• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ارشادِ باری تعالیٰ ’’ہم نے تو بتا دیا، اب یہ بندے پر کہ وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا‘‘ اور نبیﷺ تو یہاں تک فرما گئے کہ ’’شکر گزار ہی دنیا و آخرت میں کامیاب ہوں گے‘‘۔
سرد ترین رات کا آخری پہر، شیخ سعدیؒ نماز کیلئے نکلے، جوتے ٹوٹ چکے لہٰذ ا ننگے پاؤں مسجد پہنچتے پہنچتے ٹھنڈ سے پاؤں ایسے کہ کاٹو تو خون نہیں، اس روز شیخ سعدیؒ نے نماز کے بعد دعا کیلئے ہاتھ اُٹھائے تو بے اختیار زبان پر آگیا ’’اللہ تیرا شکر تو نے ان نعمتوں سے بھی نواز رکھا جن کا میں حقدار نہیں لیکن رب العالمین اب سردی میں ننگے پاؤں چلا نہیں جاتا‘‘، قبولیت کی ایسی گھڑیاں تھیں کہ مسجد سے گھر آئے شیخ سعدیؒ ابھی صحیح طرح سے بیٹھ بھی نہ پائے کہ دروازے پر دستک ہوئی، دروازہ کھولا تو سامنے وہ شخص جسے پہلے کبھی نہ دیکھا، شیخ سعدی ؒ نے حیران ہو کر کہا ’’جی فرمائیے‘‘ اجنبی نے پوچھا ’’آپ شیخ سعدیؒ ہیں‘‘ بولے ’’جی ہاں‘‘ یہ سن کر اجنبی نے جلدی جلدی کپڑے میں لپٹی کوئی چیز شیخ سعدیؒ کو دےکر کہا ’’یہ لیجئے اپنی امانت‘‘ اور پھر یہ جا وہ جا، ہکا بکا کھڑے شیخ سعدیؒ نے چند لمحوں بعد کپڑے کی تہیں کھولیں تو اندر اچھی خاصی رقم اور پھر وہیں کھڑے انہیں جب اچانک اپنی مانگی دعا یاد آئی تو آنکھوں میں آنسو آگئے، خیر اُس روز خوشی خوشی وہ گھر سے جوتے لینے نکلے اور ابھی بازار سے دور ہی تھے کہ نظر اس شخص پر پڑی جس کی ٹانگیں گھٹنوں تک کٹی ہوئیں، یہ دیکھتے ہی شیخ سعدیؒ کی حالت غیر ہوئی، وہیں زمین پر بیٹھے، زار و قطار روئے اور پھر بہتے آنسوؤں میں آسمان کی طرف منہ کر کے بولے ’’اللہ معاف کر دینا، میں یہ بھول گیا کہ جوتے تو نہیں مگر میرے پاؤں تو سلامت‘‘ یہ روایت یوں بھی بیان ہوئی کہ ایک روز شیخ سعدیؒ جب اللہ تعالیٰ سے اپنے ٹوٹ چکے جوتوں کے گلے شکوؤں میں مصروف تھے تو ان کی نظر اس بھکاری پر پڑی کہ جس کے دونوں پاؤں نہیں تھے، یہ دیکھ کر وہ احساسِ ندامت میں بے اختیار کہہ اُٹھے ’’اللہ تیرا شکر کہ تو نے مجھے جوتوں سے محروم رکھا، پاؤں سے نہیں‘‘۔
دوستو! ہمارا رویہ بھی کچھ اسی طرح کا، ہمارے پاس جو نہ ہو ہم اس کے غم میں وہ بھی بھلا دیں جو ہمارے پاس ہو اور یوں شکر کی بجائے گلے شکوے ہی کرتے رہیں، ذرا سوچئے کیا یہ شکر کا مقام نہیں کہ ہمارا اللہ وہ جو ہمیں ماں سے زیادہ پیار کرے اور جو دے دے کر نہ تھکے، ہمارے پاس وہ کتاب جو پہلی سانس سے آخری ہچکی تک مکمل ضابطۂ اخلاق اور ہمارے وہ رحمۃ للعالمین نبیﷺ جو ہمیں پیدا ہونے سے مرنے تک سب کچھ عملی طور پر کر کے دکھا گئے، کیا یہ شکر کا مقام نہیں کہ ہم آزاد اور ہمار ے پاس