• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

برطانوی انتخابات کیلئے امیدواروں کی سرگرمیاں عروج پر، 30 پاکستانی بھی میدان میں

لندن(مرتضی علی شاہ/ تنویر کھٹانہ)برطانیہ میں عام انتخابات کے اعلان کے بعد سیاسی پارٹیوں کی جانب سے امیدواروں کے حتمی اعلان اور سیاسی گہما گہمی میں تیزی آئی ہے۔چاہے حکمران جماعت ٹوری ہو یا حزب اختلاف لیبر، لب ڈیم ہو ، گرین پارٹی ہو یا ریسپیکٹ یا آزاد امیدوار تمام لوگ زوروشور سے الیکشن میں حصہ ڈالنے کے لیے اپنا اپنا کردار ادا کر رہے ہیں ۔ پاکستانی نژاد امیدوار بھی ان انتخابات میں بہت بڑی تعداد میں حصہ لے رہے ہیں جس میں لیبر پارٹی کے ٹکٹ سے الیکشن لڑنے والوں کی تعداد سب سے زیادہ ہے۔ لیبر پارٹی نے 14پاکستان نژاد امیدواروں کو عام انتخابات میں ٹکٹ دئیے ہیں جس میں برمنگھم سے خالد محمود اور شبانہ محمود جبکہ بریڈفورڈ سے عمران حسین اور ناز شاہ اور بولٹن سے یاسمین قریشی پارلیمنٹ میں لیبر پارٹی کی پہلے بھی نمائندگی کر چکے ہیں۔ لیبر کے خالد محمود اس سے پہلے چار بار ممبر پارلیمنٹ منتخب ہو چکے ہیں اور پیری بار حلقے سے وہ اپنی نشست کا دفاع کریں گے۔لیبر کی شبانہ محمود اور یاسمین قریشی کا شمار برطانیہ کی پارلیمنٹ میں منتخب ہونے والی پہلی مسلمان خواتین ممبران پارلیمنٹ کے حیثیت سے ہوتا ہے اور یہ دونوں خواتین دو دو بار لیڈی وڈ اور بولٹن حلقوں سے منتخب ہو چکی ہیں اور اب اپنی اپنی نشست کا دفاع کریں گی۔ بریڈ فورڈ کے حلقوں سے ناز شاہ اور شیڈو منسٹر عمران حسین بھی اپنی اپنی نشستوں کا دفاع کریں گے دونوں 2015میں پہلی بار ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔ روزینہ الین خان جو کہ شیڈو سپورٹس منسٹر ہیں اور صادق خان کے لندن مئیر منتخب ہونے کے بعد ان کی چھوڑی گئی سیٹ ٹوٹنگ سے ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئی تھیں اپنی نشست کا دفاع کر رہی ہیں۔ بیڈفورڈ سے اس بار لیبر پارٹی نے گیارہ سال سے کوئینزپارک سے کونسلر منتخب ہونے والے میرپور آزاد کشمیر سے تعلق رکھنے والے محمد یاسین کو ٹکٹ دیا ہے۔ محمد یاسین بیڈفورڈ کونسل میں گیارہ سال سے کونسلر منتخب ہوتے چلے آ رہے ہیں اور انھوں نے مختلف اہم عہدوں پر ذمہ داریاں بھی نبھائیں ہیں۔ چینگفورڈ سے لیبر پارٹی کے ٹکٹ پر دوسری بار بلال محمود الیکشن لڑ رہے ہیں ان کے مدمقابل ایین ڈینکن سمتھ امیدوار ہے اور اس حلقے سے بلال محمود کی کامیابی کو اپ سیٹ قرار دیا گیا ہے۔