• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہم لوگ ملتان کے ایک ہوٹل میں ٹھہرے تھے، میرے دوست کو جلدی سونے کی عادت تھی جبکہ میں اُس رات ہوٹل سے باہر ایک کھانے پر مدعو تھا، میں نے اپنے دوست سے کہا کہ وہ سو جائے اور میرا انتظار نہ کرے، کمرے کا دروازہ البتہ کھلا رکھے تاکہ میں رات گئے آؤں تو اسے کوئی پریشانی نہ ہو۔ رات تقریباً ایک بجے میری واپسی ہوئی، اپنے کمرے کے پاس پہنچ کر میں نے دروازے کا ہینڈل گھمایا مگر دروازے کو چٹخنی لگی ہوئی تھی، میرا دوست شاید دروازہ کھلا رکھنا بھول گیا تھا، میں نے ہلکے سے دستک دی، چند لمحوں بعد چٹخنی نیچے ہونے کی آواز آئی اور دروازہ کھل گیا، میں نے ایک سیکنڈ کے لیے انتظار کیا مگر مزید کوئی حرکت نہیں ہوئی، میں نے دروازے کو دھکیلا اور اندر داخل ہوا، کمرے کی روشنی گُل تھی اور میرا دوست بستر پر لیٹا سو رہا تھا۔ میرے ہاتھوں کے طوطے اُڑ گئے۔ دروازہ کس نے کھولا، میں نے دل میں سوچا۔ اپنے دوست کو میں نے آواز دی تو وہ آنکھیں ملتا ہوا اٹھ بیٹھا، اپنے حواس مجتمع کرکے میں نے پوچھا ’’یہ دروازہ کس نے کھولا ؟‘‘ دوست نے جواب دیا ’’دروازہ تو میں کھلا چھوڑ کر سویا تھا، تم ہی نے تو کہا تھا ایسے کرنے کے لیے!‘‘ میرے ہاتھوں کے باقی طوطے بھی اُڑ گئے۔ ’’مگر دروازہ تو بند تھا، میں نے دستک دی تو کسی نے چٹخنی نیچے کی، میں نے خود آواز سنی، اگر یہ تم نہیں تھے تو پھر کون تھا؟ ‘‘میں نے اپنے خوف پر قابو پاتے ہوئے سوال کیا۔ میرے دوست نے غور سے میری آنکھوں میں دیکھا، کچھ دیر توقف کیا اور بولا ’’پھر یہ میرے مرشد ہوں گے___میں نے سونے سے پہلے انہیں درخواست کی تھی کہ یاسر دیر سے آئے گا تو اس کے لئے دروازہ کھول دیجئے گا___وہی ہوں گے، مرشد ہی ہوں گے!‘‘ میرے دوست نے اطمینان سے سر ہلاتے ہوئے جواب دیا۔ میری حالت یہ تھی کاٹو تو بدن میں لہو نہیں، بڑی مشکل سے میرے منہ سے فقط اتنا نکلا ’’تمہارے مرشد یہ کام بھی کرتے ہیں___کہاں ہیں وہ؟‘‘ دوست نے جواب دیا ’’اس وقت تو لاہور میں ہیں، واپس جا کر ملواؤں گا۔‘‘ قصہ مختصر وہ رات میں نے جیسے تیسے گزاری، لاہور پہنچتے ہی میں اپنے دوست کے پیچھے پڑ گیا کہ وہ اپنے اس مرشد سے ملوائے، اُس نے بھی نیک کام میں دیر مناسب نہیں سمجھی اور اگلے ہی روز مرشد سے اپائنٹمنٹ لے کر مجھے ان سے ملوانے شمالی لاہور کی ایک بستی میں لے گیا۔ اُن کے گھر پہنچتے پہنچتے میں نے خود پر اچھی خاصی رقت طاری کر لی، حتی المقدور عقیدت بھی دل میں جمع ہو گئی اور دماغ میں نور کا ایک ہیولا سا بن گیا اور مجھے یوں محسوس ہو ا جیسے میں فضاؤں میں اڑنے کے لئے تیار ہوں۔ سر جھکا کر ہم دونوں بیٹھ گئے اور اس بزرگ کا انتظار کرنے لگے۔ کچھ دیر بعد میرے دوست نے مرشد آ گئے کا نعرہ بلند گیا، میں نے سر اٹھا کر دیکھا، لگ بھگ پچاس سال کا ایک کلین شیو شخص جس کے ہاتھ میں سگریٹ کی ڈبی تھی اور چہرے مہرے سے محکمہ ریلوے میں سپرنٹنڈنٹ لگتا تھا (اور حقیقت میں موصوف یہی نوکری کرتے تھے) پینٹ قمیص میں ملبوس میرے سامنے کھڑا تھا۔ اس کے بعد کا قصہ سنانے کی چنداں ضرورت نہیں، اتنا بتانا کافی ہے کہ ’’مرشد‘‘ کے پاس کسی قسم کی کوئی کرامت نہیں تھی، بعد میں مجھے یہ بھی پتہ چلا کہ اُس رات میرے دوست نے خود نیند میں چل کر دروازہ کھولا تھا مگر hallucinationکی وجہ سے اسے یقین تھا کہ یہ کام اُس کے مرشد کا ہے۔
