• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
یہ خاک کا پتلا کہلانے والا کیا ہے۔ آج تک اس کی صلاحیتوں، قابلیتوں اور فہم ادراک کا اندازہ ہی نہیں لگایا جا سکا۔ کبھی حالات کے سامنے سرنڈر اور کبھی اپنی انگلی کے اشارے سے زمین و آسمان میں موجود اشیا کا رُخ بدلتا جاتا ہے۔ آخر یہ کیسے ممکن ہے، وہ کیا قوت ہے جو خاکی بدن کو نوری توانائی میں ڈھال کر فطرت کو تسخیر کرنے کی قوت بخشتی ہے۔ غور کیا جائے تو اس کا جواب اسی بات میں مضمر ہے کہ قدرت نے انسان کے وجود میں ہر مشکل اور ہر مسئلے کے حل کی کنجی رکھی ہے۔ اسے تلاش کرنا اور اس کی ہدایات پر آگے بڑھنا اہمیت کا حامل ہے۔
پختہ ارادہ، تلاش، عمل، محنت اور مستقل مزاجی سے ناممکن کو ممکن کیا جا سکتا ہے۔ یہ سارے لوازمات اپنی مدد آپ کے زمرے میں آتے ہیں اس لئے خدا کی رضا اور مدد بھی اس میں شامل ہو جاتی ہے۔ اصل معاملہ راستہ متعین کرنے اور اس پر سفر کے آغاز کرنے کا ہے۔ کبھی اِدھر اور کبھی اُدھر والی بے یقینی کی کیفیت انسانی وجود میں پنہاں طاقت کے سرچشموں کو ڈانواں ڈول رکھتی ہے۔ وجود میں طاقت کے کئی سرچشمے ہوتے ہیں۔ ذرہ ذرہ تعمیر اور تخریب کے مرکز سے جڑا ہے۔ تعمیر سے تخریب کو الگ کرنے کے لئے طویل چلہ کاٹنا پڑتا ہے۔ ذات کے اندر بھٹی لگانی پڑتی ہے۔ اشکوں کا تیل ڈال کر الائو بھڑکانا پڑتا ہے۔ جب آگ مچل اٹھے تو خود کو محدود کرنے والے ہر خیال، پستی کی طرف دھکیلنے والی ہر سوچ اور نفسانی الجھنوں میں گھرا ہر جذبہ نذرِ آتش کیا جاتا ہے۔ اس کے بعد ’’میں‘‘ کی باری آتی ہے۔ یہ کافی مشکل مرحلہ ہوتا ہے مگر ریاضت اس میں معاون کردار ادا کرتے ہوئے فرد کو وہ حوصلہ بخشتی ہے کہ وہ اپنے من کے تختہ سیاہ پر خود اپنے ہاتھوں سے ’’میں‘‘ کو نفی کر کے ’’صرف تُو‘‘ لکھ دیتا ہے۔ ’میں‘ کو مکمل مرید نہ کیا جائے تو وہ وقتاً فوقتاً حملہ کرتی توجہ کو بھٹکاتی رہتی ہے اس لئے صوفی ذات کی تطہیر کرتے ہوئے ’’میں‘‘ کو مطیع کر کے سب تُو کا حصہ بنا دیتا ہے تا کہ نہ رہے بانس نہ بجے بانسری۔ یہاں یہ بات اہم ہے کہ صوفی ’میں‘ کو دیس نکالا نہیں دیتا بلکہ اس کی الگ حیثیت کو ختم کر کے ’تُو‘ میں ضم کر دیتا ہے۔ بالکل اسی طرح جس طرح قطرے اور سمندر کا معاملہ ہے۔ ’’سب تُو‘‘ ایک ایسا نعرۂ مستانہ ہے جو انگ انگ میں عشق کے چراغ روشن کر کے ذات کو مینارۂ نور بنا دیتا ہے۔ اندر باہر، تن من، ظاہر باطن اِک مِک ہو جاتے ہیں، نظر دِل کی دھڑکنیں محسوس کرنے لگتی ہے، دل اور دماغ ایک ڈگر پر رواں ہو جاتے ہیں۔ وجود اکائی میں ڈھل کر لامتناہی طاقت کی صورت اختیار کر لیتا ہے، انگ انگ توانائی کا مظہر بن جاتا ہے۔ مطلب توانائی کا منبع وحدت میں ہے۔ وجود کی وحدت کے سامنے ہر قلعہ مسمار ہو جاتا ہے، قلم میں سمائی الوہی طاقت حروف کو تقدیر بنانے لگتی ہے۔ بقول میاں محمد بخشؒ:
قلم ربانی ہتھ ولی دے لکھے جو من بھاوے
مَردے نوں ربّ قوت بخشی لِکھے لیکھ مٹاوے
