• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
وزیراعظم نواز شریف کا حالیہ دورۂ چین ہر لحاظ سے کامیاب رہا ہے۔ پاکستان اور چین کے درمیان بھاشا ڈیم کی تعمیر سمیت اربوں ڈالر کے نئے معاہدے ہوئے ہیں۔ علاوہ ازیں گوادر پورٹ سمیت 7یادداشتوں پر دستخط کئے گئے ہیں۔ خوش آئند امر یہ ہے کہ چینی صدر شی چن پنگ اور وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ اہم معاہدوں پر دستخط کی تقریب میں پاکستان کے چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ بھی موجود تھے۔ واقفان حال کا کہنا ہے کہ چین پاکستان اقتصادی راہداری کے منصوبے کادائرہ کار وسیع کر دیا گیا ہے۔ اب چین کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری 46ارب سے 56ارب ڈالر تک بڑھ چکی ہے۔ اتنی بڑی سرمایہ کاری کی مثال پاکستان کی تاریخ میں نہیں ملتی۔ اس خطیر سرمایہ کاری سے خطے میں ترقی اور خوشحالی آئے گی۔ چین کے ساتھ نئے منصوبوں میں سلک روڈ اکنامک بیلٹ اور 21ویں صدی کی میری ٹائم سلک روڈ کا فریم ورک بھی شامل ہے۔ دیامر بھاشا ڈیم دنیا کاسب سے زیادہ بلند ترین ڈیم ہے۔ چین کے تعاون سے اس ڈیم کے بننے سے4500 میگا واٹ بجلی نیشنل گرڈ میں شامل ہو گی۔ چین کا دنیا بھر میں اور بالخصوص ایشیا میں معاشی کردار بڑھ رہا ہے۔ پاک چین اقتصادی راہداری پروجیکٹ کو گیم چینجر قرار دیا جا رہا ہے اور اب چین کی جانب سے ون بیلٹ، ون روڈ کے منصوبے کو بھی خاصی پذیرائی مل رہی ہے۔ وزیراعظم نواز شریف نے بھی چین میں گول میز کانفرنس سے خطاب کرتے ہوئے اپنے اس عزم کااظہار کیا ہے کہ سی پیک اور ون بیلٹ، ون روڈ منصوبے مشترکہ خوشحالی کے لئے ہیں اور اس سے ترقی کے نئے دور کا آغاز ہو گا۔ ون بیلٹ ون روڈ اور سی پیک کے منصوبوں سے پاکستان کی اہمیت روز بروز بڑھتی جا رہی ہے۔ چینی دورے میں یہ طے کیا گیا ہے کہ سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کے عظیم منصوبوں میں کسی بھی ملک کی شمولیت کے لئے پاکستان اور چین کی رضا مندی لازمی ہو گی۔ وزیراعظم نواز شریف کے ساتھ چاروں صوبوں کے وزرائے اعلیٰ کا ساتھ جانا اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان کے لئے یہ منصوبے کس قدر اہم ہیں۔ پاک چین دوستی مثالی اور قابل رشک ہے۔ ہندوستان پاک چین اقتصادی راہداری کی وجہ سے شدید بوکھلاہٹ کا شکار ہے۔ اب اُسے خطے میں اپنی چوہدراہٹ ختم ہوتی نظر آرہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ وہ شروع دن سے سی پیک کی مخالفت کر رہا ہے۔ بلوچستان میں دہشت گردانہ کارروائیوں کے پیچھے بھارت کا ہاتھ ہے۔ بھارتی جاسوس کلبھوشن یادیو کو بھی بلوچستان سے ہی گرفتار کیا گیا تھا۔ گوادر سمیت بلوچستان کے مختلف علاقوں میں حالیہ دہشت گردی کا مقصد اقتصادی راہداری کے حوالے سے حالات کو خراب کرنا ہے۔ ہندوستان کو اگر واقعی اقتصادی راہداری اور ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبوں میں شامل ہونا ہے تو اُسے پاکستان کے ساتھ سب سے پہلے مسئلہ کشمیر حل کرنا پڑے گا۔ جب تک کشمیر کا دیرینہ تنازع حل نہیں ہوتا اُس وقت تک پاکستان کے ساتھ بھارت کے تعلقات معمول پر نہیں آسکیں گے۔ حقیقت یہ ہے کہ اقتصادی راہداری خطے کی ترقی کا منصوبہ ہے۔ سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ سے پاکستان اور چین کے علاوہ جنوبی ایشیا کے دیگر ملکوں کو بھی ثمرات حاصل ہو سکیں گے۔ اقتصادی راہداری تجارت کا محفوظ، آسان اور مختصر ترین راستہ ہے۔ اس عظیم منصوبے کے مکمل ہونے سے پاکستان کی کمزور معیشت چند سالوں میں دنیا کی مضبوط ترین معیشتوں میں شمار ہو گی۔ اقتصادی راہداری کے ذریعے ہمیں اتنے محصولات میسر آ سکیں گے کہ وطن عزیز کو بیرونی قرضوں سے نجات مل جائے گی اور پاکستان ترقی کی جانب رواں دواں ہو گا۔ اقتصادی راہداری کی تکمیل سے گوادر پورٹ کو بھی مرکزی حیثیت حاصل ہو جائے گی۔ ایشیا کی ترقی کا یہ عظیم منصوبہ بھارت اور امریکہ کو اس لئے ہضم نہیں ہو رہا کیونکہ اس کی کامیابی سے ان دونوں ممالک کی جنوبی ایشیا سے اجارہ داری ختم ہو جائے گی۔ چین کو اس منصوبے سے سب سے بڑا فائدہ یہ ہو گا کہ اس کا 85فیصد تیل آبنائے ملاکا سے گزرتا ہے اور یورپ سمیت مشرق وسطیٰ اور افریقہ کے کئی ممالک کی تجارت بھی اسی راستے سے ہوتی ہے مگر یہ راستہ گوادر سے چین تک کے راستے سے ڈیڑھ گنا زیادہ طویل ہے لہٰذا چین اور پاکستان کی اولین ترجیح اقتصادی راہداری کی تکمیل ہے۔ چین کی معاشی پالیسی کے چار اہداف ہیں جن میں ایشیا اور یورپ سے رابطوں میں اضافہ، ون بیلٹ ون روڈ کا مقام، آزادانہ تجارت کا فروغ اور عوام کے باہمی رابطے بھی شامل ہیں۔ امر واقع یہ ہے کہ چین بھارت کی نسبت پاکستان کو ترجیح دیتا ہے۔ 1962میں بھارت اور چین کی فوجیں مدمقابل آگئی تھیں پاکستان نے اُس وقت حکمت و دانائی کامظاہرہ کر کے امریکی پالیسی کو نظر انداز کرکے چین کا ساتھ دیا تھا۔ پاکستان نے امریکہ کو دو ٹوک انداز میں کہہ دیا تھا کہ جب تک مسئلہ کشمیر حل نہیں ہوتا ہم کسی بھی صورت بھارت کی مدد نہیں کریں گے۔ چین نے ہمارے اسی فیصلے کو قدر کی نگاہ سے دیکھا۔ اُس وقت سے پاک چین تعلقات اُستوار ہونا شروع ہو گئے تھے جو اب تاریخی اور لازوال دوستی کا روپ دھار چکے ہیں۔ چینی قیادت نے بھی پاکستان کے ساتھ دوستی کا حق ادا کر دیا ہے۔ ہر مشکل اور نازک وقت میں چین نے ہمارا ساتھ دیا ہے۔ سی پیک پر بھارتی تشویش بلاجواز اور پاکستان دشمنی کے باعث ہے۔ پاکستان اور چین اس وقت خطے میں ہونے والی تبدیلیوں پر گہری نظر رکھے ہوئے ہیں۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ اب امریکہ اور بھارت کو یہ علم ہو گیا ہے کہ وہ اقتصادی راہداری اور ون بیلٹ ون روڈ کے منصوبوں کو نہیں روک سکیں گے۔ پاکستان اور چین نے اس حوالے سے ثابت قدمی دکھائی ہے۔ چین کو پاکستان کے مسائل کا ادراک ہے اور پاکستان کو چین کی مشکلات کا اندازہ ہے۔ اب کچھ تذکرہ ہو جائے ملکی سیاست کا! ایک طرف وزیراعظم کا کامیاب دورۂ چین اختتام پذیر ہوا ہے اور دوسری طرف ملکی سیاست کی گرما گرمی بھی عروج پر ہے۔ نیوز لیکس کے معاملے پر تو حکومت کو ریلیف ملا ہے مگر دکھائی یہ دیتا ہے کہ پاناما لیکس کیس میں مسلم لیگ (ن) کی قیادت بری طرح پھنس چکی ہے۔ اب پاناما لیکس کے معاملے پر جے آئی ٹی اپنی تحقیقات مکمل کرکے عدالتی کمیشن کو مقررہ وقت میں دے گی اور سب کچھ واضح ہو جائے گا کہ اصل حقائق کیا ہیں؟ موجودہ ملکی منظر نامے میں اپوزیشن جماعتیں پاکستان بھر میں بھرپور انداز میں جلسے جلوس کر رہی ہیں۔ ایسے لگتاہے کہ جیسے نئے انتخابات کی مہم بھی ابھی سے شروع ہوگئی ہے۔ جماعت اسلامی نے بھی خیبر پختونخوا اور دیگر صوبوں کی طرح پنجاب میں اپنی سیاسی طاقت کا زبردست مظاہرہ کیا ہے۔ کچھ عرصہ قبل جماعت اسلامی نے لاہور، ملتان، فیصل آباد اور اسلام آباد میں بڑے جلسے کئے تھے۔ اب گزشتہ ہفتے گجرات اور سرگودھا میں بھی امیر جماعت اسلامی سراج الحق کے بڑے عوامی جلسے اور ورکرز کنونشن اس بات کا ثبوت ہیں کہ جماعت اسلامی بھرپور طریقے سے دیگر صوبوں کی طرح پنجاب کے سیاسی میدان میں بھی سرگرم عمل ہو چکی ہے۔ گجرات میں جماعت اسلامی نے ایک بڑا عوامی جلسہ کر کے یہ واضح پیغام دیاہے کہ وہ آئندہ الیکشن میں اپنے مضبوط امیدوار ضلع گجرات سمیت پورے پنجاب میں سامنے لائے گی۔ اس موقع پر سینیٹر سراج الحق نے خطاب کے دوران اپنا عوامی ایجنڈا بھی شرکائے جلسہ کے سامنے پیش کیا۔ ان کا کہنا تھا کہ اگر قوم نے آئندہ انتخابات میں جماعت اسلامی پر اعتماد کا اظہار کیا تو ان شاء اللہ وہ عوام کے حقیقی مسائل کو حل کریں گے اورخدمت خلق کافریضہ انجام دیں گے۔

.
تازہ ترین