• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

1999ء میں بھارت نے پاکستانی طیارہ مار گرایا تو پاکستان کے رجوع کرنے پر عالمی عدالت نے معاملہ دائرہ اختیار سے باہر قرار دیا تھا

لاہور (صابر شاہ) 10؍اگست 1999ء کو بھارت نے پاکستانی بحریہ کا ایک پٹرول طیارہ مار گرایا تو پاکستان نے بین الاقوامی عدالت انصاف (آئی سی جے) سے رجوع کیا۔ کوئی دس ماہ بعد جون 2000ء میں عدالت کے سولہ رکنی بنچ نے بھارت کا یہ موقف تسلیم کر لیا کہ اس معاملے میں آئی سی جے کا کوئی دائرہ اختیار نہیں۔ اس وقت کے بھارتی اٹارنی جنرل سولی سوراب جی نے دلائل دیئے تھے کہ آئی سی جے کو اس کیس کی سماعت کا اختیار نہیں ہے۔ 21جون 2000ء کو فرانس کے گلبرٹ گیولامے کی سربراہی میں سولہ رکنی بنچ نے دو کے مقابلے میں چودہ کی اکثریت سے بھارت کے حق میں فیصلہ دیا۔اختلافی نوٹ اردن کے جسٹس الخسانخ اور پاکستانی ایڈہاک جج سید شریف الدین پیرزادہ نے لکھے تھے۔ پاکستان نے بھارت سے چھ کروڑ ڈالر ہرجانے اور متاثرین کے خاندانوں کیلئے معاوضے کا مطالبہ کیا تھا۔ پاکستان کا مطالبہ رد کردیا گیا۔ اپیل کی اجازت بھی نہیں دی گئی اور اس طرح فیصلہ بھارت کے حق میں ہوا۔ (حوالے :انٹرنیشنل کورٹ آف جسٹس کیس پیج، بی بی سی، دی ہندو، پریس ٹرسٹ آف انڈیا، واشنگٹن میں بھارتی سفارتخانہ، پاکستان ڈیفنس جرنل، دی نیوز، ڈان، انڈیا ٹو ڈے وغیرہ) حکومت پاکستان نے اس وقت اس کیس پر ڈھائی کروڑ روپے کے قریب خرچ کئے۔ اس واقع میں جو ’’اٹلانٹک انسیڈنٹ‘‘ کہلاتا ہے بھارتی ایئرفورس کے دو مگ 21طیاروں نے پاکستان نیوی کا فرنٹ لائن پٹرول طیارہ مار گرایا تھا جس کے نتیجے میں اس پر سوار سولہ افراد شہید ہوئے تھے۔ طیارہ 10اگست 1999ء کو صبح سوا نو بجے مہران ایئربیس سے اڑا تھا اور صرف دو گھنٹے بعد گیارہ بجکر سترہ منٹ پر بھارت نے ایئرٹو ایئر میزائل سے اسے مارا گرایا گیا۔ میزائل انجن پر لگا۔ یہ 1971ء کے مشرقی پاکستان کے المیے کے بعد پاکستان بحریہ کے کسی طیارے کے نقصان کا واحد واقعہ اور سب سے بڑا جانی نقصان تھا۔ بھارت نے الزام لگایا تھا کہ فرانسیسی ساختہ برگٹ اٹلانٹک طیارے نے بھارتی فضائی حدود کی خلاف ورزی کی۔ پاکستان کا دعویٰ تھا کہ طیارہ غیر مسلح تھا اور اس کا ملبہ پاکستانی علاقے میں ملا،اس طرح اس نے بھارت کی کوئی فضائی خلاف ورزی نہیں کی، طیارہ پاکستانی حدود کے اندر معمول کی تربیتی مشق پر تھا۔  بحریہ کا یہ طیارہ گشت اور نگرانی کیلئے استعمال ہوتا تھا۔ بھارت کا موقف تھا کہ پاکستانی طیارے نے انٹرنیشنل پروٹوکول کے مطابق جواب نہیں دیا۔ اس کا انداز دشمنانہ تھا۔ بھارتی حکام کا کہنا تھا کہ طیارے کا ملبہ وسیع علاقے میں گر سکتا ہے۔  یہ نواز شریف کا دوسرا دور تھا۔ انہوں نے شہداء کی تدفین کے موقع پر بھارتی کارروائی کو وحشیانہ قرار دیا تھا۔ پاکستان میں متعین غیر ملکی سفارت کاروں کو پاک فوج موقع پر لے گئی تھی۔ ان کا یہی خیال تھا کہ بھارت کا ردعمل بلاجواز تھا۔ اکتوبر 2000ء میں بھارتی پائلٹوں ونگ کمانڈر وی ایس شرما، سکوارڈن لیڈر پنکج دشنوئی اور سکوارڈرن لیڈر پی کے بندیلا کو بھارتی حکومت نے پاکستانی طیارے کا پتہ چلانے اور مار گرانے پر تمغے  بھی دیئے تھے۔ 
تازہ ترین