مانچسٹر کے حلقہ گورٹن سے ضمنی انتخابات کے لیے سابق لارڈ مئیر مانچسٹر اور ممبر یورپین پارلیمنٹ افضل خان کا انتخاب کیا گیا تھا لیکن عام انتخابات کے اعلان کے بعد چار مئی کو ہونے والے یہ انتخابات اب آٹھ مئی کو ہی ہونگے اور اس سیٹ سے پہلی دفعہ کوئی پاکستانی نژاد الیکشن لڑ رہا ہے۔ مئیر آف وارنگٹن فیصل رشید جنھیں وارنگٹن کے پہلے مسلمان مئیر ہونے کا بھی اعزاز حاصل ہے عام انتخابات میں پہلی بار ممبر آف پارلیمنٹ کے لیے قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ شبیر اسلم جو لے لیسٹر ساؤتھ سے لیبر ہارٹی کے امیدوار ہیں اور وہ پہلی بار الیکشن میں حصہ لے رہے ہیں شبیر اسلم 2011 سے کونسلر کی حیثیت سے خدمات انجام دے رہے ہیں اور وہ براونسٹن ٹاؤن کے مئیر بھی رہ چکے ہیں اور انھیں پہلے مسلمان ڈسٹرکٹ کونسلر کا اعزاز بھی حاصل ہے۔ ومبلڈن سے عمران الدین بھی الیکشن میں پہلی بار قسمت آزمائی کر رہے ہیں۔ عمران گزشتہ کئی برسوں سے مرٹن کونسل میں کونسلر کی حیثیت سے خدمات دیتے چلے آ رہے ہیں۔ ویکمب سے اس بار لیبر پارٹی نے کونسلر رفیق راجہ کو ٹکٹ دیا ہے جو کہ ویکمب کے حلقوں میں خاصے معروف ہیں اور ویکمب کونسل میں مختلف عہدوں پر خدمات انجام دے چکے ہیں۔دوسرے نمبر پر لب ڈیم پارٹی نے پاکستانی نژاد امیدواروں کو سب سے زیادہ ٹکٹ دئیے ہیںاوران امیدواروں کی تعداد 9 ہے جو کہ مختلف حلقوں سے برطانوی پارلیمنٹ میں پہنچنے کے لیے قسمت آزمائی کریں گے۔ ڈیوزبری سے تعلق رکھنے والے عدنان حسین اس حلقہ سے دوسری بار قسمت آزما رہے ہیں ان کے والد ڈیوزبری کے کونسلر اور کرکلیز کونسل کے مئیر رہ چکے ہیں۔ طاہر مہر لب ڈیم پارٹی کے ساتھ پچھلے بارہ سال سے وابستہ ہیں اور انھوں نے بحیثیت کونسلر آٹھ سال خدمات انجام دیں ہیں اور وہ پہلی بار ممبر پارلیمنٹ کے لیے ملٹن کینز ساؤتھ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ حمیرا سینڈرس لب ڈیم پارٹی ایلنگ کی تین سال تک چیئرمین رہ چکی ہیں اور وہ پہلی مرتبہ ایلنگ نارتھ سے الیکشن لڑ رہی ہیں وہ لب ڈیم پارٹی کے ان ممبران میں شامل رہ چکی ہیں جنھوں نے امیگریشن اور اسائلم کے حوالے سے مسودہ تیار کیا تھا۔ آمنہ احمد جو کہ لب ڈیم پارٹی کی شیڈو امیگریشن سیکرٹری بھی ہیں اور وہ اس سے پہلے 2015 اور ضمنی انتخابات 2016 میں بھی پارٹی کی نمائندگی کر چکی ہیں۔ اس بار آمنہ احمد سٹن اور چیم سے الیکشن میں حصہ لے رہی ہیں۔ بلیک برن سے تعلق رکھنے والے عرفان احمد پہلی بار لب ڈیم کے ٹکٹ سے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ عرفان اپنی سماجی خدمات سے اچھی شہرت کے حامل ہیں اور ان کی نامزدگی کو علاقے کے لیے خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے۔ آلفورڈ سے اس بار الیکشن لڑنے والے فرید احمد لب ڈیم حلقوں میں خاصے مقبول ہیں اور انھوں نے والتھم فاریسٹ میں ٹکٹس کے حوالے سے کمپین بھی چلائی تھی وہ پہلی بار ممبر پارلیمنٹ کے لیے الیکشن لڑ رہے ہیں۔ ذوالفقار علی جن کا شمار لب ڈیم پارٹی کے سینئر رہنماؤں میں ہوتا ہے اور وہ امیگریشن ایڈوائزری بورڈ کا بھی حصہ ہیں راچڈیل کونسل کے مئیر اور کونسلر کی حیثیت سے خدمات انجام دے چکے ہیں عام انتخابات میں ذوالفقار علی ہڈرزفیلڈ سے حصہ لے رہے ہیں۔ظفر حق لب ڈیم کی ہاربرو سے نمائندگی کر رہے ہیں ظفر حق جنھوں نے لب ڈیم کے بریگزٹ ترجمان کی حیثیت سے بھی کام کیا ہے اور وہ ہاربرو سے 2010 اور 2015 میں بھی لب ڈیم کی نمائندگی کر چکے ہیں۔ حنا ملک فیلتھ اور ہسٹن سے لب ڈیم کی نمائندگی کر رہی ہیں اور وہ اس سے پہلے 2016 کے ضمنی انتخابات میں بھی پارٹی کی نمائندگی کر چکی ہیں جس میں انھیں ناکامی کا سمانا کرنا پڑا تھا ۔ عائشہ میر ایڈنبرا ساؤتھ ویسٹ سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں اور انھوں نے 2015 کے عام انتخابات میں بھی اسی حلقہ سے الیکشن لڑا تھا جس میں وہ کامیاب نہ ہو سکیں تھیں۔ کونسلر شفق محمد جو گزشتہ کئی برسوں سے شفیلڈ کونسل میں کونسلر منتخب ہوتے رہے ہیں اور وہ شفیلڈ کونسل میں لیڈر آف لبرل ڈیموکریٹک کی حیثیت سے بھی خدمات انجام دے رہے ہیں عام انتخابات میں شفق محمد پہلی بار پارلیمنٹ کے انتخابات میں شفیلڈ سے لب ڈیم کی نمائندگی کریں گے۔ عام انتخابات میں کنزرویٹو پارٹی نےچھ پاکستانی نژاد امیدواروں کو ٹکٹ دئیے ہیں جس میں برامزگرو سےساجد جاوید اپنی نشست کا تیسری دفعہ دفاع کریں گے وہ 2010 اور 2015 میں اسی نشست سے ممبر آف پارلیمنٹ منتخب ہو چکے ہیں اور وہ کلچر سیکرٹری، بزنس سیکرٹری اور سپورٹس سیکرٹری کے عہدوں پر کام کر چکے ہیں اس کے علاوہ ڈیوڈ کیمرون کے استعفیٰ کے بعد وہ جوائنٹ لیڈر شپ کے لیے بھی فیورٹ تصور کیے جا رہے تھے۔ رحمان چشتی کا شمار کنزرویٹو پارٹی کے ان سیاستدانوں میں ہوتا ہے جنھوں نے نہ صرف برطانیہ بلکہ پاکستان میں بھی سیاست میں حصہ لیا ہے۔ وہ بے نظیر بھٹو کے ایڈوائزر کے طور پر بھی کام کر چکے ہیں رحمان چشتی گیلنگہم سے دو بار ممبر پارلیمنٹ منتخب ہو چکے ہیں اور وہ تیسری بار اپنی نشست کا دفاع کریں گے۔ 2010 میں انھیں انڈر فورٹی ممبر پارلیمنٹ منتخب ہونے کا اعزاز بھی حاصل ہے جب وہ محض اکیتس برس کی عمر میں ممبر پارلیمنٹ منتخب ہوئے تھے۔احمرین رضا کنزرویٹو پارٹی کی برمنگھم ہاج ہل حلقہ سے انتخاب لڑ رہی ہیں اور وہ فرینڈز آف کنزرویٹو پارٹی آف پاکستان کے چئیر کی حیثیت سے کام کر چکی ہیں۔ نتاشا اصغر جو کہ ویلش اسمبلی کے پہلے مسلمان ممبر محمد اصغر کی بیٹی ہیں اس بار نیو پورٹ ویلز سے انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔ نتاشاایک انٹرنیشنل ٹی وی نیٹورک کے ساتھ کام کر چکی ہیں اور وہ پہلی بار سیاست میں اپنی قسمت آزما رہی ہیں۔ محمد افضل برمنگھم یارڈلی حلقے سے انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں 2015 کے انتخابات میں انھوں نے مانچسٹر گورٹن کے حلقہ سے انتخابات میں حصہ لیا تھا جس میں وہ ناکام ہوئے تھے مانچسٹر کنرویٹو پارٹی کے لیے وہ کافی عرصے سے متحرک ہیں۔ کاشف علی جو کہ پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں اس بار دوبارہ اولڈہم ایسٹ اینڈ سیڈلورتھ سے قسمت آزما رہے ہیں وہ 2010 اور 2015 میں بھی اسی نشست پر الیکشن میں حصہ لے چکے ہیں۔بریڈفورڈ کے حلقہ میں ناز شاہ کے مدمقابل گرین پارٹی کی سابقہ لیڈر اور برمنگھم کونسل کی کونسلر سلمی یعقوب بھی انتخابات میں حصہ لے رہی ہیں۔سکاٹش نیشنل پارٹی نے بھی ایک پاکستانی نژاد امیدوار تسمینہ احمد شیخ کو ٹکٹ دیا ہے۔ تسمینہ احمد شیخ نے اوچل اینڈ ساؤتھ پرتھشائر سے 2015 کے عام انتخابات میں کامیابی حاصل کی تھی اور اس بار وہ اپنی نشست کا دفاع کر رہی ہیں۔ تسمینہ سکاٹش نیشنل پارٹی کی ٹریڈ اینڈ انوسیٹمنٹ ترجمان اور ڈپٹی شیڈو لیڈر آف دی ہاؤس آف کامنز کے طور پر بھی خدمات انجام دے چکی ہیں۔ تسمینہ پیشہ کے اعتبار سے وکیل ہیں اور وہ ایکٹنگ میں بھی جوہر دکھا چکی ہیں۔اگلے ماہ ہونے والے برطانوی انتخابات میں ملک کے 650 حلقوں سے تین ہزار سے زیادہ امیدوار انتخاب لڑ رہے ہیں۔ ان انتخابات میں ایک قابلِ امر بات یہ ہے کہ حزبِ مخالف کی جماعت لیبر پارٹی نے اکتالیس فیصد نشستوں پر خواتین امیدواروں کو ٹکٹ جاری کیے ہیں۔لیبر پارٹی کی جانب سے تقریباً پچاس اقلیتی امیدوار بھی ان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں۔ حکمران جماعت کنزویٹیو پارٹی کی جانب سے 29 فیصد ، لبرل ڈیموکریٹس 30 فیصد جبکہ سکاٹش نیشنل پارٹی کی جانب سے 33 فیصد خواتین امیدواروں کو ٹکٹ دیے گئے ہیں۔برطانوی انتخابات میں ملک کی بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے الیکشن میں حصہ لینے والی پاکستانی نژاد خواتین کی تعداد گیارہ ہے۔ اس کے علاوہ دیگر کئی پارٹیوں سے اور آزاد امیدواران کے طور پر کم و بیش بیس پاکستانی نژاد امیدوار بھی ان انتخابات میں حصہ لے رہے ہیں جو کہ پاکستانی کمیونٹی کا برطانیہ کی سیاست میں مثبت پہلو اجاگر کرنے میں مددگار اور پاکستان اور کشمیر کے مسائل حل کرنے میں سنگ میل ثابت ہو گا۔
تازہ ترین