• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
قومی اسمبلی کے اسٹاف افسر تنویر حسین ملک کا ایک خط موصو ل ہواہے۔ اس خط میں انہوں نے مستونگ میں شہید ہونے والے سینیٹ کے اسٹاف افسر افتخار مغل سے اپنی 32سالہ دوستی کا تذکرہ کرتے ہوئے لکھا ہے کہ وہ اپنے شہید دوست کے بیوی بچوں کے بارے میں بہت پریشان ہیں کیونکہ ابھی تک شہید ہونے والے کے ورثا کے لئے وہ کچھ نہیں ہوسکا جو کچھ ہونا چاہئے تھا۔ دوستی بڑا عجیب رشتہ ہے۔انسان بہت سی ایسی باتیں اپنے دوست کے ساتھ کرلیتا ہے جو وہ تمام باتیں اپنے رشتہ داروں کے ساتھ نہیں کرسکتا۔ افتخار مغل کے ساتھ میرا بھی بیسںبائیسںسالوں سے میل جول تھا۔ ایک زمانے میں منصور آفاق ایک ڈرامے کو ڈائریکٹ کررہے تھے۔ یہ ڈرامہ لکھا بھی انہوں نے ہی تھا۔ اس ڈرامے کا ایک کردار افتخار مغل کے بڑے بھائی دلدار فانی ادا کر رہے تھے۔ اسی دوران افتخار مغل سے میری پہلی ملاقات ہوئی۔ ان کے ایک بھائی وقار فانی کوچہ صحافت میں آگئے۔ بہت سی یادیں باقی ہیںاور و ہ منوں مٹی تلے بالاکوٹ میں آسودہ ٔ خاک ہے۔
ابھی چند ماہ پہلے میں اور مولانا غفور حیدری خضدار سے کوئٹہ آ رہے تھے۔ اگلی نشست پر افتخار مغل تھے۔ پچھلی نشستوں پر میں اور غفور حیدری سیاست پر گفتگو میں محو تھے۔ افتخار مغل نے خضدار سے کوئٹہ آتے وقت قلات اور مستونگ میں ہمارا بہت خیال رکھا۔ مولانا غفور حیدری کو بالکل پتا نہیں تھا کہ افتخار مغل مجھے جانتے ہیں۔ خیر غفور حیدری بتانے لگے کہ..... ’’ان علاقوں میں نوابوں، سرداروں کا راج تھا۔یہاں کےگائوں کیا شہر بھی ان کے اشاروں پر بند ہو جاتے تھے۔ میں نے یہاں پرچم بلند کیا۔ لوگوں کو جگایا، پھر مجھے کامیابیاں ملتی گئیں۔ میںیہاں کے غریبوں کی آواز ہوں.....‘‘ میں نے راستے میں سگریٹ سلگایا اور پھرغفور حیدری سےپوچھا کہ ’’چلو اچھا ہے آپ متوسط طبقے کے ہیں۔ سینیٹ میں ڈپٹی چیئرمین ہیں۔ ابھی کچھ عرصہ پہلے تک بلوچستان میں خود کو متوسط کہنے والا ڈاکٹر عبدالمالک وزیراعلیٰ تھا۔‘‘ میرے سوال پر مولانا غفوری حیدری مسکرائےاور کہنے لگے..... ’’میں کیا کہوں، آپ لوگوں سے پوچھنا.....‘‘ اس سے اگلےروز میں نے محترمہ زبیدہ جلال سے پوچھا تو وہ کہنے لگیں..... ’’خود کومتوسط طبقے کا نمائندہ کہنے والے سےاتنا نہ ہوسکا کہ وہ اپنے حلقے کے لوگوں کو صاف پانی مہیا کردیتا۔ ایک وزیراعلیٰ کے طور پر وہ پینے کے صاف پانی کے پلانٹ لگا سکتا تھا مگر مجھے افسوس سے کہنا پڑتا ہے کہ ڈاکٹر مالک بلوچستان کے لئے تو دور کی بات، اپنے حلقے کے لئے بھی کچھ نہیں کرسکا..... ‘‘ کچھ دن گزرگئے، ڈاکٹر مالک کے علاقے سے قومی اسمبلی کے سابق رکن یعقوب بزنجو اسلام آباد آئے تو میں نے ڈاکٹرمالک سے متعلق پوچھ لیا۔ یعقوب بزنجو چھوٹے بھائیوں کی طرح ہیں۔ کہنے لگے..... ’’بڑے بھائی! ڈاکٹر مالک نے علاقے کے لئے کچھ نہیں کیا۔ .....‘‘اس بات کو چند مہینے بھی نہیں ہوئے تھے کہ میں نے بلوچستان کے سابق وزیراعلیٰ نواب غوث بخش باروزئی سے یہی سوال پوچھ لیا۔ یہاں ایک بات واضح کرتا چلوں کہ نواب ڈاکٹر غوث بخش باروزئی کے والد محمد خان باروزئی بلوچستان اسمبلی کے پہلے اسپیکر تھے۔ وہ دو مرتبہ بلوچستان کےوزیراعلیٰ رہے۔ جس دن ضیاء الحق نے اقتدار پرقبضہ کیا تھا محمد خان باروزئی بلوچستان کے وزیراعلیٰ تھے۔بھٹو کاقریبی ساتھی ہونے کےباعث انہیں بھی گرفتارکرلیا گیا تھا۔ خیر بات ڈاکٹر مالک کی ہو رہی تھی، نواب غوث بخش باروزئی نے بھی زبیدہ جلال اور یعقوب بزنجو کے دعوے کی تائید کی۔
میں بلوچستان کے خالصتاً بلوچ علاقوں کے مسائل کی بنیادی وجہ ڈھونڈنے کی کوشش کرتا ہوں تو مجھے سب سے بڑی وجہ بلوچ نوجوانوں کی بیروزگاری نظرآتی ہے۔ بلوچستان کے خالصتاً بلوچ علاقوں میں دو طرح کے مسائل ہیں۔ ایک تو بیروزگاروں کے لئے نوکریاں نہیںہیں، دوسرا بلوچستان کے مختلف علاقوں میں صرف گھوسٹ اسکول ہی نہیں، گھوسٹ اساتذہ بھی ہیں۔ ان نام نہاد اساتذہ میں سے بہت سے دبئی میں ہیں۔ کچھ پہاڑوں پر چڑھے ہوئے ہیں۔ یہ گھوسٹ اساتذہ تنخواہ حکومت ِ پاکستان سے لیتے ہیں اور پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں شریک بھی ہوتے ہیں۔ انہوں نے ایک طرف بلوچ بیروزگار نوجوانوں کا حق مارا ہوا ہے اور دوسری طرف ملک دشمنی کا مظاہرہ کررہے ہیں۔ اس سلسلے میںبھی آپریشن کلین اپ کی ضرورت ہے۔ میر حاصل بزنجو میرے پرانے دوست ہیں۔ انہیں چاہئے کہ وہ اپنی پارٹی میں کرپٹ اور بدنام لوگوںکو آگے لانے سے گریز کریں۔
میں یہ کالم بدھ کی رات کے آخری پہر میں لکھ رہا ہوں کہ مجھے صبح سویرے جنرل آصف غفور نے شدت پسندی سے متعلق سیمینار میں مدعو کررکھاہے، جہاں آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ سے بھی ملاقات ہوگی۔ جمعرات کا سارا دن جی ایچ کیو میں گزرے گا۔ آج یعنی جمعہ کو بھی بہت سی مصروفیات ہیں۔ شام کو چینی سفیر کا عشائیہ ہے اور ہفتے کی صبح مجھے حکومت ِ چین کی دعوت پر مائوزے تنگ کے دیس روانہ ہونا ہے۔ اگلا کالم ان شاء اللہ اُرمچی سے لکھوں گا۔ پھرمجھے بیجنگ جانا ہے جہاں میٹنگوں کا ڈھیر میرا منتظر ہے۔
