• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
تحقیقات تو ہونی چاہئیں، اور اس کے لئے بہت آواز اٹھائی گئی، 12مئی کے اندوہناک سانحہ پر۔ دس سال اس واقعہ کو ہو گئے۔ آج تک یہ پتا نہیں چل سکا کہ اس میں کس کا ہاتھ تھا؟ کس نے وہ ساری منصوبہ بندی کی تھی؟ کس نے وہ سارے نقشے بنائے تھے کہ راستے کہاں کہاں سے بند کئے جائیں گے؟ مقصد اُس وقت ایک آمر کے معتوب اور معزول چیف جسٹس کو کراچی شہر میں داخل ہونے سے روکنا تھا تاکہ وہ وکلا سے خطاب نہ کر سکیں۔ وہ نہ کر سکے۔ ساری سڑکیں بند کردی گئی تھیں۔ ہوائی اڈے سے باہر نکلنا ممکن تھا نہ ہائیکورٹ تک پہنچنا۔ خطاب کیسے ہوتا۔ اس ساری کارروائی کا ملبہ آج تک ایم کیو ایم پر ڈالا جا رہا ہے۔ اب تو خیر وہ مطعون ہے، مگر اس سے پہلے بھی اسے ہی ذمہ دار قرار دیا گیا تھا۔ اور اگر کچھ کسر رہ گئی تھی تو وہ آمر پرویز مشرف کی اسی شام کی تقریر نے پوری کر دی تھی کہ جس میں اس نے کہا تھا یہ ہوتی ہے عوام کی طاقت۔ کبھی الطاف حسین سے پوچھا جائے کہ اس ہنگامہ آرائی سے پہلے کس سرکاری اہلکار نے ان سے ملاقات کی تھی، تو کچھ، بلکہ بہت سی حقیقتیں سامنے آجائیں گی۔ مگر تحقیقات تو اور بھی بہت سی ہونی ہیں۔ ان کا تذکرہ ہوتا ہی نہیں۔ اسی برس دسمبر کی وہ دکھ بھری شام آئی جب دفتر میں کام کرتے کرتے ہمیں اطلاع ملی کہ محترمہ بے نظیر بھٹو پر راولپنڈی میں حملہ ہوا ہے۔ ہم سب بہت مصروف تھے، ہمیشہ ہی ہوتے تھے، جب کاپی اشاعت کی جانے والی ہوتی تھی تو ہر مہینے کے آخری چند دن بہت کام ہوتا تھا۔ خبر اہم تھی، مگر اس وقت خیال یہ تھا اور ہمارے دوست رحمان ملک کا یہ دعویٰ بھی کسی ٹی وی اسکرین پر نظر آیا تھا کہ بی بی خیریت سے ہیں۔ ایڈیٹر عارفہ نور سے کہا۔ انہیں اُس وقت کام مکمل کرنے میں زیادہ دلچسپی تھی۔ توجہ دینے کو راضی نہیں تھیں۔ مگر تھوڑا ہی وقت گزرا کہ وہ اندوہناک خبر آگئی کہ بی بی جاں بحق ہو گئی ہیں۔ بی بی سے ایک تعلق رہا تھا۔ وہ خود کو میری بہن کہا کرتی تھیں ۔ وہ دبئی میں تھیں تو میں نے ہیرالڈ کے لئے ان کا انٹرویو کیا۔ اُس وقت ان کے ساتھ آصف زرداری بھی تھے۔ ایک مرحلے پر انہوں نے کہا، ادریس صاحب! آپ کے دولہا بھائی بور ہو کر باہر چلے گئے ہیں، مگر آپ اپنا انٹرویو جاری رکھیں۔ اسی انٹرویو میں انہوں نے پہلی بار کہا تھا کہ ان کے اسٹیبلشمنٹ سے رابطے ہیں، کافی عرصے سے۔ یہ چھپ گیا تھا، ریکارڈ پر ہے۔ جب ان کے مرنے کی خبر آئی تو دفتر میں موجود سارے ہی لوگ اپنے جذبات پر قابو نہیں رکھ سکے تھے۔ عارفہ نے میری حالت دیکھ کر کہا، ہم تو سمجھ رہے تھے آپ ہمیں تسلی دینگے، آپ کی تو اپنی حالت اتنی خراب ہے۔ ہم اپنے دکھوں میں گھرے ہوئے تھے کہ شہر سے اور کچھ دوسرے علاقوں سے خبریں آنے لگیں کہ حالات بہت خراب ہیں۔ شاید ہی کوئی سڑک یا علاقہ ہو گا جہاں سے لوٹ مار کی خبریں نہ آرہی ہوں۔ گھر سے فون آیا۔ پولس یا رینجرز کو بھیجیں، گھر کے باہر بہت سے لوگ جمع ہیں۔ پولیس اور رینجرز کہاں تھے کہ انہیں بھیجا جاتا۔ گھر والوں سے کہا اگر یہ لوگ گھر میں گھس جائیں تو آپ لوگ پڑوس کے گھر میں کود جانا، گھر گیا جہنم میں، اپنی جان بچائیں۔ گھر والے بہت پریشان تھے، چھوٹے بچوں کا ساتھ تھا۔ بار بار فون کر رہے تھے۔ کوئی مدد ان کی نہیں کی جا سکتی تھی، کوئی ان کی مدد کرنے والا تھا نہیں۔ باہر جو لوگ جمع تھے، وہ حملہ آور نہیں تھے، یہ بعد میں پتا چلا۔ یونیورسٹی روڈ پر لوٹ مار ہو رہی تھی۔ لوگ دوسری سڑک پر آگئے۔ ان میں عورتیں اور بچے بھی تھے۔ اس سڑک پر بھی، جو ہمار ے مرحوم شاعر دوست صہبا اختر کے نام پر ہے، لوٹ مار جاری تھی، گاڑیاں توڑی جا رہی تھیں، ان کو آگ لگائی جا رہی تھی۔ لوگ ہماری گلی میں آگئے۔ جب یہ پتا چلا تو کچھ لوگوں کو جن میں چار خواتین بھی تھیں، گھر والوں نے اندر بلا لیا۔ کچھ لوگ اپنی گاڑیوں سمیت گلی میں آگئے، کچھ اپنی ٹوٹی پھوٹی گاڑیاں اندر لے آئے۔ شہر کے ہر علاقے میں شدید خوف کا عالم تھا۔ ڈان کے دفتر سے لیکر جنگ تک پان والے کی ایک آدھ دکان کے سوا سب کچھ بند ہو چکا تھا۔ جو کچھ یہاں ہو رہا تھا، پورے صوبے میں ہو رہا تھا۔ دکانوں کو آگ لگائی گئی، لوٹی گئیں۔ گھر لوٹے گئے، اے ٹی ایم مشینیں توڑ پھوڑ کر انہیں لوٹا گیا۔ سپر ہائی وے پر ٹرکوں کو آگ لگائی گئی۔ ایک ٹرالر پر لدی ساری گاڑیاں جلا دی گئیں۔ تین دن بعد میں اس سڑک سے گزرا تو جگہ جگہ گاڑیاں جلنے کے آثار تھے۔ حیرانی ہوئی، آس پاس کوئی آبادی بھی نہیں کہ وہاں سے لوگ آئے ہوں اور یہ آتشزنی کی ہو۔ تو کیا جن آئے تھے؟ بعد میں فوج نے کراچی، حیدرآباد اور کچھ دوسری جگہوں سے گھروں کا لوٹا ہوا سامان برآمد بھی کیا۔ مگر ہوا کیا؟ کیا کسی کو سزا ملی؟ دی گئی؟ کوئی تحقیقات ہوئی؟ مصطفیٰ کمال ناظمِ اعلیٰ تھے، آج تک کہتے ہیں، اس دن صرف کراچی میں ایک ہزار سے زائد گاڑیاں جلائی گئی تھیں۔ اس دن پورے شہر میںہُو کا جو عالم تھا، اسے اب بھی الفاظ میں بیان نہیں کیا جا سکتا۔ تو کیا اس سارے معاملے پر کبھی کسی کو توفیق ہوتی ہے بات کرنے کی؟ نہیں ہوتی۔ اس دن جو کچھ ہوا، یہ اس سے بڑا المیہ ہے۔ حادثہ سے بڑا سانحہ۔
اور اُس واقعہ کو تو اب کوئی تیس برس ہونے کو آئے، جسے حیدرآباد کا قتلِ عام کہا جاتا ہے۔ اُس دن دس پندرہ منٹ میں ڈھائی سو انسان قتل کر دیئے گئے تھے۔ ملزمان سب آزاد ہیں، گھومتے پھرتے ہیں، سیاست کرتے ہیں۔ یہ ایک عام سا دن تھا، 1988کی ستمبر کا۔ کہیں کسی گڑبڑ یا کشیدگی کی کوئی اطلاع نہیں تھی۔ ایسا کچھ ہوا بھی نہیں تھا۔ مگر یہ ایک ستمگر دن تھا۔ تیس تاریخ تھی۔ شام کوئی سات بجے حیدرآباد میں گھر سے نکلا اور ٹیلیگراف آفس تک گیا، علی حسن کی موٹر سائیکل پر۔ وہ وہاں موجود تھے۔ سڑک پر اندھیرا تھا۔ اسٹریٹ لائٹیں بجھادی گئی تھیں۔ علی حسن نے جلدی سے موٹر سائیکل لی اور چلے گئے۔ مجھے ایک دوسری موٹر سائیکل پکڑا دی۔ میں ان کے پیچھے پیچھے کچھ دور چلا۔ میرے سامنے سے ایک کار گزری، اس میں سے بندوق کی نالی باہر نکلی نظر آئی۔ خوف محسوس ہوا، سناٹا بھی تھا۔ میں واپس ٹیلیگراف آفس آگیا۔ علی حسن بھی تھوڑی دیر بعد آگئے۔ سارے اخبار نویس وہاں ہوتے تھے، خبریں بھیجنے کے لئے۔ انہیں فون آنے لگے۔ ایدھی والوں نے بتایا بارہ لوگ مر گئے ہیں۔ علی حسن کو یقین نہیں آیا مگر فون مسلسل آرہے تھے۔ شہر کے مختلف علاقوں سے، فائرنگ ہوئی ہے، بہت لوگ مر گئے ہیں۔ اپنے اپنے گھروں کو فون کیا۔ میرے گھر میں ایک تقریب تھی، جو مہمان موجود تھے، انہیں روک لیا گیا۔ یہ ہوا کیا یہ ہی کچھ پتا نہیں چل رہا تھا۔ اتنے میں کرفیو لگ گیا۔ علی حسن اپنی موٹر سائیکل پر لطیف آباد میں بھٹائی اسپتال گئے، واپس آئے تو ان کی بری حالت تھی۔ آنکھیں سوجی ہوئی تھیں، لگتا تھا روتے رہے ہیں۔ ایسا ہی تھا۔ اس کا اندازہ اس وقت ہوا جب ہم دونوں رات گئے لطیف آباد سات نمبر میں ایک اسپتال میں گئے۔ وہ اصل میں ایک زچہ خانہ ہے۔ وہاں اس طرح کی ہنگامی حالت سے نمٹنے کا بندوبست نہیں ہے۔ پھر بھی زخمی لائے جا رہے تھے، لاشیں آرہی تھیں۔ لوگ کہاں جاتے؟ وہاں کمروں سے خون بہتا ہوا کاریڈور میں آگیا تھا۔ تب تک کچھ جذباتی نوجوان بھی جمع ہو گئے تھے۔ ان میں سے ایک نے ہم سے جارحانہ انداز میں کہا اب آئے ہو؟ علی حسن نے کہا نہیں پہلے بھی آیا تھا۔ تو کیا اس کاریڈور میں چلتے ہوئے تمہارے پیروں میں خون لگا تھا؟ لگا تھا، علی حسن نے کہا۔ یہ ممکن ہی نہیں تھا کہ خون نہ لگے، خون بہہ رہا تھا اور پیچھے زمین پر بہت سی لاشیں پڑی تھیں۔ شہر کے مختلف علاقوں میں کار سواروں نے یہ قتلِ عام کیا تھا۔ ظفر عباس ان دنوں خلیج ٹائمز کے لئے کام کرتے تھے، میں نے جب یہ خبر ان کو بتائی کہ کوئی ستّر لوگ ہلاک ہوئے ہیں، تو انہوں کہا، اور یہ ان کی عادت ہے، ادریس صاحب آپ ہوش میں ہیں۔ اور پھر کہا یار مروا مت دینا۔ میں نے کہا، اصل تعداد اس سے کہیں زیادہ ہے، مگر ابھی صحیح تعداد نہیں بتا سکتے، ہمیں خود پتا نہیں۔ اتنا بڑا واقعہ ہو گیا، مگر انتظامیہ کا یہ عالم تھا کہ اس کے رد عمل کو روکنے کے کچھ نہیں کیا گیا۔ اگلے دن کراچی میں دودھ والوں کی ایک بس کو نشانہ بنایا گیا۔ اور بھی کئی مقامات کو۔ اسّی کے قریب لوگ شہر کے مختلف علاقوں میں قتل کر دیئے گئے۔ ان کا کوئی قصور نہیں تھا۔ وہ حیدرآباد کے قتلِ عام کے ذمہ دار نہیں تھے، انہیں بلاوجہ انتقام کا نشانہ بنایا گیا۔ آج تک پتا نہیں کیوں اتنے لوگ قتل کئے گئے؟
تو کیا کبھی 30ستمبر 1988ء اور 12مئی اور 27دسمبر 2007ء کے معاملات کی تحقیقات ہوں گی؟ مجرموں کو سزا ملے گی؟ سوال ہی سوال ہیں۔ جواب کسی کے پاس نہیں۔
پس نوشت:سندھ ہائی کورٹ حیدرآباد سرکٹ بنچ نے سانحہ 30ستمبر 1988ء میں 300سے زائد بے گناہ شہریوں کی ہلاکت اور سیکڑوں کو زخمی کرنے کے واقعہ میں ملوث ڈاکٹر قادر مگسی سمیت 41ملزمان کی سیشن کورٹ حیدرآباد سے بریت کے خلاف حکومتی اپیل 14سال بعد مسترد کر دی ہے۔

.
تازہ ترین