• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تاریخی و تہذیبی حوالے سے اس خطے میں شاہراہِ ریشم (سلک روڈ) کی جو معاشی اہمیت رہی ہے وہ تاریخ کا حصہ ہے اور اسی کے بطن سے چینی صدر شی چن پنگ کی اس ویژنری سوچ نے جنم لیا ہے۔ جسے آج کی دنیا ون بیلٹ ون روڈ کے الفاظ سے سن رہی ہے۔ ون بیلٹ سے مراد مخصوص پٹی یا خطہ ہے تو روڈ سے مراد تعمیر و ترقی کا نیا سفر ہے۔ دنیا میں ترقی کی نئی راہیں کھولنے کیلئے چین نے نئی شاہراہِ ریشم (اوبور) میں124ارب ڈالر لگانے کے عزم کا اعادہ کیا ہے جس میں وقت کے ساتھ مزید سرمایہ کاری ہوتی چلی جائے گی۔ چینی بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کو مغرب میں ’’نیو سلک روڈ‘‘ کا نام دیا جا رہا ہے اور یہ امید کی جا رہی ہے کہ اس کی بدولت براعظم ایشیا مواصلاتی و تجارتی حوالوں سے افریقہ اور یورپ سے مل جائے گا یوں تینوں براعظموں کے ممالک کو تجارتی فوائد حاصل ہوں گے۔ چین اس منصوبے کے تحت6اقتصادی راہداریاں تعمیر کر رہا ہے، جنہیں باہم مربوط کر دیا جائے گا۔ پاکستان میں تعمیر ہونے والی سی پیک بھی اس کا اہم حصہ ہے۔ روس اور ترکی جیسے اہم ممالک بھی ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کا حصہ بننے جا رہے ہیں۔ انگلینڈ نے بھی اس کی بھرپور حمایت کا اعلان کیا ہے اور کہا ہے کہ منصوبے کے مغربی کنارے پر آباد برطانیہ اس کا فطری شراکت دار ہے۔ امریکہ کا کہنا ہے کہ وہ چین کے انفرا اسٹرکچر روابط پر مبنی منصوبے کی حمایت کرتا ہے اس سے عالمی تجارت کو پھلنے پھولنے کے مواقع میسر آئیں گے۔ ویتنام، کوریا اور جاپان جیسے ممالک بھی اس منصوبے کی حمایت کر رہے ہیں۔
چینی صدر شی چن پنگ کا یہ اظہارِ خیال قابلِ ستائش ہے کہ سلک روڈ منصوبہ انسانی تہذیب کا اہم ورثہ ہے جو اب بیلٹ اینڈ روڈ منصوبے کی شکل میں21ویں صدی کا عظیم ترقیاتی پروجیکٹ ہے۔ اس سے نہ صرف یہ کہ یورپ اور ایشیا کو تجارتی فوائد حاصل ہوں گے بلکہ منصوبے سے منسلک ممالک ایک دوسرے کے قریب آئیں گے۔ جس سے امن، ترقی اور خوشحالی میں معاونت ملے گی۔ چینی صدر کا کہنا ہے کہ محض چار سال قبل یہ وژن پیش کیا گیا اور اس قلیل مدت میں تیس سے زائد ممالک اس کا حصہ بن چکے ہیں۔ ایک سو تیس ممالک اس کی حمایت کر رہے ہیں۔ اقوامِ متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے بنفسِ نفیسِ اوبور کانفرنس میں شرکت کی ہے اور یہ کہا ہے کہ اس منصوبے سے عالمی سطح پر غربت کے خاتمے میں معاونت ملے گی۔ روسی صدر پیوٹن نے کہا ہے کہ اس منصوبے کے ذریعے اکیسویں صدی کے چلینجز سے نمٹا جا سکے گا۔ ترک صدر طیب اردوان نے ون بیلٹ ون روڈ منصوبے کو عالمگیر یت کی ایک نئی شکل قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ اس سے دنیا کی آدھی آبادی مستفید ہو گی۔ کثیرالجہتی تعاون اور مالیاتی انضمام کو فروغ حاصل ہوگا۔
