• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
جدید جمہوریہ ترکی کی تاریخ پر جب ہم ایک نظر ڈالتے ہیں تو ہمیں ری پبلکن پیپلز پارٹی اور ترکی لازم و ملزوم نظر آتے ہیں۔ اس کی سب سے بڑی وجہ اس پارٹی کی جانب سےہر موقع پر اتاترک کا نام استعمال کرنا ہے۔اگرچہ اس پارٹی کو اتاترک ہی نے تشکیل دیا تھا اور ان ہی کے اصولوں پر اسے چلا نے کی کوشش کیجاتی رہی۔ ا تاترک کے بعد ری پبلکن پارٹی کی قیادت سنبھالنے والے عصمت انونو نے اتاترک کا نام استعمال کرتے ہوئے ترک مسلمانوں پر ایسے ظلم ڈھائے جس کی کسی مسلمان رہنما سے کبھی بھی توقع نہیں کی جاسکتی تھی۔ عصمت انونو مسلمان تھے لیکن ان کو مذہبِ اسلام سے سخت الرجی تھی انہوں نےاتاترک کی شدید علالت کا فائدہ ا ٹھا کر ان کے جعلی دستخطوں سے اذانِ محمدی کو عربی کی بجائے ترکی زبان میں اداکئے جانے کا حکم نامہ جاری کیا تھا جس کا انکشاف چند سال قبل قدیم دستاویزات کا جائزہ لینے والے ترکی کے ادارہ تاریخِ ترکی کے سابق سربراہ اور موجودہ دور میں نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے رکنِ پارلیمنٹ یوسف حلاچ اولو جوکہ مختلف آرکائیو ز میں فرائض سرانجام دے چکے ہیں نے اس بارے میں مختلف ٹی وی چینلز پر مختلف پروگراموں میں کیا اور اس سلسلے میں تمام ثبوت فراہم کئے بلکہ حکومت سے بھی ری پبلکن پیپلز پارٹی کی اس جعلسازی کیخلاف اقدامات اٹھانے کا مطالبہ کیا تاکہ اتاترک کو اسلام دشمن کے طور پر پیش کرنیوالے افراد کامنہ بند کیا جاسکے۔ یہ ری پبلکن پیپلز پارٹی پر ایسا دھبہ ہے جسے آج تک کسی بھی صورت صاف نہیں کیا جاسکا ہے۔ ری پبلکن پیپلز پارٹی دراصل کبھی بھی عوام تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب نہیں ہوسکی ہے اور نہ ہی اس جماعت کو عوام تک رسائی حاصل کرنے کا شوق ہے۔یہ جماعت عصمت انونو سے لےکر اب تک جب بھی اقتدار میں آئی ہے تو اس کے پیچھے ہمیشہ ہی ترک فوج نے اہم کردار ادا کیا ہے کیو نکہ وہ سیکولر ازم کی آڑ میں اقتدار پر مذہب پرستوں کے قابض ہونے کا واویلا مچاتے ہوئے مذہبی جماعتوں کو اقتدار سے دور رکھنے کی کوشش کرتی رہی ہے اور اس میں ہمیشہ کامیاب بھی رہی۔نجم الدین ایربکان کی حکومت کو بھی مذہب پرست جماعت اور سیکولرازم کی خلاف ورزی کرنیکا الزام لگاتے ہوئے اقتدار سے فارغ کردیا گیا۔ ری پبلکن پیپلز پارٹی نےہمیشہ ہی مذہب پرستوں (مذہب پرستوں سے مراد ایک عام مسلمان سے ہے جو سیکولرازم پر یک طرفہ نہیں بلکہ اس کی صحیح روح کے مطابق عمل درآمد کرنے کا خواہا ں ہے) کو کچلنے کیلئے فوج کو استعمال کرنے سے گریز نہ کیا۔ ترکی میں عام ترک جو کہ اپنے آپ کو مسلمان کہلوانے پر فخر محسوس کرتا ہےکبھی ری پبلکن پیپلز پارٹی کی مسلمانوں کیخلاف پالیسی کی حمایت نہیں کرتا۔ ترکی میں اگر طویل عرصے تک ہیڈ اسکارف والی طالبات کیلئے اعلیٰ تعلیم کے دروازے بند کئےگئے تواس کی مکمل ذمہ داری ری پبلکن پر ہی عائد ہوتی ہے۔ترکی میں اگر مختلف وزارتوں میں مذہب پرستوں کو روزگار کے مواقع نہیں دیئےگئے تو اس کی سب سے بڑی وجہ بائیں بازو کی جماعت ری پبلکن پارٹی ہی ہے جس نے ہمیشہ ہی فوج کی مدد سے اقتدار میں آکر ان افراد کے لئے ملازمتوں کے دوازے بند رکھنے کیلئے وقتاً فوقتاً پارلیمنٹ سے بل منظور کروائے اور پھر ان کو بیورو کرسی کا حصہ بننے سے دور رکھا۔ ایردوان دور سے قبل تک فوج کے سالانہ شوری ٰ کے اجلاس میں مذہب پرست فوجیوں کی اے سی آر خراب کرتے ہوئے ان کو خارج کردیا جاتا اور کوئی بھی سول حکومت اس اقدام کو چیلنج کرنے کی ہمت نہ کر پاتی یہ ایردوان ہی تھے جنہوں نے سب سے پہلے اس اسلام دشمنی پر مبنی پالیسی کو ہمیشہ ہمیشہ کیلئے ختم کروادیا۔
