• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ ہم نے آج تک اپنے کسی بھی بڑے قومی المیے کی وجوہات کو تلاش کرنے اور سمجھنے کی سنجیدہ کوشش نہیں کی۔ ہم بار بار غلطیاں کرتے ہیں،بار بار ٹھوکریں کھاتے ہیں، اوندھے منہ گرتے ہیں لیکن غلطی سے سبق حاصل کرنے کی بجائے دوبارہ پرانی غلطیوں کا ارتکاب شروع کردیتے ہیں اور پھر ان غلطیوں سے نئے المیے جنم لیتے ہیں۔ میرے منہ میں خاک لیکن مجھے ایک نئے المیے کا خدشہ نظر آرہا ہے۔ افسوس کہ یہ المیہ ایک ایسی پالیسی کے ردعمل میں جنم لے گا جسے پاکستان کی منتخب پارلیمنٹ نے روکنے کی کوشش کی لیکن منتخب حکومت اور طاقتور ریاستی ادارے پارلیمنٹ کے ساتھ کھڑے نہ ہوئے اور پاکستان کو ایک ایسے اتحاد کی سربراہی پر مجبور کردیا گیا جس کا کنٹرول امریکہ کے نئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے پاس ہوگا۔ ٹرمپ کے غیر ملکی دوروں کا آغاز سعودی عرب سے ہونے والا ہے۔ اس دورے میں امریکہ کی طرف سے سعودی عرب کو اربوں ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کا اعلان ہوگا اور یہ اسلحہ کس کے خلاف استعمال کرنے کے لئے دیا جائے گا مجھے بتانے کی ضرورت نہیں۔ دعویٰ تو یہی کیا جارہا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ایک نیا عالمی اتحاد بنایا جارہا ہے لیکن ہمیں اپنی تاریخ پر نظر دوڑانے کی ضرورت ہے۔ ہم نے جب بھی غیروں کی جنگ میں مداخلت کی تو جنگ کی آگ کو اپنے وطن کا راستہ دکھایا۔ گزشتہ روز انٹرنیشنل اسلامک یونیورسٹی اسلام آباد کے اولڈ کیمپس میں’’ دہشت گردی کے خاتمے میں میڈیا کے کردار‘‘ پر ایک بین الاقوامی سیمینار میں شرکت کا موقع ملا۔ یہاں یونیورسٹی کے ریکٹر ڈاکٹر معصوم یاسین زئی نے اپنی تقریر میں بتایا کہ مردان کی ولی خان یونیورسٹی میں مشال خان کے قتل اور لیاقت میڈیکل یونیورسٹی جامشورو کی طالبہ نورین لغاری کی طرف سے داعش میں شمولیت کے واقعات کے بعد لوگ پوچھنے لگے ہیں کہ ہماری یونیورسٹیوں اور کالجوں میں انتہا پسندی کیوں بڑھ رہی ہے؟ اس انتہا پسندی کو روکنے کے لئے اساتذہ کیا کردار ادا کررہے ہیں؟ اس سیمینار میں میرے سمیت کئی مقررین نے تقاریر کیں اور سفارشات بھی مرتب کی گئیں لیکن پالیسی تو حکومت نے بنانی ہے۔ حکومت کو چاہئے کہ وہ کسی ایسی پالیسی کا حصہ نہ بنے جو پاکستان میں انتہا پسندی اور فرقہ واریت کی آگ کو مزید بھڑکائے۔ ہم لاکھ دعوے کریں کہ پاکستان کی طرف سے سعودی عرب اور یمن کے تنازع میں فریق کا کردار ادا نہیں کیا جائے گا اور پاکستان کی طرف سے سعودی عرب اور ایران کو قریب لانے کی کوشش کی جائے گی لیکن حقیقت یہ ہے کہ ہمیں ایک بین الاقوامی ڈرامے کے تھیٹر ہال میں زبردستی دھکیلا جارہا ہے اور گن پوائنٹ پر ہم سے ایک ایسا کردار ادا کروایا جائے گا جس پر ہمیں ندامت کے سوا کچھ نہ ملے گا۔
پاکستان کے تعلیمی اداروں میں جس انتہا پسندی کے آثار نظر آرہے ہیں اس نے چند مہینوں یا چند سالوں میں جنم نہیں لیا۔ ہمارے کچھ دانشور اکثر اس انتہا پسندی کا منبع دینی مدارس کو قرار دیا کرتے تھے لیکن پتا چلا کہ خان عبدالولی خان کے نام پر قائم یونیورسٹی میں ایک طالبعلم کو توہین رسالتؐ کے غیر مصدقہ الزام میں قتل کردیا گیا۔ اس قتل میں دو تین نہیں درجنوں افراد ملوث تھے۔ اس کا مطلب ہے کہ سوچے سمجھے بغیر مذہب کے نام پر قتل و غارت کے لئے ہر وقت تیار نوجوان پاکستان کی ہر یونیورسٹی میں موجود ہیں۔ کاش! کہ ان نوجوانوں کو اسکول کے زمانے میں یہ بتایا جاتا کہ غداری اور کفر کے فتوے تو علامہ اقبالؒ اور قائد اعظمؒ پر بھی لگائے گئے تھے لیکن یہ فتوے جھوٹ تھے۔ کاش! کہ ان نوجوانوں کو پتاہوتا کہ پاکستان کے پہلے ہندو وزیر قانون جوگندر ناتھ منڈل نے 8اکتوبر 1950ءکو وزارت سے استعفیٰ کیوں دیا تھا اور وہ پاکستان چھوڑ کر بھارت کیوں چلے گئے تھے؟ جوگندر ناتھ منڈل کا تعلق نیچی ذات کے ہندوئوں سے تھا۔ انہوں نے قائد اعظمؒ کی قیادت میں تحریک پاکستان میں بھرپور کردار ادا کیا۔ انہوں نے 1947ءمیں سلہٹ کو پاکستان میں شامل کرانے میں اہم کردار ادا کیا لیکن قائد اعظمؒ کی وفات کے بعد مسلم لیگ کے کچھ لیڈروں نے انہیں نظر انداز کرنا شروع کردیا۔ 13فروری 1950ء کو مشرقی پاکستان کے کچھ شہروں میں ہندو مسلم فسادات ہوئے۔ منڈل نے ان فسادات میں دلتوں کے ساتھ ناانصافی کی شکایت کی لیکن ان کی شکایت نظر انداز کردی گئی۔ کئی ماہ تک وہ انصاف مانگتے رہے آخر کار انہوں نے استعفیٰ دے دیا۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں پڑھانے جانے والے نصاب میں منڈل کا ذکر تو ملتا ہے لیکن ان کا تفصیلی استعفیٰ بہت کم لوگوں کے علم میں ہے جس میں انہوں نے وزیر اعظم لیاقت علی خان کو کہا تھا کہ مجھے پاکستان میں صرف اپنا نہیں بلکہ قرارداد لاہور پیش کرنے والے اے کے فضل الحق اور حسین شہید سہروردی کا مستقبل بھی مخدوش نظر آتا ہے جنہوں نے پاکستان بنانے کے لئے اپنی زندگیاں دائو پر لگادیں۔ منڈل کا استعفیٰ ہماری سیاسی تاریخ کا اہم موڑ نہیں بلکہ ایک المیہ تھا۔ اس ا ستعفیٰ نے 21فروری 1952ء کے لسانی فسادات سے بہت پہلے جنم لیا اور استعفیٰ کی وجہ پاکستان کے غیر مسلموں کے ساتھ مذہبی تعصب کی بنیاد پر روا رکھی جانے والی ناانصافی تھی۔ اس ناانصافی نے مسلم لیگ کو کمزور کیا اور عوامی لیگ وجود میں آئی۔ منڈل کی پیشین گوئی کے عین مطابق اے کے فضل الحق اور حسین شہید سہروردی کو بھی غدار قرار دیا گیا اور پھر قائد اعظم کے پاکستان میں جس کسی نے ناانصافی کے خلاف آواز بلند کی وہ غدار ٹھہرا جس نے بھی ریاستی جبر کے خلاف مزاحمت کی کافر قرار دیا گیا۔ انتہا یہ تھی کہ جنرل ایوب خان نے محترمہ فاطمہ جناح کو انڈین ایجنٹ قرار دے ڈالا۔
پاکستان کے فوجی ڈکٹیٹروں نے اپنی بقا کے لئے پاکستان کو امریکہ کا اتحادی بنایا۔ جنرل ضیاء الحق نے کمیونزم کے خلاف مزاحمت کے نام پر امریکہ کا ساتھ دیا اور جنرل مشرف نے دہشت گردی کے خلاف جنگ کے نام پر امریکہ کا ساتھ دیا۔ دہشت گردی کے خلاف عالمی جنگ لڑتے لڑتے پاکستان خود دہشت گردی کا سب سے بڑا نشانہ بن گیا لیکن شکر ہے کہ پاکستانی قوم کا عزم و حوصلہ نہیں ٹوٹا۔ اب ایک دفعہ پھر پاکستان کو ایک نئی جنگ میں دھکیلا جارہا ہے۔ یہ جنگ پاکستان میں فرقہ وارانہ دہشت گردی کی آگ بھڑکا سکتی ہے اور اس آگ کو بھڑکانے میں ہمارے کچھ ایسے ہمسائے بھی اپنا کردار ادا کریں گے جن کے عزائم سے ہر پاکستانی اچھی طرح واقف ہے۔ پاکستان کو امریکہ سمیت تمام مغربی ممالک سے اچھے تعلقات رکھنے چاہئیں لیکن ان تعلقات کی قیمت پاکستان کی سالمیت نہیں ہونی چاہئے۔ ٹرمپ کی نقل و حرکت اور میل ملاقاتوں پر نظر رکھئے۔ آپ کو خود بخود پتا چلتا جائے گا کہ ٹرمپ دراصل ایک ٹریپ ہے۔ وہ خود ایک نسل پرست مذہبی جنونی ہے جو مسلمانوں کو مسلمانوں کے ہاتھوں مروا کر اپنی نفرت کی آگ بجھانا چاہتا ہے۔

.
تازہ ترین