کا تصور ہی محال ہے۔ اکثر دیکھا گیا ہے کہ دور دراز دیہی علاقوں میں بااثر افراد حکومتی فنڈز سے اسکولوں کی عمارت تو کھڑی کر لیتے ہیں مگر ان میں درس و تدریس کا عمل شروع نہیں ہو پاتا جس کی وجہ سے یہ عمارتیں رئوسا کے مویشیوں کے باڑے اور گوداموں کے طور پر استعمال ہوتی ہیں۔ اگر اسکولوں میں تعلیم کے سلسلے کا آغاز کر بھی دیا جائے تو اساتذہ کی تقرری عمل میں نہیں آ پاتی۔ یہ صورتحال جہاں بچوں کے مستقبل سے کھلواڑ کی نشاندہی کرتی ہے وہیں ملک میں شرح تعلیم پر بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے۔ وفاقی و صوبائی حکومتوں کو خالی دعوے کرنے کی بجائے حقیقی معنوں میںمعیارِتعلیم کی بہتری کیلئے اقدامات کرنے چاہئیں اور سب سے پہلے پرائمری اسکولوں کی طرف توجہ مبذول کرنی چاہئے۔

.
تازہ ترین