• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مملکت خداداد پاکستان کا قومی سفر آئینی بنیادوں پر ارتقا پذیر ہے۔ قومی خوش قسمتی کے اس واقعہ کو بلا کسی ذہنی کومپلیکس کے تسلیم کیا جانا چاہئے، کسی کو شکست دینے کے لئے میدان سیاست کو آزمائش میں ڈالنا روٹین کا معاملہ ہے مگر ملک کو ہی دائو پر لگا دینا یقیناً عملی حب الوطنی نہیں، بہرحال موجود تلخ لمحے کے مطابق ہو یہی رہا ہے، انٹر سروسز پبلک ریلشنز (آئی ایس پی آر) افواج پاکستان کا ترجمان ادارہ ہے۔ نیوز لیکس کے حوالے سے اس کے ایک ٹویٹ کو ایسے ہی عدم توازن کی سان پر چڑھایا گیا جس سے ایسا لگتا تھا، حکومت پاکستان اور افواج پاکستان دو فریقوں کے طور پر آمنے سامنے کھڑے ہو چکے ہیں۔
پاکستان کا قومی جمہوری پارلیمانی نظام 1973 کے آئین کی رو سے نافذ اور جاری ہے، یہ منتخب وزیراعظم، منتخب وفاقی کابینہ اور سینیٹ کی مثلث میں اپنے امور سرانجام دیتا ہے۔ آئین منتخب وزیراعظم کو ملک کا آئینی چیف ایگزیکٹو ڈیکلیئر کرتا ہے، تمام وفاقی اور ریاستی ادارے اسی آئینی جمہوری نظام کے تحت منتخب وزیراعظم پاکستان اور وفاقی حکومت کے احکامات کی پابندی کے پابند ہیں، ملکی جمہوری پارلیمانی نظام کی یہ سیدھی سادھی آئینی عملیت او ر تعبیر ہے، نہ اس میں کسی کی ذات کا مسئلہ نہ کوئی ریاستی ادارہ اپنی کسی ’’جداگانہ ذات‘‘ کی باعث اس آئینی بندوبست سے علیحدہ یا ماورا ہے نہ اس آئینی بندوبست کے تحت منتخب نمائندوں اور اداروں کے مقابل کوئی ریاستی ادارہ کھڑا ہے۔ ملک کے وفاقی پارلیمانی جمہوری نظام کا یہ آئینی بندوبست، اخلاص یا بدنیتی کے ساتھ اپنی لاعلمی یا شر پسندانہ موشگافیوں کے ذریعہ جمہوری تسلسل کے درپے آزاد لا علم یا فتنہ گر، دونوں گروہوں کی پریشان خاطری کا باعث ہے۔ یقینی طور پر موجودہ منتخب نظام کے جمہوری تسلسل کا حالیہ ابھرتے ہوئے داخلی اور خارجی بحرانوں کے لئے شاک آبزرور ہوتے ہوئے ان بحرانوں کو آئینی طریق کار کی بنیادوں پر استوار حل کی پٹری پر ڈال دینا، پھر ان بحرانوں کا حل ہو جانا سو فیصد ان افراد، گروہوں اور قومی سیاسی جماعتوں کے لئے ایک جانکاہی کی حد تک ایک صدمہ انگیز لمحہ ہے، خصوصاً جبکہ عام قومی انتخابات کے انعقاد میں صرف ایک سال باقی رہ گیا ہے!
آئندہ متوقع عام قومی انتخابات میں ’’لوگ کارکردگی کا حساب پوچھیںگے‘‘ والی بات گو منتخب وزیراعظم نواز شریف کے منہ سے ہی نکلی ہے مگر جن لوگوں یا جماعتوں کو ان کا ’’منہ‘‘ پسند نہیں یا وہ سب جن کے منہ یہ اصول ہر وقت دہراتے رہتے ہیں اور انہی لوگوں یا جماعتوں کو ان کے منہ بھی برے لگتے ہیں، آج 2017میں قومی سیاست کی جمہوری ثقافت نے پیسے، ذات برادری، مادی بنیادوں پر انتخابی اہلیت کے طے شدہ خاندان یا افراد پس پردہ گرگوں کے چھوٹے چھوٹے ابن الوقت دھڑوں، سب کو ہر گزرتے دن ’’لوگ اب حساب پوچھیں گے، کے سوالاتی ملبے کے دبائو کا قیدی بنا دیا ہے اور ہر گزرتے دن اس دبائو سے ان کی کمر کی کڑکڑاہٹ قریب تر آتی جائے گی، اس ’’طے شدہ انتخابی اہلیت کے حامل عنصر، جس کیلئے الیکٹ ایلبز (Electables)کی اصطلاح استعمال کی جاتی ہے، کو ناکامی و نامرادی کے سیاہ بادلوں کے منحوس سائے اپنی لپیٹ میں لیتے جائیں گے تاآنکہ عوامی ووٹوں سے منتخب شدہ آئینی حکومتوں کا جمہوری تسلسل اور اس جمہوری تسلسل کے زیر سایہ ہر آئینی مدت کی تکمیل پر عام قومی انتخابات کے انعقاد کا تسلسل ایسے افراد، گروہوں، قبیلوں، دھڑوں کی سیاسی تدفین پر ختم ہو گا، اور ساتھ ہی جمہوری تسلسل کی ان برکتوں سے پرنٹ بالخصوص الیکٹرونک میڈیا میں موجود وہ سب افراد اور گروپس جن کا ملک و قوم کے لئے ’’غم‘‘ ہر منتخب جمہوری حکومت کو اس کی آئینی مدت سے پہلے گھر بھیجنے کے سوا دور ہی نہیں ہو سکتا، ان کی ریٹنگ اور کاروبار حالت مرگ کا سامنا کر رہا ہو گا، ویسے سیکنڈ لسٹ الیکٹرانک میڈیائی عنصر اس حالت مرگ سے عملاً دوچار ہو چکا ہے۔
