• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہسپانوی صوبے ’’کاتالونیا‘‘ کے دارالحکومت بارسلونا کے پُررونق علاقے ’’پلاثا دے سینٹر‘‘ میں ہم کچھ دوست ایک ریسٹورنٹ میں ’’کافی‘‘ پی رہے تھے۔ میں کافی کا شوقین نہیں لیکن پاکستان سے آئے اپنے دوستوں کی بات ٹال نہ سکا اِس لئے اُن کے ساتھ چلا آیا۔ ہماری گپ شپ جاری تھی کہ اچانک میری نظر سڑک پار کرتے ہوئے ایسے شخص پر پڑی جو ایک بوڑھی خاتون کو سہارا دیئے پیدل چلا آرہا تھا۔ وہ بھی کافی پینے کے لئے بیٹھ گیا۔ میں نے اپنے پاکستانی دوستوں کو بتایا کہ ابھی جو شخص آیا ہے وہ بارسلونا کا ’’مئیر‘‘ ہے۔ بے یقینی اور حیرانی سے میرے دوستوں نے اِس طرح میری جانب دیکھا جیسے میں اُن کے ساتھ مذاق کر رہا ہوں۔ میری یقین دہانی کرانے پر وہ مان گئے اور بولے کہ ہم نے تو آج تک سُنا تھا کہ ہالینڈ جیسے بڑے ملک کا وزیراعظم اپنی ڈیوٹی سر انجام دینے سائیکل پر آتا ہے، ہم نے بارہا یہ پڑھا ہے کہ جاپان کا امیر سے امیر آدمی بھی اپنی فیکٹری میں مزدوروں کے ساتھ کام کرتا ہے، ہم یہ معلومات بھی رکھتے ہیں کہ امریکہ، کینیڈا، آسٹریلیا اور یورپی ممالک نے اپنے ہاں رائج یکساں اور مساوی انصاف سے ترقی کی منازل طے کی ہیں۔ میرے دوستوں کو یہ بھی معلوم تھا کہ پاکستان کے علاوہ دُنیا کے تمام ممالک میں سب سے زیادہ کام تعلیم کی ترویج کیلئے کیا جاتا ہے، کیونکہ اقوام کی ترقی کا راز حصول تعلیم میں پنہاں ہوتا ہے۔ بارسلونا کے میئر انگریزی زبان میں مہارت نہیں رکھتے لیکن اس کی سوجھ بوجھ ضرور رکھتے تھے ہم سب میئر بارسلونا کی ٹیبل کےقریب چلے گئے اور اجازت لے کر اُن کے پاس ہی بیٹھ گئے اور بات شروع کرتے ہوئے کہاکہ ہم سب نے آپ کو بغیر پروٹوکول اور اکیلے پیدل چلتے دیکھا تو حیران ہو گئے کیونکہ ہمارے ملک میں میئرز، ایم پی اے، ایم این اے، وزراء اور درجنوں مشیر نہ صرف پروٹوکول لیتے ہیں بلکہ اُن کی آمد پر ٹریفک روک دیا جاتا ہے جس سے عوام الناس کو تکالیف کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ میئر بارسلونا نے جب یہ سنا تو پوچھا کہ آپ کا تعلق کس ملک سے ہے؟ ہم نے یک زبان ہو کرکہا کہ پاکستان سے، وہ بولے کہ پاکستانی جفا کش، محنتی اور ایماندار قوم کے طور پر پہچانے جاتے ہیں، ہمارے ملک کی معیشت کے بڑھاوے میں پاکستان کے مزدور طبقے نے اہم کردار ادا کیا ہے، پھر میں یہ کیسے مان لوں کہ اُس قوم کا تعلق جس ملک سے ہے وہاں انصاف کے تقاضے پورے نہ ہوتے ہوں یا وہاں دوسروں کو تکلیف دی جاتی ہو؟ میرے دوست تھوڑا شرمندہ ہوئے اور اُن میں سے ایک نے پنجابی میں کہا کہ ’’اپنے ملک دا ناں نئیں سی دسنا‘‘ میں نے اُس کو جواب دیتے ہوئے کہا کہ اسپین میں ایک لاکھ 25ہزار کے لگ بھگ پاکستانی مقیم ہیں، یہاں رات کو دو بجے اگر ٹریفک کا اشارہ سرخ ہو تو سب کو رکنا ہوتا ہے، کیونکہ اُن کو پتا ہے کہ یہاں کا سسٹم اشارہ توڑنے کی اجازت نہیں دیتا اور اگر ایسا کیا تو سفارش یا رشوت سزا سے بچا نہیں سکے گی۔ ایسا بھی نہیں کہ پاکستان میں انصاف نہیں ہوتا یا وہاں لاقانونیت کا راج ہے، وہاں ایم پی اے، ایم این اے، مشیر یا وزیر شوق سے پروٹوکول نہیں لیتے بلکہ یہ سب سیکورٹی کی خاطر کیا جاتا ہے۔ پاکستان میں پنجاب کا وزیرداخلہ اگر دہشت گردی کی بھینٹ چڑھ سکتا ہے تو عام شہری بھی تو اُس کی زد میں آ سکتا ہے۔ دوسروں کی زندگیوں کو تحفظ دینے والے ڈی آئی جی سید مبین اور ایس ایس پی گوندل دہشت گردوں کا ٹارگٹ بن سکتے ہیں تو پاکستان کے دوسرے اداروں کے اہلکار بھی اِس لپیٹ میں آ سکتے ہیں۔ اِس لئے بیورو کریٹس، ایم پی اے، ایم این ایز اور مشیروں وزیروں کا پروٹوکول لازم ہے کیونکہ وہ لاکھوں پاکستانیوں کی نمائندگی کرتے ہوئے اُن کے حقوق کی جنگ لڑتے ہیں۔ میں اپنے دوستوں سے مخاطب تھا لیکن دراصل بارسلونا کے میئر تک اپنے یہ الفاط پہنچانا چاہتا تھا۔ میں نے کہا کہ پاکستان کے سسٹم کی خرابی کے ذمہ دار حکومتی نمائندے نہیں بلکہ ہم سب ہیں، ہم خود اپنے ووٹوں سے حکومتی نمائندے منتخب کرتے ہیں، ہمیں ووٹ کی طاقت کا اندازہ نہیں ہوتا اسی لئے ہم اپنا ووٹ تعلق داری، رشتہ داری، محلے داری، ذات برادری اور مجبوریوں کی چکی میں ’’پیستے‘‘ ہیں تو اُس کا ’’بُورا‘‘ ہمیں ہمارے منتخب کردہ حکومتی نمائندوں کی صورت میں ملتا ہے، پھر شکوہ کس بات کا؟ سیاسی جماعتوں کے کارکن اقتدار کی بھوک مٹانے کے لئے ’’دھرنے‘‘ اور احتجاج کی بساط بچھاتے ہیں، چاہئے تو یہ کہ ہم سب مل کر وہ دھرنا، احتجاج، ریلیاں اور جلوس حصول تعلیم، انصاف کی فراوانی، دہشت گردی اور مہنگائی کے خاتمے کیلئے نکالیں، لیکن ہم چوہدراہٹ، میاں گردی، زرداریانہ سوچ، بھائی ازم، بڑے خان چھوٹے خان اور شاہ جی سرکار جیسی مجبوریوں کا بوجھ اپنے سروں پر اٹھائے ’’کبڑے‘‘ ہوتے جا رہے ہیں۔ ہمیں اپنے بچوں کے بہتر مستقبل اور پاکستان میں بکھرے ہجوم کو ایک مستند قوم بنانے کے لئے اپنے شعور کو جگانے کی ضرورت ہے۔ خراب حالات کا رونا روتے ہوئے ہم پاکستان یا پاکستانی حکومت کو مورد الزام ٹھہرا کر اپنے دل کو تسلی دے لیتے ہیں لیکن یہ نہیں سوچتے کہ ایسا کہنے سے ملکی وقارکا ’’لیول‘‘ کس قدر پست ہو جاتا ہے۔ جو بچے تعلیمی معیار پر پورا نہیں اترتے ہم انہیں سفارش اور تعلقات کی بنیاد پر کسی حقدار کی جگہ لگوانے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب تک ہم خود کرپشن کی ’’دلدل‘‘ سے باہر نہیں نکلیں گے کوئی لیڈر، رہنما یا رہبر ہمیں کسی قسم کاسہارا نہیں دے سکتا۔ ملکی ترقی کے لئے ہمارے ذہین بچوں کو دوسرے ممالک میں اپنی صلاحتیں بروئے کار لاکر امیر بننے کا خواب چکنا چور کرنا ہوگا۔ ہم کہتے ہیں کہ پاکستان نے ہمیں کیا دیا ہے، میں پوچھتا ہوں ہم نے پاکستان کو کیا دیا ہے؟ ہم ’’گوروں‘‘ کے دیس میں جا کر مقیم ہونا چاہتے ہیں گورے پاکستان کیوں نہیں آتے؟ ہمیں دیار غیر میں مقیم اپنے ذہین بیٹوں کو پاکستان واپس بلانے کے لئے صحیح حکومتی نمائندوں کا چناؤ کرنے کی اشد ضرورت ہے جو ملک کو سفارش اور کرپشن سے پاک کرکے ترقی کے راستوں پر گامزن کر دے۔ گفتگو کے اختتام پر میں نے بارسلونا کے میئر سے از راہِ مذاق پوچھا کہ آپ کو ہماری باتیں سمجھ میں آئی ہیں تو وہ بولے کہ مجھے آپ کی زبان نہیں آتی لیکن آپ کے چہروں کا اطمینان بتا رہا تھاکہ آپ اپنے وطن سے مخلص اور وہاں کے حالات کی بہتری کے خواہاں ہیں۔
یہ کیا کہ سورج پہ گھر بنانا اور اُس پہ چھاؤ ں تلاش کرنا
کھڑے بھی ہونا تو دلدلوں پہ پھر اپنے پاؤں تلاش کرنا
نکل کے شہروں میں آ بھی جانا چمکتے خوابوں کو ساتھ لے کر
بلند و بالا عمارتوں میں پھر اپنے گاؤں تلاش کرنا

.
تازہ ترین