• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چند روز بعد اگلے مالی سال کے وفاقی اور صوبائی بجٹ ایک ایسے موقع پر پیش کئے جائیں گے جب معیشت کے شعبے میں کچھ منفی رجحانات واضح طور پر نظر آرہے ہیں۔ 18؍ویں آئینی ترمیم اور ساتویں قومی مالیاتی کمیشن ایوارڈ کے بعد صوبوں کو زیادہ خود مختاری حاصل ہوگئی ہے اور تعلیم و صحت کے شعبے بھی انہیں منتقل ہوگئے ہیں جبکہ وفاق سے انہیں زیادہ رقوم مل رہی ہیں۔ چنانچہ معیشت میں منفی رجحانات کی ذمہ داری وفاقی حکومت کے ساتھ چاروں صوبوں پر بھی عائد ہوتی ہے۔ ان سب نے وڈیرہ شاہی کلچر کی وجہ سے اپنے انتخابی منشور اور آئین پاکستان کی مختلف شقوں سے انحراف کرتے ہوئے ایسے بجٹ گزشتہ چار برسوں میں بھی بنائے جن میں طاقتور طبقوں کو بے جا مراعات دی گئیں اور عوام پر ٹیکسوں کا ناروا بوجھ ڈالا گیا۔ وفاق اور صوبوں میں حکمراں جماعتیں اپنے انتخابی منشور کے مطابق ہر قسم کی آمدنی پر موثر طورپر ٹیکس عائد کرنے کے لئے آمادہ نہیں ہیں۔ صوبوں نے زرعی شعبے اور جائیداد سیکٹر کو موثر طور پر ٹیکس کے دائرے میں لانے اور جائیدادوں کے ’’ڈی سی ریٹ‘‘ کو مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لانے سے اجتناب کیا ہے۔ ٹیکسوں کی وصولی کم ہونے کی وجہ سے چاروں صوبوں نے متفقہ طور پر منظور شدہ قومی تعلیمی پالیسی سے انحراف کرتے ہوئے ایک مرتبہ پھر جی ڈی پی کے تناسب سے تعلیم کی مد میں 7فیصد مختص کرنے کے بجائے صرف تقریباً2.2 فیصد مختص کیا ہے۔ وطن عزیز میں 22ملین سے زائد بچے اسکول نہیں جارہے۔ آئین پاکستان کی شق 25(الف) میں کہا گیا ہے کہ ریاست کی ذمہ داری ہے کہ 5سے 16سال کی عمر کے ہر بچے کو لازماً مفت تعلیم دی جائے۔ بدقسمتی سے 2050تک بھی ایسا ہوتا نظر نہیں آرہا کیونکہ نہ تو صوبے تعلیم کی مد میں مطلوبہ رقوم مختص کررہے ہیں اور نہ ہی غریب بچوں کے لاکھوں والدین غربت کی وجہ سے اپنے بچوں کو اسکول بھیجنے کے لئے تیار ہیں کیونکہ ’’چائلڈ لیبر‘‘ بھی خاندان کی کفالت میں حصہ ڈالتی ہے۔ معاشی پالیسیوں میں انقلابی نوعیت کی تبدیلیاں کئے بغیر یہ مسئلہ حل ہو ہی نہیں سکتا۔
گزشتہ تین برسوں کی پاکستانی معیشت کی اوسط شرح نمو پچھلے 55برسوں کی اوسط سے کم ہے۔ مالی سال 2014سے پاکستانی برآمدات گر رہی ہیں۔ جولائی 2016سے تجارتی خسارہ اور جاری حسابات کا خسارہ تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ اکتوبر 2016سے زرمبادلہ کے ذخائر گر رہے ہیں جبکہ جی ڈی پی کے تناسب سے ٹیکسوں کی وصولی 1995-96کے تناسب سے بھی کم ہے۔ اس تمام صورتحال کا ادراک کرکے معیشت کی بہتری کے لئے اپنے منشور کی روشنی میں اصلاحی اقدامات کرنے کے بجائے وفاقی وزیر خزانہ نے پرائس واٹر ہائوس کو پرز کی ایک حالیہ رپورٹ کا حوالہ دیتے ہوئے 6؍مئی 2017کو کہا کہ 2030تک پاکستان دنیا کی 20بڑی معیشتوں میں شامل ہو جائے گا۔ ہم اس ضمن میں یہ عرض کریں گے کہ آبادی کے لحاظ سے پاکستان دنیا کا چھٹا سب سے بڑا ملک ہے اور پرائس واٹر کی رپورٹ کے مطابق قیمت خرید کی مسابقت کے لحاظ سے پاکستان پہلے ہی دنیا کی 24ویں بڑی معیشت ہے۔ رپورٹ کے مطابق 13برس بعد پاکستان سے کم آبادی والے 4ملک پولینڈ، نائیجیریا، تھائی لینڈ اور آسٹریلیا معیشت کے حجم کے لحاظ سے پاکستان سے پیچھے چلے جائیں گے چنانچہ پاکستان 20ویں نمبر پر آجائے گا جبکہ نائیجیریا کا نمبر 21واں ہوگا۔ صاف ظاہر ہے کہ اس درجہ بندی میں سی پیک سے پاکستان کی قسمت بدلنے کے شواہد نظر نہیں آرہے۔ سی پیک ایک عظیم الشان منصوبہ ہے مگر یہ منصوبہ ازخود گیم چینجر نہیں ہے۔ ایک ملک کی سرمایہ کاری سے دوسرے ملک کی قسمت نہیں بدلا کرتی۔ چین کی جانب سے پاکستان میں بڑے پیمانے پر سرمایہ کاری سے انفرا اسٹرکچر بہتر ہونے، بجلی کی پیداوار میں اضافہ ہونے، گوادر پورٹ کے آپریشنل ہونے اور تجارتی، صنعتی، زرعی اور چین کے سامان کی گوادر تک ترسیل وغیرہ سے ملک میں معاشی سرگرمیاں بڑھنے سے حکومت پاکستان کو ایک سنہری موقع ملا ہے کہ وہ اپنی معاشی و مالیاتی پالیسیوں میں بنیادی نوعیت کی تبدیلیاں کرکے آنے والے برسوں میں پاکستان کی قسمت بدل سکے۔ اس ضمن میں چند رہنما اصول یہ ہونا چاہئیں:
(1)ملکی و بیرونی سرمایہ کاری میں توازن رکھا جائے۔ ملکی سرمایہ کاری بڑھانے کی حکمت عملی وضع کی جائے اور چین سے معاملات میں شفافیت لائی جائے۔
(2)مجموعی سرمایہ کاری اور قومی بچتوں میں توازن رکھا جائے۔ بینکاری کے نظام کی اصلاح کی جائے اور کھاتے داروں کو دی جانے والی شرح منافع میں اضافہ کیا جائے۔
(3)وفاق اور صوبے ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور سے ٹیکس عائد کریں۔ معیشت کو دستاویزی بنایا جائے، کالے دھن کو سفید ہونے سے روکا جائے، ڈی سی ریٹ کو مارکیٹ کے نرخوں کے برابر لایا جائے اور ٹیکس ایمنسٹی قسم کی اسکیمیں ختم کردی جائیں اور آئندہ کسی نئی ٹیکس ایمنسٹی اسکیم کا اجرانہ کیا جائے۔
(4)صنعتی مصنوعات کی پیداواری لاگت کم کرنے اور ان کا معیار بہتر بنانے کے ساتھ زرعی شعبے کی پیداوار اور ملکی برآمدات بڑھانے کی حکمت عملی وضع کی جائے۔
بدقسمتی سے مندرجہ بالا نکات کے ضمن میں اقدامات کرنے، تعلیم، صحت اور ووکیشنل ٹریننگ کے شعبوں کو اولیت دینے اور کرپشن پر قابو پانے کے بجائے حکومت کی کاوشوں کا محور سی پیک کے تحت چین سے ہر قیمت پر مزید سرمایہ کاری اور قرضے حاصل کرنا رہا ہے جبکہ ضرورت اس امر کی تھی کہ چین سے سرمایہ کاری کے منصوبوں کی شرائط بہتر بنانے کی درخواست کی جاتی۔ صوبے بھی اس پیش رفت سے خوش نظر آتے ہیں کیونکہ ان پر اپنے مالی وسائل فوری طور پر بڑھانے کا دبائو ہٹ گیا ہے چنانچہ سندھ اور بلوچستان نے سی پیک منصوبے کے ضمن میں اپنے تحفظات پر خاموشی اختیار کرلی ہے۔ یہ یقیناً ایک المیہ ہے کیونکہ قومی مفادات پر سمجھوتا کرلیا گیا ہے۔ ان تمام حالات میں خدشہ ہے کہ سی پیک منصوبے سے پاکستان کی قسمت بدلنے کا خواب خدانخواستہ پورا نہ ہو سکے گا۔ آنے والے برسوں میں چین کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری پر منافع زرمبادلہ کی شکل میں باہر جانے، ملکی درآمدات میں اضافہ ہونے اور بیرونی قرضوں کی مد میں ادائیگیوں کی رقوم میں اضافہ ہونے سے زرمبادلہ کی شکل میں سی پیک منصوبوں سے اضافی آمدنی ہونے کے باوجود پاکستان کا بیرونی شعبہ زبردست مشکلات کا شکار ہو سکتا ہے۔
اب ضرورت اس امر کی ہے کہ اگلے وفاقی بجٹ میں جی ڈی پی کے تناسب سے قومی بچتوں کا ہدف 17فیصد، ٹیکسوں کی وصولی کا ہدف 18فیصد (ملکی پاناماز پر ہاتھ ڈال کر اضافی رقوم حاصل کی جاسکتی ہیں) رکھا جائے۔ غیر ضروری درآمدات کو کنٹرول کرنے اور برآمدات میں تیزی سے اضافہ کرنے اور ترسیلات کے ایک بڑے حصے کو سرمایہ کاری میں منتقل کرنے کی حکمت عملی کا اعلان بھی بجٹ میں کیا جانا چاہئے صوبوں کو جائیدادوں کے ڈی سی ریٹ کو ان کی مالیت کے برابر لانا ہوگا، ہر قسم کی آمدنی پر موثر طور پر ٹیکس عائد کرنا ہوگا اور تعلیم و صحت کے شعبوں کو اولیت دینا ہوگی۔ بلوچستان میں دہشت گردوں نے ایک مرتبہ پھر دہشت گردی کی کارروائیاں تیز کردی ہیں چنانچہ یہ ازحد ضروری ہے کہ اقتصادی دہشت گردی پر قابو پانے کی حکمت عملی کو نیشنل ایکشن پلان کا حصہ بنایا جائے۔

.
تازہ ترین