• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر جنرل میکماسٹر نے بھی اس بات کی تصدیق کردی ہے کہ واشنگٹن میں ایف بی آئی کے ڈائریکٹر جیمز کومی کو اچانک ’’فائر‘‘ کئے جانے اٹھنے والے سیاسی طوفان کے شور میں صدر ٹرمپ اپنے پہلے غیرملکی دورے کا آغاز سعودی عرب سے کریں گے اور سعودی عرب میں پاکستان سمیت متعدد مسلم ممالک کے لیڈروںسے ملاقات بھی کریں گے اطلاعات کے مطابق صدر ٹرمپ سعودی عرب سے براہ راست اسرائیل کا سفر کرکے اسرائیلی لیڈروں کو اپنی مکمل حمایت اور دوستی کا اظہار کریں گے پھروہ اٹلی جاکر پوپ سے ملاقات کریں گے اور یوں وہ تین الہامی مذاہب، اسلام، یہودیت اور عیسائیت کے لئے مقدس مقامات والے ممالک کا دورہ کریں گے۔ ادھر اسلام آباد بھی وزیر اعظم کے دورہ سعودی عرب کی تصدیق کررہا ہے۔ شنید یہ بھی ہے کہ وزیر اعظم نواز شریف اور ڈونلڈ ٹرمپ کے درمیان ملاقات بھی ہوگی لیکن ایجنڈہ کا تادم تحریر علم نہیں ہے۔ سعودی عرب سے براہ راست اسرائیل کے لئے صدر ٹرمپ کا سفر اور اس بارے میں مسلم حکمرانوں کی جانب سے کوئی اعتراض نہ کرنا بھی ایک نئی سمت کی نشاندہی کرتا ہے ورنہ صدر ٹرمپ اٹلی اور یورپ کا دورہ کرکے اسرائیل کا سفر بھی کرسکتے تھے۔ جنرل میکماسٹر کے مطابق ’’صدر ٹرمپ ہمارے عرب اور مسلم پارٹنرز پر زور دیں گے کہ وہ امن کو فروغ دینے کے لئے نئے جرات مندانہ اقدامات کریں، داعش، القاعدہ، ایران اور اسد (شام) نے مسلم دنیا اور دیگر کو جس انتشار اور تشدد سے دوچار کر رکھا ہے اس کا مقابلہ کریں‘‘۔ اسی بریفنگ میں میکماسٹر کا کہنا تھا کہ ’’خلیج، عرب اور مسلم پارٹنرز سے امریکہ مزید مضبوط، زیادہ بہتر اور وسیع سیکورٹی پارٹنر شپ کے لئے بھی اقدامات کریں گے۔ مسلمان حکمران پرامن اسلام کے نظریہ کو فروغ دیں… وہاں سے اسرائیل جاکر اسرائیلی صدر اور وزیر اعظم سے ملاقات اور یہودی مملکت کے لئے امریکہ کا غیرمتزلزل رشتہ ہے اس کا اعادہ کریں گے‘‘۔ صدر ٹرمپ روم میں پوپ سے ملاقات اٹلی میں G-7 ممالک کی کانفرنس میں شرکت اور برسلز میں نیٹو ممالک کے لیڈروں کی میٹنگ میں شرکت کی تصدیق بھی میکماسٹر نے اپنے بیان میں کرتے ہوئے صدر ٹرمپ کے اس دورہ کو تاریخی قرار دیتے ہوئے تین الہامی مذاہب اسلام، یہودیت اور عیسائیت کا حوالہ بھی دیا۔