حالات کی کھنچی مایوسی کی لکیریں اک ذرا سی جنبشِ قلم سے من چاہی تصویر میں ڈھل جاتی ہیں۔ اصل میں خود اعتمادی، خودی اور خود شناسی زندگی کی وہ علامت اور استعارہ ہے جو مثبت سوچ، بہادری اور جرأت سے عبارت ہے۔ مقصدیت نے صوفی کے وقت کو دِن رات کی قید سے آزاد کر کے ہر لمحے کو معتبر کر دیا ہے۔ وجود کو وحدت کی موج بنانے والی قوت کا نام عشق ہے۔ عشق ہی بھٹی ہے اور عشق ہی الائو بھڑکانے والی پھونکنی۔ جب تک کھوٹ ختم نہ ہو شعلوں کو ہوا دیتی رہتی ہے۔ پھر صیقل ہو کر ایک نئی صورت نمودار ہوتی ہے۔ ایک نیا انسان جنم لیتا ہے، جس کی آنکھیں تعصب کے پردوں کے آر پار دیکھنے کی قدرت رکھتی ہیں۔ نظر کا تیر پتھروں کا سینہ تار تار کر دیتا ہے۔ عشق اسے فضائوں، جنگلوں، پہاڑوں، بیابانوں میں اڑائے پھرتا ہے۔ کھونے کا خوف مادے سے وابستہ ہے، مادے کو نور میں ڈھال لیا تو پھر کیسا ڈر۔
پچھلے دنوں عارف کھڑی اور سفر العشق کی رمزوں سے آشنا کرنے والے عظیم صوفی شاعر میاں محمد بخشؒ کی درگاہ پر حاضری کا شرف حاصل ہوا۔ ذات کے کائنات بننے کے تمام مظاہر اب بھی وہاں گواہی کے طور پر موجود ہیں۔ کس قدر سکون میسر ہوا اس چند فٹ کی چلہ گاہ میں بیٹھ کر جہاں انسان صرف بیٹھ سکتا ہے، چھوٹے سے در سے جھُک کر باہر نکلتا ہے، اپنی ذات کے عرفان اور نفسانی بیماریوں سے نجات کے لئے میاں محمد بخشؒ نے 40 دن اس چھوٹی سی جگہ قیام کیا۔ مقصود صرف محبوب کا قرب اور خیالِ غیر سے نجات تھی۔
کامل عشق خدایا بخشیں غیر ولوں مکھ موڑاں
ہکو جاناں، ہکو تکاں، ہکو آکھاں لوڑاں
جب عشق عطا ہوا تو کھُلا کہ انسان کی فضیلت تو اسی کے مرہونِ منت ہے تو دلوں میں حرص ہوس کے بُت سجائے زندگی کرنے والوں کو بتایا۔
جس دل اندر عشق نہ رچیا کُتے اس تھیں چنگے
خاوند دے در راکھی کردے صابر بھکھے ننگے
پنجاب کے صوفی درباروں اور آزاد کشمیر کے اس عظیم دربار میں ایک خاص فرق نظر آیا کہ ابھی وہاں ذاتی عقائد کو مذہب کے رنگ میں ڈھال کر انسانوں کو تقسیم کرنے والے ٹھیکیداروں نے قبضہ نہیں جمایا۔ میاں صاحب کی اولاد میں سے میاں ساجد جیسے حلیم بزرگ ان کی ذات سے وابستگی پر خود کو اعلیٰ و ارفع نہیں سمجھتے بلکہ عام عقیدت مند کی خاطر حاضرین میں بیٹھتے ہیں۔ ہزاروں لوگ روزانہ وہاں حاضری دیتے ہیں۔ تین وقت کا لنگر عقیدت مندوں کے ساتھ ساتھ حاجت مندوں کی پردہ داری کرتا ہے۔ عورتوں اور مردوں کے لئے الگ الگ قطاریں ہیں نہ خانے، جنم دینے والی ماں کے لئے لاٹھی بردار ہٹو بچو کے نعرے نہیں لگاتے، وہ بلا روک ٹوک دربار پر جا کر ذکرِ خدا کر سکتی ہے، دعا مانگ سکتی ہے، نور میں بھیگی دیواروں سے دِل کا درد بیان کر سکتی ہیں۔ وہ دیواریں جو پتھر دل انسانوں سے زیادہ مہربان ہیں۔ سہارا لگا کر بیٹھو تو اندر کا کرب کشید کر کے صدیوں کے دُکھ چھٹکارا دلاتی ہیں۔ذات کے تقسیم در تقسیم سلسلے کو روکنے کے لئے انسانیت کے آفاقی فلسفے سے آشنائی میاں محمد بخشؒ کے کلام کا خاصہ ہے۔ باقی صوفیاء دنیا کی وحدت کی بات کرتے ہیں۔ انسانیت کی وحدت کا حوالہ دیتے ہیں۔ میاں محمد بخشؒ تو انسانوں کے علاوہ دیگر مخلوقات کو بھی ایک رسی میں پرونے کے قائل ہیں۔ ان کا ہیرو ایک انسان ہے اور ہیروئن پری۔ دونوں کے ملاپ سے وہ خاکی اور نوری کا فرق بھی ختم کر دیتے ہیں۔ مطلب یہ کہ ایک خالق کی تخلیق ایک ہی کنبے کا حصہ ہے۔
ہمیں اپنے آج کو منور کرنے کے لئے میاں محمد بخشؒ جیسے صوفیاء کے کلام کی روح سے مکالمہ کرنا ہو گا، زندگی کے مقابل استحصالی قوتوں کے مقابلے کے لئے اپنی ذات کو سپاہی بنا کر خیر کے کھیتوں کی نگرانی کرنا ہو گی۔ ان کی فکر کے نچوڑ اس شعر کو زندگی میں ہر قدم ساتھ رکھنا ہو گا جو کبھی مایوس ہو کر سفر ترک کرنے کی ترغیب نہیں دیتا۔
اِسے ہکسے مصرعے اندر غرض قصے دی ساری
جو ڈھونڈے سو پاوے بھائی مفت نہیں پر یاری

.
تازہ ترین