• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

عالمی عدالت انصاف،پاکستان کےمقابلہ میں بھارت کے جج تعداد میں زیادہ رہے

لاہور (صابر شاہ)  عالمی عدالت انصاف کے قیام ( 1946ء) سے لیکر آج تک پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے مستقل اور ایڈہاک ججز کی کثیر تعداد تعینات  رہ چکی ہے۔پاکستان کے پہلے وزیر خارجہ اور ماہر قانون چوہدری سر محمد ظفراللہ خان پہلے ایشیائی اور پاکستانی تھے جنہیں جنرل اسمبلی اور عالمی عدالت  انصاف کی صدارت کرنے کا اعزاز حاصل ہوا۔ چوہدری سر محمد ظفراللہ خان 1954-61ء اور 1964-73ء میں دو دفعہ عالمی عدالت انصاف کے جج رہے،انکے علاوہ سید شریف الدین پیرزادہ اور یعقوب علی خان بھی عالمی عدالت انصاف کےایڈہاک جج رہے۔اس عالمی ادارے کی مجلس قانون ساز کے آرٹیکل 31 کے تحت متنازعہ کیسز کے سلسلے میں ایڈہاک ججز کا ضابطہ کار طے تھا جس کے مطابق ہر فریق کو یہ حق حاصل ہے کہ وہ اپنے متنازعہ کیسز عدالت میں پیش کر سکے۔ہر فریق عدالت میں متعلقہ ملک کی شہریت کا حامل جج پہلے سے موجود نہ ہونے کی صورت میں اپنا جج مقرر کرا سکتا ہے۔ یہ اس صورت میں ممکن ہے جب ایک کیس کیلئے 17 ججز موجود ہوں۔ حیران کن بات یہ ہے کہ بھارتی خفیہ ایجنسی  ’’را‘‘ کے ایجنٹ کلبھوشن یادو کیس کے سلسلے میں پاکستان نے آئی سی جے میں کسی ایڈہاک جج کے تقرر کا حق رکھنے کے باوجوداپنا یہ حق استعمال نہ کیا جبکہ دوسری جانب بھارت کو ایسی کوئی ضرورت نہ تھی کیونکہ اس کا  ایک مستقل جج دلویر بھنڈاری  پہلے سےوہاں تعینات ہے۔ یونیورسٹی آف شکاگو کے جون 2005ء میں شائع ہونے والے لیگل سٹڈیز جرنل کی ایک رپورٹ کے مطابق عالمی عدالت انصاف کے ایڈہاک ججز کے تقرر کے نظام کو عجیب و غریب قرار دیا  گیامگر اس کا مقصد تمام ممالک کی عالمی عدالت انصاف سے رجوع کرنے کیلئے حوصلہ افزائی کرنا ہے۔ مثلاَ اگر کوئی ریاست یہ سمجھتی ہو کہ اس کے پاس ایسے ماہرین قانون ہیں جو ایسی قانونی مباحث میں حصہ لے سکتے اور ججز کو مقامی قانونی معلومات کے سلسلے میں سروسز فراہم کر سکتے ہوں تو انکی اس سلسلہ میں حوصلہ افزائی کی جاتی ہے۔ اگرچہ یہ نظام بھی کچھ زیادہ موثر ثابت نہیں ہوا کیونکہ عموماً ہوتا یہ ہے کہ ایڈہاک ججز اسی ریاست کی حمایت کرتے ہیں جس نے انہیں جج مقرر کرانے میں کردار ادا کیا ہوتا ہے۔ بھارتی سپریم کورٹ کے سابق جج دلویر بھنڈاری بھی عالمی عدالت انصاف کےموجودہ 15ججز میں سے ایک تھےجن سے پہلے  میسرز بینیگال ناسنگ رائو 1952-53ء  ناجندرا سنگھ 1973-1988ء اور رگو نندن سوارپ پاٹھک 1989-1991ءکےدوران وہاں جج رہے تھے۔ ناجندرا سنگھ 1985-88ء تک عالمی عدالت انصاف کے صدر رہےجبکہ محمد علی کریم چھانگلہ ، ناجندرا سنگھ ، سیما راجن سری نواسن رائو اور جیون ریڈی نے  وہاں بطور ایڈہاک ججز فرائض انجام دیئے۔عالمی عدالت انصاف کا ڈھانچہ 15سیٹوں پر مشتمل ہے جس کے قیام کے وقت 1964ء میں جب 15 ججز کاانتخاب کیاگیا جن میں سے پانچ پہلے تین سال ، پانچ چھ سال اور پانچ  9سال کیلئے منتخب کئے گئے،جن پر ضوابط کار کا اطلاق 9سال کےلئےہوتا ہے اور ہر تین سال بعد 5سیٹوں پر الیکشن ہوتا ہے۔سیٹوں کی ترتیب ابتدائی ٹرمز کے مطابق 2مشرقی یورپ، 5مغربی یورپ اور دیگر ممالک کےلئے ہوتی ہیں اور جج تقرر کےسلسلہ میں اس کی سنیارٹی کو بھی ملحوظ خاطر رکھا جاتا ہے۔ نشستوں کے تعین کے لئے کوئی رسمی طریقہ رائج نہیں البتہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کے پانچ مستقل ا رکان ممالک  میں سے ہر ایک کی عالمی عدالت انصاف میں ایک نشست مخصوص ہوتی ہےماسوائے 1967ءاور 1985ءمیں جب کوئی بھی چینی جج اس عالمی ادارے میں نہیں  تعینات نہ تھا،بقیہ نشستوں کافیصلہ ریجنل گروپ غیر رسمی طور پر کرتے ہیں جس طرح سکیورٹی کونسل کی 15نشستوں کا فیصلہ کیا جاتا ہے۔1970ءسے لیکر آج تک نشستوں کی تقسیم کی رسمی ترتیب یوں ہے کہ تین نشستیں ایشیاء اور بحرالکاہل کے ممالک، تین افریقہ، 2لاطینی امریکہ اورجزائر غر ب الہند خطے کے ممالک کے لئے ہیں۔آرٹیکل 4-19کے مطابق عالمی عدالت انصاف کا حاضر سروس جج کےوفات پا جانےکی صورت میں اس کی جگہ نئے جج کا تقرر الیکشن کے ذریعے کیا جاتا ہے ۔ 
تازہ ترین