• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

پارلیمنٹ ڈائری،ایوان میں حکومت اوراپوزیشن کےدرمیان دنگل کاماحول

اسلام آباد(محمد صالح ظافر + خصوصی تجزیہ نگار) قومی اسمبلی کا اجلاس جمعرات کو غیرمعینہ مدت کے لئے ملتوی ہوا تو ایوان حکومت اور حزب اختلاف کے درمیان دنگل کا ماحول پیدا ہو چکا تھا جسے اس اجتماعی واک آئوٹ نے ٹالا جس میں تحریک انصاف، پیپلزپارٹی اور جماعت اسلامی باہم ہمرکاب تھیں۔ ہرچند پورے دن کی کارروائی پر فاٹا چھایا رہا اور قبائلی علاقوں کے ارکان قومی اسمبلی دو ٹکڑوں میں بٹ کر حکومت کے لئے باعث آزار بنے رہے۔اس دوران ایک مرحلے پر اسپیکر سردار ایاز صادق جن کے مزاج کی گرمی زیادہ رنگ دکھا رہی ہے قبائلی ارکان کے ایک گروہ کے سرخیل حاجی گل شاہ آفریدی کو ایوان سے اُٹھوا کر باہر پھینک دینے کی دھمکی دینے پر مجبور ہوگئے تھے جو فاضل اسپیکر کی سنی اَن سنی کرتے ہوئے لگاتار بولے جا رہے تھے ان کے جذبات قابو سے باہر ہو رہے تھے۔ اجلاس کے اختتامی لمحات میں تحریک انصاف کی خاتون رکن محترمہ عائشہ گلالئی جنہوں نے پشاور کے دہروزہ احتجاج میں اس دھرنے کی پیشوائی کی تھی جس کا اختتام شہر میں بجلی کی بہم رساؒں کمپنی کے دفتر پر دھاوا تھا اور اسے وفاقی حکومت نے بہت برا سمجھا۔ پانی و بجلی کے وفاقی وزیر خواجہ محمد آصف جن کی تحریک انصاف کی ایک دوسری خاتون رکن کی گوشمالی کا بہت شہرہ رہا ہے قدرے احتیاط سے لب کشائی کر رہے تھے۔ انہوں نے پشاوری دھرنا دینے اور دھاوا بولنے والوں کو چوروں کا جلوس قرار دیدیا۔ انہوں نے دعویٰ کیا کہ متذکرہ خاتون رکن جس حلقے میں اقامت پذیر ہیں وہاں کے فیڈر سے 89 فیصد بجلی چوری ہوتی ہے حکومت کی یہ طے شدہ حکمت عملی ہے کہ وہ ان فیڈرز کو لوڈشیڈنگ کا ہدف بنائے گی جہاں سے بجلی کے بل ادا نہیں ہوتے اور بجلی کو چوری کیا جاتا ہے، اسی حوالے سے خواجہ آصف نے بے تکلفی کا مظاہرہ کرتے ہوئے پشاور کے ان دھرنائیوں کو چور کہہ ڈالا اس تبصرے نے حزب اختلاف کی صفوں میں آگ لگا دی۔ تحریک انصاف کے ارکان تو ہر وقت چراغ پا رہتے ہیں قائد حزب اختلاف سید خورشید احمد شاہ جو حالیہ دنوں میں اپنے ممدوح کے ایماء پر ہر وقت دست بدست ہونے کے آمادہ رہتے ہیں حکومت کے خلاف اُٹھ کھڑے ہوئے اور واک آئوٹ کرگئے۔ ایم کیو ایم نے بھی اس میں اپنا حصہ ڈال دیا۔ یوں ایوان جو قبل ازیں قبائلی علاقوں کی قسمت کے فیصلے پر آتشدان بن کر رہ گیا تھا اب اُجڑے دل کا منظر پیش کرنے لگا۔ اسی اثناء میں تحریک انصاف کے ایک رکن نے کورم کی نشاندہی کر دی۔رکن شماری کرائی گئی تو اندازہ درست نکلا اور اجلاس پہلے معطل کیا گیا تا کہ حکومتی ارکان اگر پارلیمنٹ ہائوس کے کسی کونے میں محو استراحت ہیں بھاگم بھاگ پہنچ جائیں کوشش بسیار کے باوجود مطلوبہ تعداد میں ارکان یکجا نہ ہوسکے اور ڈپٹی اسپیکر مرتضیٰ جاوید عباسی نے صدارتی حکم کی رُو سے کارروائی غیرمعینہ عرصے کے لئے ملتوی کر دی۔ اب قومی اسمبلی اور ایوان بالا سینیٹ آئندہ ہفتے دوبارہ اجلاس منعقد کریں گے جن میں اگلے مالی سال کا میزانیہ پیش ہوگا۔ اس امر کا امکان زیادہ نہیں کہ میزانیے کے لئے طلب کیا جانے والا اجلاس پرسکون ہوگا۔ حکومت کا ارادہ ہے کہ نئے سال کے میزانیے میں عام آدمی کے لئے زیادہ سے زیادہ مراعات کو یقینی بنایا جائے۔ وجہ صاف ظاہر ہے کہ یہ میزانیہ انتخابی سال کے لئے مخصوص ہوگا۔ اس کے باوجود حزب اختلاف جس میں شامل گروپس کے درمیان حکومت کو زیادہ سے زیادہ برا بھلا کہہ کر ’’اصلی تے وڈّی حزب اختلاف‘‘ ہونے کے لئے مقابلہ جاری ہے اس میزانیے کو دُنیا کی بدترین دستاویز ثابت کرنے کے لئے ایڑی چوٹی کا زور لگایا جائے گا جس کے لئے آثار ابھی سے واضح ہو رہے ہیں۔ قومی اسمبلی نے جمعرات کو ریکارڈ تعداد میں قانون سازی کی اس عمل کے دوران حکومتی ارکان بھاری تعداد میں ایوان کا حصہ بنے رہے ۔
تازہ ترین