• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکی ذرائع کے مطابق صدر ڈونلڈ ٹرمپ افغانستان میں مزید پانچ ہزار فوجی بھیجنے کا اعلان کرنے والے ہیں۔ امریکی فوجیوں کے علاوہ نیٹو کے ممالک پر بھی دباؤ ڈالا جائے گا کہ وہ افغانستان میں مزید فوج بھیجیں۔ امریکی سیاسی اور سفارتی حلقے امریکہ کی افغانستان میں کامیابی کے بارے میں کافی مشکوک ہیں۔ یہ خیال عام پایا جاتا ہے کہ افغانستان میں امریکی فوجوں کے اضافے سے زمینی صورتحال میں کوئی تبدیلی نہیں ہو گی۔ قطع نظر اس کے کہ امریکی ایسا فیصلہ کیوں کر رہے ہیں جس کی کامیابی کے امکانات معدوم ہیں، پاکستان پر دباؤ بڑھایا جائے گا۔ پاکستان پر دباؤ بڑھانا بے سود ہوگا کیونکہ پاکستان موجودہ حالات میں اپنی حکمت عملی میں کوئی تبدیلی نہیں کرے گا۔ زیادہ امکان ہے کہ افغانستان میں خانہ جنگی کی کوئی صورت نہیں نکلے گی۔
امریکہ میں فیصلہ سازی کا تناظر بدل چکا ہے:اب دنیا کے مختلف علاقوں میں جنگ کے بارے میں فیصلے امریکی فوجی کمان کے ہاتھ میں دے دئیے گئے ہیں۔ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے سابق صدر اوباما کے الٹ خود فیصلے کرنے بند کر دئیے ہیں۔ امریکی فوجی حلقے صدر اوباما کے زمانے سے افغانستان میں امریکی فوجوں میں اضافے کے خواہش مند تھے لیکن صدر اوباما امریکہ کی مختلف جنگوں میں عملی شراکت سے اجتناب کرنے کی پالیسی اپنائے ہوئے تھے۔ وہ عوام سے وعدہ کرکے صدر بنے تھے کہ وہ عراق اور افغانستان سے امریکی فوجیں واپس بلا لیں گے۔ اس کے الٹ صدر ٹرمپ دنیا میں امریکی برتری قائم رکھنے کے نعرے لگا کر وائٹ ہاؤس تک پہنچے ہیں۔ اسی لئے انہوں نے آتے ہی فوجی اخراجات میں 54بلین ڈالر کے اضافے کا اعلان کیا ہے۔ صدر ٹرمپ کا دعویٰ ہے کہ امریکی فوج کی حالت کافی خستہ ہے اور اس کی تعمیر نو کی ضرورت ہے۔ ان کاماننا ہے کہ اگر امریکی فوج کے سازو سامان میں اضافہ کر دیا جائے تودنیا میں امریکہ کی مزید دھاک بیٹھ جائے گی اور کوئی بھی امریکی غلبے کو چیلنج کرنے کی ہمت نہیں کرے گا۔ یہ وہ پس منظر ہے جس میں نہ صرف شام اور عراق میں امریکی فوجوں میں اضافہ کیا جا رہا ہے بلکہ افغانستان میں بھی کابل حکومت کی مدد کے لئے مزید فوجی بھیجے جا رہے ہیں۔ صدر ٹرمپ کا فوجی ساز و سامان کے ذریعے غلبہ حاصل کرنے کا خواب شمالی کوریا کے مقابلے میں چکنا چور ہو رہا ہے۔ بظاہر امریکہ نے شام کے ہوائی اڈے پر راکٹوں سے حملہ کرکے اور افغانستان میں دنیا کا سب سے بڑا بم گرا کر اپنے مخالفین کو متنبہ کیاتھا لیکن شمالی کوریا یا طالبان پر کوئی اثر نہیں پڑا۔ امریکہ نے شمالی کوریا کو جنگ کی دھمکی بھی دی اور ایک بحری بیڑہ بھی اس کے سمندروں کی طرف روانہ کر دیا۔ شمالی کوریا نے ان دھمکیوں کو خاطر میں نہ لاتے ہوئے اپنے راکٹوں کے تجربات جاری رکھے۔ شمالی کوریا کو علم ہے کہ امریکی اس پر جنگی چڑھائی کی غلطی نہیں کر سکتے کیونکہ جنوبی کوریا کا سب سے بڑا شہر اور خود امریکی فوجیں اس کی توپوں کی زد میں ہیں۔ شمالی کوریا کا مطالبہ ہے کہ اسے جوہری طاقت تسلیم کرتے ہوئے امریکہ اس سے براہ راست گفت و شنید کرے جس کے لئے امریکی ابھی تک تیار نہیں ہیں۔ بنیادی نکتہ یہ ہے کہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ امریکی فوج کے ساز و سامان میں جس قدر بھی اضافہ کر لیں وہ شمالی کوریا کا جنگی حل نہیں نکال سکتے۔
افغانستان میں بھی صورتحال ایسی ہے کہ امریکی فوجوں کے اضافے سے طالبان کا مکمل خاتمہ نہیں کیا جا سکتا۔ امریکی بھی اس امر سے بخوبی واقف ہیں کہ افغانستان کا حل گفت و شنید سے ہی نکل سکتا ہے لیکن وہ فوجوں میں اضافہ اس لئے کر رہا ہے کہ طالبان کو مذاکرات کرنے پر مجبور کیا جائے۔ لیکن سوال پیدا ہوتا ہے کہ طالبان کیوں مذاکرات کی میز پر آئیں گے۔ جب امریکہ کی بڑی فوج ان کو شکست نہیں دے سکی تھی تو پانچ ہزار کے اضافے سے یہ مقصد کیسے حاصل کیا جا سکتا ہے۔ بلکہ ہوگا یہ کہ جب امریکہ کی افغانستان میں فوج میں اضافہ ہوگا اور خانہ جنگی میں تیزی آئے گی تو امریکی ہلاکتوں میں بھی اضافہ ہوگا جس کا اثر امریکی رائے عامہ پر پڑے گا۔ ویسے بھی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تیزی سے غیر مقبول ہو رہے ہیں لیکن ان کی خارجہ پالیسی کو ابھی تنقیدی زاویے سے نہیں دیکھا گیا۔ لیکن جب امریکی فوجیوں کی ہلاکتوں میں اضافہ ہو گا اور افغانستان میں جنگی اخراجات بڑھیں گے تو ان کی خارجہ پالیسی اور جنگ بازی تنقید کا نشانہ بنے گی۔
امریکہ کے افغانستان میں فوجوں کے اضافے کا پاکستان پر بھی اثر پڑے گا۔ امریکہ کے ’’ڈو مور‘‘ کے تقاضوں میں اضافہ ہوگا لیکن امریکہ کا پاکستان پر انحصار بھی بڑھے گا:آخرکار امریکہ کی بڑھتی ہوئی فوج کی سپلائی کا واحد راستہ پاکستان ہے۔ مزید برآں جب پاکستان خطیر رقم امداد میں لے کر ’’ڈو مور‘‘ کے تقاضوں کو نظر انداز کر رہا تھا تو اب وہ امریکی مطالبات کو کیوں تسلیم کرے گا جب کہ امریکی امداد منقطع ہو چکی ہے۔ پاکستان اپنی خارجہ پالیسی ہندوستان کے ساتھ تعلقات کو مدنظر رکھ کر ترتیب دیتا ہے۔ پاکستان کو ایسا افغانستان قابل قبول نہیں ہے جو کہ اس سے متصادم ہو اور ہندوستان کے قریب۔ اس وقت پاک، ہند کشیدگی انتہا پر پہنچی ہوئی ہے اور امریکیوں کا جھکاؤ ہندوستان کی طرف ہے۔ ان حالات میں پاکستان اپنی افغان پالیسی میں کوئی تبدیلی نہیں کرے گا۔ غرضیکہ شمالی کوریا کی طرح افغانستان میں بھی امریکی فوج کے نئے ساز و سامان کا کوئی اثر نہیں پڑے گا۔ غالب امکان یہ ہے کہ امریکہ فوجی ساز وسامان میں اضافے سے دنیا پر اپنے غلبے میں اضافہ نہیں کر سکتا۔



.
تازہ ترین