وزیراعظم نواز شریف نے نئی شاہراہِ ریشم کو نئی نسلوں کے لئے تحفہ قرار دیتے ہوئے کہا ہے کہ یہ منصوبہ تین براعظموں کو ملا دے گا۔ دنیا کی آدھی آبادی آپس میں جڑ جائے گی، اب بین البراعظمی تعاون کا دور شروع ہو چکا ہے اسے سیاسی رنگ نہ دیا جائے۔ یہ منصوبہ تمام ممالک کے لئے ہے جو سرحدوں کے پابند نہیں۔ ہمیں آپسی تنازعات کو جنم دینے کی بجائے باہمی تعاون کو فروغ دینا چاہئے۔ اوبور کی مدد سے ہم دہشت گردی اور انتہاپسندی کا بھی خاتمہ کر سکتے ہیں کیونکہ جس سمت اوبور جا رہا ہے اس سے ہم آہنگی، رواداری اور مختلف ثقافتوں میں تعاون کو فروغ دے سکتے ہیں۔ جغرافیائی معاشیات، جغرافیائی سیاست سے زیادہ ضروری ہے اور یہ تصادم کی بجائے تعاون کو فروغ دیتی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف کا موقف ہے کہ اگر سرحدی کشیدگی کم نہ ہوئی تو ترقی کا نظریہ محض خواب بن کر رہ جائے گا۔ خطے میں کشیدگی علاقائی تعاون سے ہی کم کی جا سکتی ہے۔ اب وقت کے ساتھ معیشت سیاست سے آگے نکل جائے گی۔
وزیراعظم کا واضح اشارہ بھارت کی طرف ہے جس نے بیجنگ کانفرنس میں باوجود بھرپور چینی دعوت کے، اپنا سرکاری وفد نہیں بھیجا۔ بھارتی تھنک ٹینک کے ماہرین غیر سرکاری طور پر اس میں شریک ہوئے ہیں۔ بھارت کی طرف سے الٹی یہ تنقید سامنے آئی ہے کہ وہ کسی ایسے منصوبے کا حصہ نہیں بنے گا جس سے اس کی خود مختاری کو نقصان پہنچنے کا اندیشہ ہو۔ یہ بھی کہا گیا ہے کہ اس منصوبے میں شامل ممالک پر قرضوں کا ناقابلِ برداشت بوجھ آجائے گا۔ بھارت کو اس نوع کی شکایت بھی ہے کہ یہ منصوبہ کشمیری خطے سے کیوں گزر رہا ہے جسے بھارت متنازع خیال کرتا ہے۔ ہماری نظر میں بھارت سرکار کا یہ نقطۂ نظر درست نہیں ہے۔ کشمیر ایشو یا کشمیر کا مقدمہ حقیقی طور پر پاکستان کا مسئلہ ہے نہ کہ بھارت کا۔ بھارت کے لئے اسٹیٹس کو کی صورتحال قبول کرنا پاکستان کی نسبت کہیں زیادہ آسان ہے۔ دوسرے بھارت کا اپنا ہمیشہ سے یہ موقف رہاہے کہ تنازع پر براہ راست گفتگو کرنے کی نسبت بہتر ہے کہ پہلے تجارتی و ثقافتی تعلقات بڑھاتے ہوئے اعتماد سازی کی فضا پیدا کی جائے کیونکہ خوشگوار مذاکرات تبھی ممکن ہوتے ہیں جب متحارب فریقین میں بہتر اعتماد کی فضا جنم لیتی ہے۔ ہماری نظر میں اس حوالے سے بھی پرکھا جائے تو انڈین گورنمنٹ کے لئے یہ بہترین موقع تھا جہاں وہ نہ صرف ابھرتی ترقی معیشت کے ہم آغوش ہوتا بلکہ علاقائی تعمیر و ترقی کے منصوبوں میں ایک معاون پارٹنر کی حیثیت حاصل کرتا۔ یہی ایک راہ ہے جس پر چل کر ہم غربت، جہالت اور منافرت پر قابو پاتے ہوئے نہ صرف علاقائی تنازعات کا حل نکال سکتے ہیں بلکہ خطے کے کروڑوں انسانوں کو امن و سلامتی کے نئے دور سے روشناس کروا سکتے ہیں۔ بھارت کو بھی یہ بھی دیکھنا چاہئے کہ خطے کے تمام ممالک حتیٰ کہ نیپال جیسا اس کا قریب ترین ہمسایہ ملک بھی تعمیر و ترقی کے سفر میں چائنہ کی طرف چلا گیا ہے۔ آسٹریلیا جس کا علاقائی طور پر ایسا کوئی زمینی رابطہ نہیں ہے وہ بھی اس نئے منصوبے کی حمایت میں رطب اللسان ہے۔ بھارت آخر کیوں اس سے کھچاؤ محسوس کر رہا ہے۔ اس کی تو سب سے بڑھ کر یہ ذمہ داری بنتی تھی کہ آگے بڑھ کر نہ صرف پاکستان کو گلے لگاتا بلکہ چین کے ساتھ مل کر سینٹرل ایشیا، افریقہ اور یورپ تک کے سفر میں ہم سفر بنتا۔ مودی سرکار کی یہ تنگ نظری پر مبنی سوچ بھارت کے وسیع تر قومی و دائمی مفاد کے خلاف ہے۔

.
تازہ ترین