وہ ملک جہاں چاروں موسم، دریا، سمندر، پہاڑ اور صحرا، جہاں ہر فصل، ہر پھل اور جہاں ایسی نعمتیں اور ایسے نظارے کہ جن کی پوری دنیا میں نظیر نہیں، کیا یہ شکر کا مقام نہیں کہ ہماری زندگیوں میں صحت، سکون، رشتے دار، دوست، گھر اور روزگار سمیت ہر شے موجود، کیا یہ شکر کا مقام نہیں کہ ہم انسان پیدا ہوئے، جانور نہیں، ہم لاکھوں خداؤں کی پوجا کرتے کسی ہندو کے گھر نہیں اُگے اور ہم روانڈا، ہیٹی یا صومالیہ کی بھوک اور افلاس کا حصہ نہیں بنے، کیا یہ شکر کا مقام نہیں کہ ہماری قسمت عراق، شام اور لیبیا کے ان 20ارب پتیوں جیسی نہیں کہ جنہیں آج دال روٹی کیلئے پناہ گزین کیمپوں کی لائنوں میں لگنا پڑ رہا اور ہم دنیا کے ان ڈھائی لاکھ میں سے نہیں کہ جنگوں نے جن کا ایک رشتہ بھی زندہ نہ چھوڑا، کیا یہ شکر کا مقام نہیں کہ ہم دنیا بھر کی جیلوں میں بند ساڑھے 10ملین قیدیوں میں سے نہیں، ہم ایک ارب ان پڑھوں میں سے نہیں، ہم 70ملین ایڈز زدہ میں سے نہیں اور ہم ان 9ملین میں سے نہیں کہ جنہیں اولڈ ہومز میں رہنا پڑ رہا، کیا یہ شکر کا مقام نہیں کہ ہم غربت کی لکیر سے بھی نیچے زندگی گزارتے 3ارب میں سے نہیں، ہم 39ملین بینائی سے محروم،1ارب ذہنی اور جسمانی معذوروں میں سے نہیں اور کیا یہ شکر کا مقام نہیں کہ ہم 100ملین بے گھر لوگوں میں سے نہیں، ہم 2سو ملین بیروزگاروں میں سے نہیں، ہم ان 16فیصد میں سے نہیں کہ جن کا کوئی خدا اور نہ کوئی مذہب اور ہم ان 25ملین میں سے نہیں کہ جو نہ مَردوں میں اور نہ عورتوں میں، ہو سکتا ہے کہ آپ قیدی ہوں، معذور ہوں اور بیروزگار ہوں اور عین ممکن ہے کہ آپ زندگی کے کسی شعبے میں کسی کمی کا شکار ہوں لیکن یہ بھی اک حقیقت کہ جب بھی آپ نعمتوں کا شمار کریں گے تو جو کچھ اللہ نے آپ کو دے رکھا وہ اس سے بہت زیادہ کہ جس سے آپ محروم، یہاں یہ بتانا بھی ضروری کہ اگر آپ چاہتے ہیں کہ وہ بھی مل جائے جو ابھی تک نہیں ملا ہوا، تو جو کچھ ملا ہوا، ا سے یاد کر کے مسلسل شکر کریں گے تو وہ بھی مل جائے گا کہ جو نہیں ملا ہوا، حضورِ والا یہ میں نہیں حضرت علیؓ کہہ رہے کہ ’’شکر کرو گے تو نہ صرف اللہ نعمتوں میں اضافہ کرے گا بلکہ وہ بھی عطا کر دے گا کہ جس سے تم محروم‘‘، یہاں یہ بھی یاد رہے کہ شکر کی ادنیٰ قسم زبان سے شکر کرنا اور افضل ترین شکر اللہ کی دی ہوئی نعمتوں میں دوسروں کو شریک کرنا۔