دو روز پیشتر اسلام آباد میں ایک تقریب میں شریک ہونے کاموقع ملا، جہاں میرے علاوہ لیلیٰ زبیری، کنول نصیر اور علی رضا علوی مہمان تھے۔ ’’وائس‘‘ نامی تنظیم نے ایئر یونیورسٹی کے طالبعلموں کے تعاون سےرمضان المبارک کےلئے نادار لوگوں کی محبت میں اشیائے خورونوش جمع کر رکھی تھیں۔ تصاویر کے موقع پر اس خاکسار نے منع کردیا۔ لیلیٰ زبیری نے بھی میری حمایت کی۔ عرض صرف اتنا کیا کہ اللہ کے سب سے پیارے رسولﷺ کا فرمان ہے کہ..... ’’جب کسی کی مدد کرو تو ایک ہاتھ کو دوسرے کی خبر نہ ہو.....‘‘ یعنی تشہیر نہ کی جائے،مددکی جائے۔ جو لوگ تصویریں بناتے ہیں اور تشہیر کرتے ہیں، میں ذاتی طور پر اسےانسانیت کی توہین سمجھتا ہوں، تضحیک سمجھتاہوں۔ میری معاشرے کے صاحب ِ ثروت لوگوں سے درخواست ہے کہ آپ اپنے غریب بہن بھائیوں کی مدد کرتے وقت فرمان رسولﷺ کو ذہن میں ضرور رکھاکریں۔ آپ سے خدا کے رسول ﷺخوش ہوگے، آپ سے خدا خوش ہوگا۔
چندروز پہلے لاہور میں ایک تقریب میں شریک ہوا۔ تاخیر ہوئی، میں ہال میں داخل ہو رہا تھا کہ مجیب الرحمٰن شامی نکل رہے تھے۔ جاتے جاتے کہہ گئے..... ’’کالم نگار ِ اعظم تو اب آئے.....‘‘ میرے لئے مجیب الرحمٰن شامی کے الفاظ کسی سند سے کم نہیں ہیں کیونکہ وہ بغیر سوچے سمجھے نہ لکھتے ہیں، نہ بولتے ہیں۔ اگرچہ اس تقریب میں مجھ سمیت لیاقت بلوچ، پروفیسر ساجدمیر، مشال ملک، ایثار رانا، ناصراقبال خان، ڈاکٹر عمرانہ مشتاق اور دوسرے اکابرین نےخطاب کیامگر سب سے جاندار تقریر جہاں آرا وٹو کی تھی۔ جہاں آرا وٹو، سابق وزیراعلیٰ پنجاب میاں منظور احمدوٹو کی صاحبزادی ہیں۔ بلا کی مقرر ہیں۔ ان کی تقریر میں لفظوں کی خوبصورتی بول رہی تھی۔ انہوں نے خطابت کا ہنرپتا نہیں کہاں سےسیکھا ہے۔ اتنی صاف اردو ہمارے سیاستدانوں کے بچوں کوکہاں آتی ہے لیکن جہاں آرا وٹو نے حیران کردیا۔ میں نے اس سے قبل ’’جنگ‘‘ کے صفحات پر ان کے کالم دیکھے تھے۔مجھے بعدمیں پتا چلا کہ اس خوبصورت سیاستدان نے دیوانِ غالب آٹھویں جماعت ہی میں پڑھ لیا تھا۔ کتابیں پڑھنا اس کا شوق ہے۔ پڑھائی لکھائی کے اس شوق کے علاوہ وہ دیپال پور اوکاڑہ سے سیاست بھی کرتی ہیں۔ سنا ہے مریم نواز کو اگلا الیکشن اسلام آباد اور دیپال پور سے لڑوایا جائے گا۔ دیپال پور میں ان کا مقابلہ جہاں آرا وٹو جیسی خوبصورت تقریر کرنے والی سے ہوگا۔ لاہور میں ان کی تقریر میں سب سے اہم بات تھی کہ ..... ’’ہم دینی اور دنیاوی علم میں زوال کا شکار ہیں۔ ہمیں سب سےزیادہ علم پر توجہ دینی چاہئے.....‘‘
تقریب ختم ہوئی تو پتا نہیں ہوائیں میرے کان میں کہہ گئیں کہ..... ’’کبھی مایوس مت ہونا.....‘‘ پاکستان مشکلات سے ضرور گزر رہا ہے مگر ہماری نوجوان نسل حوصلہ مند بھی ہے اور باصلاحیت بھی۔ ناصر بشیر یاد آگئے کہ؎
لوگوں نے اس پر بھی سوالات اٹھائے
ہم دشت میں کیوں بادِ صبا کھینچ کے لائے

.
تازہ ترین