جمہوری عصری شعور پاکستان ہی میں نہیں دنیا بھر میں اسٹیبلشمنٹس کے تصورات پر اب شدید ترین احتجاج کرنے لگا ہے، تمام ممالک میں اسٹیبلشمنٹ اپنا الگ وجود منوانے میں کامیاب دکھائی دیتی ہے، لوگ اس بنا پر اس کی طاقت کا ایکہیولا قائم کر لیتے ہیں لیکن مجموعی سچائی کیا ہے؟ مجموعی سچائی کی تاریخی حقیقت کے مطابق ملکوں کی حکومتیں اور عوام اس ادارے کو اپنی سلامتی کے لئے جان پہ کھیل کے بناتے، بڑھاتے اور پرورش کرتے ہیں، بس یہ ’’ملکی سلامتی اور بقا‘‘ ہی وہ دروازہ ہے جس میں داخل ہونے کے بعد، ایک وقت کے بعد اسٹیبلشمنٹ اپنا نقشہ تشکیل دیتی اور اسے ہی ’’پہلا اور آخری سچ‘‘ڈیکلیئر کر دیتی ہے، یہ کوئی پاکستانی ہی نہیں ترقی یافتہ جمہوری ممالک بھی اس ’’ناگزیر مجبوری ‘‘ کے قیدی ہیں کہ سرحدوں کے اندر اور باہر کے خطرات تو اسٹیبلشمنٹ نے ہی سنبھالنے ہوتے ہیں، جمہوری تسلسل کی مضبوطی البتہ ایک وقت پہ اسٹیبلشمنٹ کو ’’آئینی بندوبست‘‘ کا پابند بنانے کی پوزیشن لے لیتی ہے، یہی کچھ پاکستان میں ہو رہا ہے، قومی جمہوری تسلسل کو اب ’’ڈی ٹریک‘‘ کرنے کا معاملہ گزری چھ ساڑھے چھ دہائیوں کے نعروں کا چارہ نہیں رہا، اب ’’ڈی ٹریک‘‘ کرنے کا مطلب اپنے سمیت سب کچھ ایسے بہائو میں لے جانے سے ہے جس کی رفتار اور نتائج کو مقدر ساز کے سوا کوئی کنٹرول نہیں کر سکے گا۔
جمہوری عصری شعور اسٹیبلشمنٹ کے تصورات پر شدید ترین احتجاج کرتا ہے، طاقت کا اظہاریہ یا بالادست کے بیانئے کا وجود اس جمہوری عصری شعور کو اپنے اظہار اور بیان سے نہیں روک پاتا، مثلاً انہی دنوں ہمارے ہاں اس جمہوری عصری شعور کی نظریاتی گرفت کی متعدد مثالیں اشاعت پذیر ہوئیں، ایک سے زائد نمونے آپ بھی دیکھتے چلیں۔
(1) آئی ایس پی آر کی 29اپریل 2017کی ٹویٹ نے ہیجان اور بے یقینی کی فضا پیدا کر دی تھی ’’ٹویٹ‘‘ تو گزشتہ دور کےفوجی ترجمان کی طرف سے بھی جاری ہوتے رہتے تھے، لیکن اس بار تو معاملہ اور تھا۔ پرائم منسٹر ہائوس کی طرف سے متعلقہ محکموں کو جاری کردہ انٹرنل نوٹ کے لئے Rejectedکے لفظ کا تو تصور بھی نہیں کیا جا سکتا تھا۔
(2)لیکن جب فوج اپنی حدود سے باہر قدم نکالتے ہوئے ایک سویلین حکومت کو ڈسپلن سکھانے کی کوشش کرتی ہے تو ہمارے سامنے ایک الجھن ہوتی ہے کہ کیا ہم آئینی اصولوں کا ساتھ دیں یا طاقت کے ننگے استعمال کا، چاہے اس کا مقصد کتنا ہی احسن کیوں نہ بتایا جائے؟
(3) بات مٹھی بھر اختلاف کرنے والوں کی نہیں ہوتی، اصل طاقت اس سچائی میں ہوتی ہے جسے مفاد اور جبر کے نام پر دبانے کی کوشش کی جاتی ہے لیکن دن رات کےمشاہدے سے عوام تک پہنچ جاتی ہے۔ کل این جی او کے لفظ کو گالی بنا دیا تھا اب سوشل میڈیا کے خلاف زور خطابت دکھایا جا رہا ہے!
جمہوری عصری شعور کے احتجاجی تناظر میں پہلا نقطہ نظر رئوف طاہر، دوسرا بابر ستار اور تیسرا وجاہت مسعود پیش کر رہے ہیں، تینوں میں عصری اشتراک، آئین کی بالادستی کو وطن کی سب سے بڑی صداقت کے مترادف قرار دینے اور منتخب قیادت کو کسی بھی غیر آئینی زور آوری کے پس منظر میں ہلکا لینے کی ریاستی گستاخی سے ہے۔ گویا پاکستان سمیت دنیا بھر میں جمہوری عصری شعور اسٹیبلش منٹس کو آئینی پابندی کا پابند کرنے کا عہد کر چکا ہے!

.
تازہ ترین