جیسا کہ میں پہلے عرض کرچکا ہوں کہ ری پبلکن پیپلز پارٹی ہمیشہ ہی فوج کے کاندھے پر سوار ہو کر اقتدار میں آتی رہی ہے اور پھر فوج ہی کے دباؤ کے نتیجے میں نام نہاد سیکولر ازم کو ملک کی بقا کا واحد ذریعہ قرار دیاجاتا رہا ہے۔ ایردوان جو اپنے دور کے دنیا کے نہ صرف عظیم سیاستدان ہیں بلکہ وہ ایک ایسے ا سٹرٹیجسٹ ہیں جس کی دنیا میں کوئی مثال نہیں ملتی۔ وہ اس بات سے بخوبی آگاہ ہیں کہ ری پبلکن پیپلز پارٹی ماضی کی طرح مستقبل میں بھی عوام کی حمایت حاصل کئے بغیر ہی غیر قانونی طریقے سے اقتدار میں آنے کی اپنی کوشش جاری رکھے گی اور مذہب پرستوں کو نقصان پہنچانے کا کوئی دقیقہ فروگزاشت نہیں کریگی اور اقتدار میں آنے کی صورت میں ان پر ظلم و ستم ڈھائےگی۔ انہوں نے ترکی کے عام انسانوں کو ری پبلکن پیپلز پارٹی کی غیر انسانی اور غیر سیاسی سرگرمیوں سے بچانے کیلئے ایک ایسا نظام ملک میں متعارف کروانے میں کامیابی حاصل کی ہے جس میں آئندہ بیس سے تیس سالوں تک ری پبلکن پیپلز پارٹی سے تعلق رکھنے والی کسی بھی جماعت کے اقتدار میں آنے کاکوئی چانس نہیں ہے اس کی وجہ لوگوں کے دلوں میں ری پبلکن پارٹی کا خوف اور ظلم و ستم ہے جو عصمت انونو کے دور سے شروع ہوا اور ری پبلکن کے اقتدار میں آنے کے ہر دور میں مزید خطر ناک صورت اختیار کرتا رہا۔ اس خوف کی وجہ سے ترک عوام کا صرف 25فیصد حصہ جو کہ ہر صورت میں ری پبلکن پیپلز پارٹی کو ووٹ دینے کا عزم رکھتا ہےجبکہ اس کے علاوہ کسی ایک شخص کو ری پبلکن پیپلز پارٹی کے حق میں ووٹ ڈلوانے کیلئے قائل کرنا ممکن نہیں ہے۔ مجھے اس بات کا احساس ہے کہ ہمارے قارئین گزشتہ صدارتی ریفرنڈم کا حوالہ ضرور دینگے جس میں ایردوان کو صرف ساڑھے اکیاون فیصد ووٹ ملے ہیں جبکہ ان کیخلاف اتحاد نے 48فیصدکے لگ بھگ ووٹ حاصل کئے ہیں۔ اگرچہ ری پبلکن پارٹی نے اس صدارتی ریفرنڈم میں اپنی حد سے بڑھ کر ووٹ حاصل کئے ہیں لیکن اس میں اس پارٹی کے علاوہ بھی دیگر جماعتوں کے ووٹ شامل ہیں۔ ایردوان کے خلاف جماعتوں کے اتحاد نے اڑتالیس فیصد کے لگ بھگ ووٹ حاصل کئےہیں لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے ترکی میں 25فیصد عوام کے سوا ایک ووٹ بھی بائیں بازو کی جماعت کو کسی بھی صورت نہیں پڑ اہے۔ آئندہ جب بھی صدارتی انتخابات ہونگےصورتِحال واضح ہو جائیگی۔ ویسے بھی ایردوان کیخلاف بائیں بازو کے کسی رہنما کے صدارتی امیدوار کے طور پر صدارتی انتخابات میں حصہ لینے کے کوئی امکانات نہیں ہیں۔ اگر ایردوان کے خلاف کسی بھی شخص کو صدارتی امیدوار کے طور پر کھڑا کیا گیا تو بلاشبہ اس کا تعلق بھی دائیں بازو کی جماعت ہی سے ہوگا۔ اس طرح ایردوان نے ری پبلکن پیپلز پارٹی کو ایک ایسی عبرتناک شکست سے دوچار کردیا ہے کہ آئندہ بیس سے پچاس سالوں تک اس جماعت کے اقتدار میں آنے کے امکانات دکھائی نہیں دیتے، تاہم اگر اس جماعت کو پہلے سے زیادہ ووٹ حاصل کرنا ہیں تو سب سے پہلے اس جماعت کو اپنا نام اور پالیسی تبدیل کرنا ہوگی ورنہ ناکامی اس کا مقدر ہے۔ ایردوان نے ری پبلکن پیپلز پارٹی کے ماضی میں کئے جانیوالے ظلم وستم دیکھتے ہوئے ہی دائیں بازو کی ایک جماعت نیشنلسٹ موومنٹ پارٹی کے ساتھ صلاح مشورے کے بعد ہی صدارتی ریفرنڈم کروانے کا فیصلہ کیا تھا اور اس میں کامیابی حاصل کی تھی۔ دائیں بازو کی ان دونوں جماعتوں کے اتحاد ہی کی وجہ سے بائیں بازوکی اس جماعت کیلئے ایک طویل عرصےتک اقتدار کے دروازے بند ہوگئے ہیں بلکہ یہ کہا جائے کہ اس جماعت کے سامنے دیوار چُن دی گئی ہے تو زیادہ بہتر ہوگا۔ ری پبلکن پیپلز پارٹی اپنا نام اور پالیسی تبدیل کئے بغیر کسی بھی صورت صدارتی انتخابات میں کامیابی حاصل نہیں کرسکتی اور یہی ایردوان کی اسٹرٹیجی تھی جس میں وہ سو فیصد کامیاب رہے ہیں۔



.
تازہ ترین