• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعلیٰ پنجاب المعروف خادم اعلیٰ کے اجزائے ترکیبی میں جذبات کا غلبہ ہے۔ حبیب جالب کوگانے، مائیک الٹانے، قدم قدم پر آب دیدہ ہونے سے لیکر ملازمین کو معطل کرنے اور اپنا نام بدل دینے کی سرعام دعوت دینے یا سیاسی حریف کو سڑکوں پر گھسیٹنے تک آپ کہاں تک سنیں گے اور میں کہاںتک سنائوں۔ یہ بھی یاد رہے کہ میں یہ بات منفی انداز میں ہرگز نہیں کررہا کہ خود بھی بنیادی طور پر عقلی منطقی نہیں، جذباتی آدمی ہوں۔ زندگی کے بیشتر فیصلے دماغ نہیں دل کے کہنے پر کئے لیکن ضروری نہیں جو ایک لکھاری کو سوٹ کرتا ہو، سیاستدان کو بھی راس ہو کیونکہ ہر شعبہ کی اپنی اپنی ضروریات ہوتی ہیں مثلاً سپاہی میں جارحیت، تیزی تندی قابل فہم ہے لیکن جس کا تعلق مارکیٹنگ یا سیلز وغیرہ کے ساتھ ہو اس کیلئے نرمی، ملائمیت اور شیریں بیانی ہی ضروری ہے جبکہ سیاستدان کی تو بات ہی اور ہے مثلاً ایک بزرگ رہنما مسلمانوں کی حالت زار پر آب دیدہ ہوئے تو بابائے قوم نے سرزنش کی اور کہا ’’اپنی آنکھیں خشک رکھیئے تاکہ آپ کو منظر دھندلا نہیں اجلا اور صاف دکھائی دے‘‘۔ جو لیڈر خود ہی رونا شروع کردے گا وہ عوام کے آنسو خاک خشک کرے گا۔ یہ تو ایسا ہی ہے جیسے شاعر نے کہا تھا اورکیا خوب کہا کہ؎وقت خوش خوش کاٹنے کا مشورہ دیتے ہوئےرو پڑا وہ آپ مجھ کو حوصلہ دیتے ہوئےسیاستدان تو پرسکون سونامی ہوتا ہے یا ٹھنڈا جہنم، میٹھا زہر ہوتا ہے یا ایسا شاطر جو انڈے کے اندر سے زردی نکال لے اور انڈے کے چھلکے پر خراش تک نہ آنے دے۔ یہ جو ہمارے اردگرد یا ٹی وی چینلز پر چیختے چلاتے، بڑھکیں، دھاڑیں مارتے دکھائی دیتے ہیں یہ سیاستدان نہیں، پرانی پنجابی فلموں کے دیہاڑی دار ایکسٹراز ہیں۔ سیاست تو اس مہارت کا نام ہے کہ سرمہ چرا لے تو آنکھ کو خبر نہ ہو۔ سیاست مہین ترین بخیہ اورناقابل شناخت رفوگری کا کام ہے۔ یہ سارے تو ’’عابد شیر علی‘‘ ہیں۔مجھے یہ ساری باتیں شہباز شریف کے اس ’’جذباتی شہکار‘‘ بیان پر یاد آرہی ہیں جس میں آپ نے انتہائی غیر سیاسی، غیر حقیقی اور غیر فطری بات کی ہے۔ فرمایا’’چین تعاون کی قیمت نہیں مانگتا۔ نہ ڈو مور کی تکرار کرتا ہے نہ کبھی فوجی اڈے مانگے‘‘۔حیرت ہے حیرت۔ کیا چھوٹے میاں کو قوانین قدرت کا بھی علم نہیں؟ حضور! چین ایک ابھرتی ہوئی طاقت ہے کوئی ’’ایدھی ویلفیئر‘‘ یا ’’یتیم خانہ’‘‘ نہیں۔ انسانی زندگی میں کچھ بھی غیر مشروط نہیں ہوتا اور یہ تو سیاسی زندگی ہے اور وہ بھی گلوبل لیول کی جبکہ حقیقت یہ کہ خالق و مخلوق کے درمیان بھی غیر مشروط کچھ نہیں ورنہ ایک طرف جنت تو دوسری طرف جہنم نہ ہوتا۔ والدین اور اولاد کے درمیان بھی غیر مشروط کا کوئی تصور نہیں سو مہربانی فرما کراتنے جذباتی اور رومانٹک ہونے کی ضرورت نہیں۔ روسی ریچھ، امریکن ہاتھی ہے تو چین بھی ڈریگن ہے۔ میں ذاتی طور پر دور دور تک چین کو سپر پاور نہیں دیکھتا لیکن وہ طاقت ور ضرور ہے اور کبھی نہ بھولیں کہ طاقت ور تو ہزاروں میل دور بیٹھا بھی ’’بھاری‘‘ ہوتا ہے، یہ تو Next Door" پڑوسی ہے۔ احتیاط، اعتدال اور توازن قائم رکھیں۔ فریفتگی اور ریشہ خطمی پن خبطی پن ہوگا۔ آنکھیں کھلی، ہوش قائم کہ دانائی کے تقاضے ذرا مختلف ہیں اور وہ یہ کہ نہ اتنے کڑوے بنو کہ تھوک دیئے جائو نہ اتنے میٹھے کہ نگل لئے جائو اور مت بھولو کہ کبھی ’’ہندی چینی بھائی بھائی‘‘ کا نعرہ ہندوستان اور چین میں یکساں مقبول تھا اور سپر پاور صرف سپر پاور ہوتی ہے اور ’’پاور‘‘ فقط ’’پاور‘‘ ہوتی ہے جس کے اپنے اندھے تقاضے ہوتے ہیں اس لئے دھیرج سرکار دھیرج ......حیرت ہے حیرت۔ ’’برادر‘‘ افغانستان اور ’’برادر‘‘ ایران سے تو فارغ ہو لو کہ ان کے ساتھ تو نہ کوئی مذہبی رشتہ نہ ثقافتی نہ لسانی نہ مخصوص معنوں میں تاریخی تو اتنا شہنشاہ جذبات بننے کی ضرورت نہیں۔آنکھیں ہی نہیں دل و دماغ کی کھڑکیاں بھی کھلی اور روشن رکھو کہ یہ ’’اقتصادی راہداری‘‘ ہے پھولوں بھری وہ راہ، وہ روش نہیں جس پر فلمی دو گانے پکچرائیز کئے جاتے ہیں جیسے حالات دکھائی دیتے ہیں، انہیں تو ’’ڈومور‘‘ کہنے کی بھی ضرورت نہیں پڑے گی اور جسے پورا ملک مہیا اور میسر ہو وہ صرف ’’اڈے‘‘ کیوں مانگے گا؟اپنی زراعت سنبھالو، ہاتھ سے نہ نکل جائے۔اپنی صنعت کا سوچو کہ اس ’’کاریڈور‘‘ میں رکھے خوانچے میں تم بیچو گے کیا؟ دکانیں تو سگے بھائیوں کی بھی ساتھ ساتھ ہوں تو سودا اسی کا بکتا ہے جو بہتر اور سستا ہو۔ نہ ٹیکنالوجی نہ ٹیکنیشن موجود، نہ بجلی نہ گیس نہ پانی تو ظل سبحانی! ان پہاڑوں سے اونچی، سمندروں سے گہری اور شہد سے میٹھی دوستی کا کرنا کیا ہے کہ نہ پہاڑ پہ چڑھنے کی تیاری نہ سمندروں میں اترنے کا اسباب اور شوگر کے مریض کیلئے تو شہد ویسے ہی نیلا تھوتھا ہے۔ وہ اپنے سوا ڈیڑھ ارب کے پیٹ بھریں گے یا ہمارے؟ ہاں کچھ غیر ہنرمند ’’سادہ‘‘ مزدوروں کو دیہاڑیاں مل جائیں تو وہ بھی غنیمت کہ مفلوج آدمی تو سونے کی کان سے بھی کچھ نہیں نکال سکتا اور یہ تو عالمی منڈی کی دکان ہے جس کی وجہ شہرت رومانس نہیں...... ’’کٹ تھروٹ کمپیٹیشن‘‘ ہے۔چلتے چلتے O.A. BATTISTA کی زبانی پڑوسی کی تعریف بھی سن لو۔"A NEIGHBOR IS A PERSON WHO CAN GET TO YOUR HOUSE IN LESS THAN A MINUTE AND TAKES TWO HOURS TO GO BACK HOME."آیا کچھ مزاج شریف میں یا میں بین ہی بجاتا رہ گیا؟

.
تازہ ترین