عالمی حالات،، ڈپلومیسی اور تاریخی تناظر سے واقف قارئین امریکی نیشنل سیکورٹی ایڈوائز میکماسٹر کے مذکورہ بیان سے بہت کچھ اور بآسانی سمجھ سکتے ہیںکہ مسلم ممالک کے حکمرانوں سے امریکی مطالبات میں مزید اضافہ ہوگا۔ اسرائیل کو تسلیم کرنے کے جرات مندانہ اور نئے قدم اٹھانے کی بات بھی ہوگی جنرل مشرف کے دور میں پاکستان۔ اسرائیل ڈائیلاگ جس مرحلے پر رک گیا تھا اسے بھی آگے بڑھانے کے لئے بھی بات ہوگی عرب حکمرانوں کو بھی ایسے ہی اقدامات کے لئے کہا جائے گا۔ عوامی ردعمل سے بچنے کے لئے پس پردہ اور خاموش ڈپلومیسی کا سہارا بھی لیا جاسکتا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عرب میں جمع ہونے والے مسلم حکمراں صدر ٹرمپ کو اسرائیل جانے سے قبل ان کے اس ایجنڈے میں کتنی حمایت فراہم کرتے ہیں؟ صدر ٹرمپ اپنے دورہ سعودی عرب کے ایجنڈے کے مثبت جواب میں مسلم حکمرانوں کو کیا مراعات فراہم کرنے کا وعدہ کرتے ہیں؟ البتہ سابق وزیر دفاع رابرٹ گیٹس جو آٹھ مختلف امریکی صدور کے ساتھ مختلف پوزیشنوں میں کام کرنے کا تجربہ رکھتے ہیں اور صدر ٹرمپ کے حامی ری پبلکن ہیں انہوں نے صدر ٹرمپ کو اپنے دورہ سعودی عرب اور اسرائیل و یورپ کے بارے میں مشورہ دیا ہے کہ یہ فارن پالیسی کے اہم معاملات ہیں صدر ٹرمپ اپنے فی البدیہہ جملے اور تبصروں سے پرہیز کریں، مسائل پر گفتگو کرتے وقت ’’اسکرپٹ‘‘ پر قائم رہیں (یعنی مسائل پر طے شدہ نکات اور حدود کے مطابق بات کریں) برجستہ جملے اور ریمارکس صرف مذاق اور اپنی شخصیت کے اظہار کے لئے استعمال کریں۔ لیکن ڈونلڈ ٹرمپ کی شخصیت، عادت اور چار ماہ کی صدارت کے ریکارڈ کے پیش نظر رابرٹ گیٹس کے مشورہ پر عمل صدرٹرمپ کے لئے مشکل نظر آتا ہے۔ جنوبی ایشیا، افغان صورت حال، مشرق وسطٰی اور پاک۔ بھارت سمیت مسلم دنیا میں جاری تباہی اور دہشت گردی کے تمام امور کے ظاہری اور خفیہ پہلوئوں سے بڑی حد تک باخبر سابق وزیر دفاع رابرٹ گیٹس نے صدر ٹرمپ کے اس دورہ سعودی عرب، اسرائیل و و یورپ کے بارے میں یہ پیش گوئی بھی کی ہے کہ اس دورے میں بعض مسائل پر سخت گفتگو بھی ہوگی بعض مشکل اور پیچیدہ مسائل پر ڈونلڈ ٹرمپ سخت موقف بھی اختیار کریں گے۔ سی آئی اے کے سابق سربراہ اور صدر بش اور اوباما دونوں کی کابینہ کے اہم تجربہ کار اور باخبر وزیر رابرٹ گیٹس نے صدر ٹرمپ کو ٹوئٹرز اور برجستہ ریمارکس اور تبصروں سے بیرونی دورے کے دوران احتیاط اور پرہیز کا مشورہ بھی دیا ہے اور فارن پالیسی کی ٹیم میں ہم آہنگی کی نشاندہی کرتے ہوئے اسی ہفتے میں سعودی عرب سے شروع ہونے والے دورہ کے ایجنڈےکو مشکل اور پیچیدہ امور پر مبنی قرار دے کر اس دورے کی امریکی اہمیت کو اجاگر کیا ہے۔ ادھر ڈونلڈ ٹرمپ کے ’’بایو گرافر‘‘ مائیکل ڈی انٹوینو نے ایف بی اے کے سربراہ جیمز کومی کو فائر کرنے کے بعد اعلانیہ طور پر صدر ڈونلڈ ٹرمپ کو بچکانہ، اچانک اور بلاسوچے سمجھے ایکشن لینے والا شخص قرار دیا ہے۔ ادھر جیمز کومی کو ایف بی آئی کی سربراہی سے اچانک اور سخت متنازعہ انداز میں خلاف توقع فائر کرنے سے امریکہ میں ٹرمپ کی ساکھ کے بارے میں اٹھنے والے سیاسی طوفان نے امریکہ کو سیاسی طور پر مزید تقسیم کیا ہے لہٰذا صدر ٹرمپ نے اس صورت حال میں اپنے پرجوش، سخت مذہبی حمایتی ووٹرز اور عیسائی مشنری ’’ایوانجلسٹ‘‘ کے علاقے ’’بائبل بیلٹ‘‘ میں واقع ’’لبرٹی یونیورسٹی‘‘ کے کنووکیشن میں جو تقریر کی ہے اس کا متن پڑھنے اور عالمی شہرت یافتہ مشنری جیری فارویل کی قائم کردہ مذہبی یونیورسٹی کا چارٹر پڑھنے سے سب کچھ عیاں ہوجاتا ہے۔ یہی وہ علاقے ہیں جہاںکی متفقہ اور پر زور حمایت سے ڈونلڈ ٹرمپ سیکولر امریکہ کے صدر بنے ہیں اور کھلے عام ان کی حمایت کا شکریہ ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔ ڈونلڈ ٹرمپ کے مسلم مخالف رویوں، بیانات اور انتخابی وعدوں کا پرجوش خیرمقدم بھی سیکولر امریکہ کے ان علاقوں میں کیا گیا ہے۔ سعودی عرب کے دورے سے قبل واشنگٹن میں اپنے ہی ہاتھوں پیدا کردہ داخلی بحرانوں کے دوران ’’بائبل بیلٹ‘‘ کے پرجوش حامیوں کے درمیان جاکر اپنی سیاسی قوت اور عوامی حمایت کا اظہار کرکے جہاں ڈونالڈ ٹرمپ نے اپنے سیاسی مخالفین اور لبرل امریکہ کو چیلنج کیا ہے۔ وہاں دورہ سعودی عرب اور مسلم ممالک کے لئے اپنی حکمت عملی کے بارے میں ’’بائبل بیلٹ‘‘ میں ٹرمپ نے اپنے حامیوں کو یقین بھی دلایا ہے۔ سیاسی طور پر تقسیم شدہ امریکہ میں ڈونلڈ ٹرمپ کی سیاسی اور عوامی قوت کا مرکز نیویارک اور کیلیفورنیا جیسی بڑی اور لبرل امریکی ریاستیں نہیں بلکہ یہی ’’بائبل بیلٹ‘‘ کا نام پانے والی کنزرویٹو امریکی ریاستیں اور ری پبلکن اکثریت والی مڈ ویسٹ ریاستیں ہیں جہاں مذہبی مشنری اور ’’ایوانجلسٹ‘‘ عیسائی مبلغین کا نہ صرف بڑا اثر و رسوخ ہے بلکہ ڈونلڈ ٹرمپ کو صدر منتخب کرانے میں مالی، سیاسی اور عوامی حمایت فراہم کی ہے اور صدر منتخب ہونے کے بعد صدر ٹرمپ نے واشنگٹن میں جتنے بھی سیاسی بحران اپنے اقدامات اور ٹوئٹرز کے ذریعے پیدا کئے ہیں۔ اس سے صدر ٹرمپ کی ساکھ اور امیج امریکہ کے دیگر حصوں میں متاثر ہوئی ہے لیکن ان کنزرویٹو ریاستوں میں ری پبلکن ووٹرز کا 78فی صد بدستور صدر ٹرمپ کا جوشیلا حامی ہے۔ ری پبلکن پارٹی کے کنونشن برائے صدارتی نامزدگی سے لے کر آج تک ڈونلڈ ٹرمپ انہی کنزرویٹو مذہبی حلقوں اور ’’ایوانجلسٹ‘‘ یعنی عیسائی مبلغین کی حمایت کا شکریہ ادا کرتے چلے آرہے ہیں۔ عالمی شہرت یافتہ عیسائی مبلغ جیری فارویل کی قائم کردہ ’’لبرٹی یونیورسٹی‘‘ سے آئینی طور پر سیکولر امریکہ کے صدر ٹرمپ کا خطاب اور کلمات واضح طور پر بتا رہے ہیں کہ صدر ٹرمپ اپنے حلقہ انتخاب اور سیاسی حمایت و طاقت کے علاقوں پر انحصار کررہے ہیں اور ان کا داخلی اور عالمی ایجنڈوہی ہے جو ان کے حامی ووٹرز کا ہے۔ رابرٹ گیٹس ری پبلکن صدر بش اور ڈیموکریٹ صدر اوباما کے ادوار میں سی آئی اے کے سربراہ اور وزیر دفاع کے طور پر اپنے تجربہ، خفیہ اور اعلانیہ معلومات کے تناظر میں صدر ٹرمپ کو اپنے دورہ سعودی عرب، اسرائیل اور یورپ کے بارے میں جو مشورے، تبصرے اور تجاویز دے رہے ہیں وہ بھی اسی حقیقت کی نشاندہی کررہے ہیں کہ دورہ سعودی عرب کا مقصد مسلم دوستی اور ان سے بااعتماد دوطرفہ تعلقات ہموار کرنا نہیں بلکہ ان سے امریکی مطالبات تسلیم کروانا اور اہم اور پیچیدہ مسائل پر دو ٹوک گفتگو کرنا ہے اور پھر اسرائیل جاکر کسی مطالبہ کے بغیر اسرائیل کے استحکام اور سلامتی کے لئے امریکہ کی جانب سے یقین دہانی کرانا ہے یورپ میں ناٹو اتحادیوں سے بھی کچھ مطالبات کچھ مذاکرات کا معاملہ ہے اور پوپ سے ملاقات و احترام یہ سب کچھ صدر ٹرمپ کے حامی ری پبلکن اور کنزرویٹو مذہبی حامیوں کی توقعات کے عین مطابق ہے۔ اس دورے کے بارے میں رابرٹ گیٹس کے مشورہ اور احتیاط اور دیگر ہمدردان ٹرمپ کے تجزیے اور تبصرے مشیران و معاونین کے صدر ٹرمپ کو مشورے اپنی جگہ دیکھنا یہ ہے کہ سعودی عرب میں صدر ٹرمپ کے ملاقاتیں اور مذاکرات کرنے مسلم دنیا کے حکمراں کیا راہ عمل اختیارکرتے ہیں۔ عرب دنیا کے حکمرانوں کا نقطہ نظر اور ضروریات کچھ اور ہیں اسرائیل سے خاموش تعلقات رکھنے والوں کو بھی اب اعلانیہ سفارتی تعلقات قائم کرنے میں بھی کوئی ہچکچاہٹ یا رکاوٹ حائل نہیں ہے صرف عوامی ردعمل کا ڈر ہے۔ غیر عرب مسلم دنیا کا ملک ترکی اب لاکھوں مسلم مہاجرین کی پناہ گاہ بنا ہوا ہے اور اب شام کی بربادی کے عمل میں اسے بھی الجھا کر مجبور اور محدود کردیا گیا ہے۔ ادھر بھارت کی ازلی دشمنی اور پاکستان مخالف تیاریوں کے علاوہ پاک۔ افغان فوجی ٹکرائو اور ناراض ایران کی صورت حال کے ذریعے جغرافیائی حصار میں گھرے پاکستان کی زمینی اور فضائی سرحدوں کا ایک ایک انچ غیرمحفوظ ہے۔ ایٹمی پاکستان کے لئے یہ صورت حال پہلے کبھی دیکھنے میں نہیں آئی ہے۔ حالات حوصلہ شکن ضرور مگر تدبر، تعقل اور فکر کی صلاحیتوں کے حامل حکمرانوں کو مسائل کا حل تلاش کرنے کے لئے ملائشیا کے مہاتیر محمد جیسے خاموش اور پرامن طرز عمل سے یورپ اور امریکہ سےڈیل کرنے کی ضرورت ہے۔



.
تازہ ترین