• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پارلیمنٹ کے ایوان بالا (سینیٹ) میں کمپنیوں کے 33سال پرانے قانون کی جگہ نئے کمپنیز ایکٹ کی منظوری سے ایک جانب یہ امید قوی ہوئی ہے کہ ہمارا کارپوریٹ سیکٹر مزید بہتری، جدیدیت اور شفافیت کی طرف گامزن ہو رہا ہے تو دوسری جانب عوامی سطح پر یہ توقعات کی جا رہی ہیں کہ نت نئے ناموں سے مختلف نوع کی کمپنیوں ،خاص طور پر رئیل اسٹیٹ کمپنیوں کے ذریعے سبز باغ دکھا کر بھاری رقمیں بٹور کر ملک سے فرار ہونے والے نوسر بازوں کو اپنا کھیل مزید جاری رکھنے کا موقع نہیں ملے گا۔ مذکورہ قانون اگرچہ 6فروری2017 ءکو قومی اسمبلی سے منظور ہو چکا ہے مگر بعدازاں سینیٹ کی قائمہ کمیٹی برائے خزانہ نے اس کی ایک ایک شق پر تفصیلی غور کر کے مزید بہتری کے لئے تجاویز مرتب کیں اور 15مئی2017کو ترامیم سمیت یہ قانون سینیٹ کے اجلاس میں منظور کر لیا گیا۔ توقع ہے کہ جمعہ کے روز پارلیمنٹ کے ایوان زیریں (قومی اسمبلی) میں اس کی دوبارہ منظوری دے دی جائے گی اور صدر مملکت کے دستخطوں کے بعد آئندہ ہفتے یہ ایکٹ باضابطہ نافذ ہو جائے گا۔ اس ایکٹ میں 33سال قبل جنرل ضیاءالحق کے دور میں نافذ کردہ کمپنیز آرڈی نینس 1984کو بہتر، سادہ، جدید اور بین الاقوامی معیارات کے مطابق بنایا گیا ہے جبکہ اس کی مبہم شقوں کو واضح بناتے اور جدید دور کی ضروریات سے ہم آہنگ کرتے ہوئے کارپوریٹ اداروں کے معاملات کو آسان بنایا گیا ہے۔ عام آدمی کے نقطۂ نظر سے مذکورہ قانون کا یہ پہلو خاص اہمیت کا حامل ہے کہ اس میں ان خامیوں کو دور کیا گیا ہے جن کا فائدہ پرانے قانون پر پوری طرح عمل نہ ہونے یا اس کی شقوں کے ابہام کے باعث بعض سماج دشمن عناصر نے اٹھایا۔ خاص طور پر جائیدادوں کی خریدو فروخت کے شعبے میں اپنا پیٹ کاٹ کر رقوم اور قسطیں جمع کرانے والے غریب اور متوسط طبقے کے لوگوں کو جس بری طرح لوٹا گیا اسے نرم سے نرم لفظوں میں بے رحمانہ استحصال سے تعبیر کیا جا سکتا ہے۔ معاملے کا افسوس ناک پہلو یہ ہے کہ نجی یا سرکاری زمینوں پر ناجائز قبضہ کرکے عوام کو پلاٹ، فلیٹ یا مکانات فروخت کرنے والے بعض عناصر طویل عرصے تک کھلم کھلا اپنی اسکیموں کی تشہیر کرتے رہے۔ یہاں تک کہ بعض اہم شخصیات کے ان ہائوسنگ اسکیموں کے دوروں کی تصاویر کی اشاعت کے ذریعے معاملے سے ان کے تعلق کا تاثر پیدا ہوا ۔ حد یہ ہے کہ بعض مشہور کمپنیاں عوام کو کسی ایک جگہ پلاٹ، فلیٹ یا مکان کی ترغیب دے کر رقوم وصول کرنے کے بعد انہیں بار بار جگہ تبدیل ہونے کے نام پر خوار کرتی رہیں جبکہ کئی اسکیموں میں الاٹمنٹ حاصل کرنے والوں کی چہار دیواریاں گرا کر مسلح افراد کی نگرانی میں نئی اسکیم کے نام سے زمینیں بیچنے کا دھندہ دیکھنے میں آیا۔ملک بھر میں رئیل اسٹیٹ کے نام سے ہزاروں کمپنیاں موجود ہیں جن میں سے سینکڑوں کمپنیوں کے مالکان رقمیں جمع کرکے غائب ہو چکے ہیں۔ کراچی میں سرکاری زمین پر فلیٹوں کی تعمیر اور فروخت کے بعد مالک غائب ہو گیا اور عدالت کے سامنے مسئلہ یہ ہے کہ بنی بنائی بلڈنگ کے ساتھ کیا کریں۔ نئے قانون میں پروجیکٹ اور عوام کے درمیان اشتہارات سے لیکر معاہدوں تک تمام مراحل میں سیکورٹیز ایکسچینج کمیشن آف پاکستان (ایس ای سی پی) کو کھڑا کیا گیا ہے۔ نئے قانون کے تحت ایک جانب پاکستان میں بزنس کرنا آسان ہو گا اور زیادہ سرمایہ کاری آئے گی تو دوسری طرف کمپنیوں میں شیئر رکھنے والے افراد اور افسروں کو پابند کیا گیا ہے کہ وہ دنیا کے کسی بھی حصے میں کسی کمپنی یا پراپرٹی میں اپنے مفادات سے متعلقہ اتھارٹی کو مطلع کریں۔ اس سے منی لانڈرنگ پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔ بڑی کمپنیوں میں ایک خاتون ڈائریکٹر کی تقرری وومن امپاورمنٹ میں مددگار ہو گی جبکہ کم از کم دو فیصد معذور افراد کو ملازمتیں دینے کی شرط کمپنیوں کو سماجی بہبود کی سرگرمیوں کی طرف مزید متوجہ کرے گی۔ مذکورہ قانون تمام متعلقہ شعبوں کی مشاورت سے بنایا گیا ہے اور توقع کی جانی چاہئے کہ اس پر اس کی روح کے مطابق عملدرآمد یقینی بنایا جائے گا۔

.
تازہ ترین