صاحبو! مجھے اڈیالہ جیل کا وہ قیدی یاد آرہا کہ جسے 3دن بعد سزائے موت ہونا تھی اور جس سے باتوں باتوں میں جب میں یہ پوچھ بیٹھا کہ ’’کوئی خواہش جو ادھوری رہ گئی ہو‘‘، تو یہ سن کر گزشتہ 18سالوں سے قید و بند کی ہر صعوبت کا جوانمردی سے سامنا کرنے اور 4x6فٹ کی بدبودار اور نیم تاریک کال کوٹھری میں متوقع پھانسی سے 3دن پہلے بھی قہقہے مارنے والے اونچے لمبے اور چوڑے شانوں والے اس سرخ و سفید شخص کا چہرہ یکایک بجھا، آنکھوں میں آنسو آئے اور اس نے لوہے کی سلاخیں پکڑ کر اپنا سر ہاتھو ں کے درمیان سلاخوں پر رکھ کر بچوں کی طرح ہچکیاں لے لے کر روتے ہوئے کہا ’’بس ایک بار... صرف ایک بار لکڑیوں والے چولہے پر روٹیاں پکاتی ماں جی کے پاس زمین پر بیٹھ کر کھانا کھانا چاہتا ہوں‘‘ بار بار یہ دہراتے ہوئے وہ اس درد سے رویا کہ جیل سپرنٹنڈنٹ سمیت ہم سب کی آنکھوں میں بھی آنسو آگئے اور پھر چوتھے دن جب میں نے اڈیالہ جیل کے مرکزی دروازے کے باہر اس کی لاش سے بار بار سفید چادر ہٹا کر کبھی منہ تو کبھی ہاتھ چومتی ایک بوڑھی عورت کو دیکھا تو مجھے یہ سمجھنے میں زیادہ دیر نہ لگی کہ یہی وہ ہستی کہ جس کے پہلو میں بیٹھ کر کھانا کھانے کی حسرت لئے وہ اگلا جہان سدھار چکا، یہاں مجھے اپنے ملک کا وہ ارب پتی بھی نہ بھولے کہ زندگی کے آخری دنوں جس کے پھیپھڑے سکڑنے پر جب دنیا بھر کے ڈاکٹر جواب دے چکے تو ناک کے ذریعے مصنوعی آکسیجن لینے اور ہر وقت آکسیجن کا سلنڈر ساتھ رکھنے والا یہ دولت مند ایک دن بولا ’’اگر اس مصنوعی آکسیجن سے کوئی میری جان چھڑوا دے تو میں اسے اپنی ساری دولت دیدوں‘‘، مجھے بینائی سے محروم وہ شاعر بھی نہیں بھولتا کہ ایک شام جو اپنی بے نور آنکھوں میں آنسو بھر کر کہنے لگا ’’بس ایک دن کی بینائی مل جائے تو پھر موت بھی قبول‘‘ اور میں آئے روز کسی نہ کسی پارک کے کونے میں گاڑی کھڑی کر کے کھیلتے کودتے بچوں کو دیکھ کر آنسو بہاتے بے اولاد سابق وزیر کو بھی فراموش نہیں کر سکتا، داستانیں تو اور بھی بہت، مگر مجھے یقین کہ جو سمجھانا چاہتا تھا وہ آپ سمجھ چکے، لہٰذا دوستو! ہو سکتا ہے کہ آپ کو زندگی کی تپتی دھوپ یا یخ بستہ سردی میں ننگے پاؤں چلنا پڑ رہا ہو مگر یہ سوچتے ہوئے ناشکرا پن چھوڑ کر شکر گزار ہو جائیں کہ جوتے نہیں تو کیا ہوا پاؤں تو سلامت، شکر گزار ہو جائیں کیونکہ کوئی بھی پریشانی خاموش رہنے سے کم، صبر کرنے سے ختم اور شکر کرنے سے خوشی میں بدل جائے، شکر گزار ہو جائیں کیونکہ جسے اللہ پر یقین نہیں وہ مایوس اور جو شکر گزار نہیں وہ محروم، شکر گزار ہو جائیں کیونکہ گزشتہ نعمتوں پر شکر آئندہ نعمتوں کا سبب بنے، شکر گزار ہو جائیں کیونکہ ایمان کے دو ہی حصے ایک صبر اور دوسر ا شکر، شکر گزار ہو جائیں کیونکہ اللہ تعالیٰ یہ فرما چکے کہ ’’ہم نے تو بتا دیا، اب یہ بندے پر کہ وہ شکر کرنے والا بنے یا کفر کرنے والا‘‘ اور شکر گزار ہو جائیں کیونکہ نبیﷺ کب کے یہ خوشخبری سنا گئے کہ ’’شکر گزار ہی دنیا وآخرت میں کامیاب ہوں گے‘‘۔

.
تازہ ترین