ہمارے ملک میں ہزاروں نہیں تو سینکڑوں مرشد، پیر، فقیر، بابے، ولی، صاحب کشف اور اہل نظر ہیں جن کی کرامات اور مستقبل بینی کی اُن کی غیر معمولی صلاحیتوں کے بارے میں ہمیں مختلف ذرائع سے پتا چلتا رہتا ہے، اکثر اوقات یہ واقعات ہمیں اس طرح سننے کو ملتے ہیں جیسے کسی اچھے وکیل یا ڈاکٹر کی شہرت پتا چلتی ہے۔ ...’’فلاں کے پاس جاؤ، بہت اچھا ہے...!‘‘ اور ہم منہ اٹھا کر چل پڑتے ہیں، جیسے میں چل پڑا، وجہ اس کی یہ ہے کہ انسان فطرتاً توہم پرست واقع ہوا ہے اور اس مادی دور نے انسان کے غیر یقینی مستقبل میں خطرناک حد تک اضافہ کر دیا ہے، ہم جیسے پسماندہ ممالک میں یہ خوف دو آتشہ ہو جاتا ہے جہاں عام آدمی کے مسائل کے حل کے لئے کوئی نظام نہیں اس لئے ہمارے ہاں محیر العقول ’’کرامات‘‘ کا دعویٰ کرنے والے لوگ صاحب کشف اور پہنچے ہوئے مانے جاتے ہیں جن کے پاس ڈرائیونگ لائسنس دلوانے سے لے کر اچھی پوسٹنگ کروانے تک تمام مسائل کا حل موجود ہے۔ ایسا نہیں ہے کہ اہل تصوف پائے نہیں جاتے، اللہ کے نیک بندے ہر جگہ موجود ہوتے ہیں مگر ہم انہیں پہچان نہیں پاتے کیونکہ وہ کوئی دنیاوی کام کروانے کا دعویٰ نہیں کرتے، کرامات کے نام پر شعبدے نہیں دکھاتے، عاجزی اور انکساری کا پیکر ہوتے ہیں، اسلام کی تمام عبادات، احکامات اور شریعت پر سختی سے کاربند رہتے ہیں اور تصوف کی آڑ میں شریعت سے روگردانی نہیں کرتے، حضرت داتا علی ہجویریؒ نے یہ بات دو ٹوک بیان کر رکھی ہے۔ اب ایسے دین دار لوگ بھلا ہمارے کس کام کے! ہمیں تو وہ لوگ چاہئیں جو سب سے پہلے تو اپنے کسی شعبدے کو کرامت کا نام دے کر ہمیں متاثر کریں، اس کے بعد ہمارے ہر قسم کے دنیاوی کام کروانے کا ذمہ لیں چاہے وہ کام کسی کی طلاق کروانا ہی کیوں نہ ہو اور پھر زلزلے یا طوفانوں کی مبہم پیشین گوئیاں کرکے یہ تاثر دیں جیسے وہ بہت پہنچے ہوئے ہیں۔ اکثر میں سوچتا ہوں کہ اگر امریکہ سے کرس اینجل اور ڈیوڈ کاپر فیلڈ جیسے شعبدہ باز پاکستان آ جائیں اور کسی آستانے پر خود کو آری سے کاٹنے یا مینار پاکستان کو غائب کرنے کا شعبدہ دکھائیں تو اُن کے آگے کون سا مرشد ٹھہر سکے گا یا آج سے سو سال قبل اگر کسی کے پاس اسمارٹ فون ہوتا اور وہ ’’اہل نظر‘‘ بن کر کہیں ڈیرہ جما لیتا تو لوگوں کے ٹھٹھ کے ٹھٹھ لگ جاتے اور آج اُس کے مزار پر لکھا ہوتا ’’حضرت سائیں موبائل فون والی سرکار!‘‘یہ ساری پیری فقیری اُس وقت تک چلتی رہے گی جب تک ہمارا نظام مغرب کے ترقی یافتہ ممالک کی طرح عوام کے مسائل کا حل فراہم نہیں کرتا۔ جب ریاست سے لوگوں کو انصاف ملنا شروع ہو جائے گا تب انہیں کسی آستانے پر حاضری دینے یا کسی بابے سے تعویذ لینے کی ضرورت نہیں رہے گی۔
کالم کی دُم:میں نے کالم شروع کرنے سے پہلے کمرے کا دروازہ بند کیا تھا تاکہ کوئی مخل نہ ہو سکے، اب دروازہ خود بخود کھل گیا ہے، خدا خیر کرے، لگتا ہے مرشد نے کالم کا مائنڈ کیا ہے!


.
تازہ ترین