• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مولانا فضل الرحمان کی سیاست اور شخصیت کا تجزیہ میں مروجہ نہیں بلکہ اپنے طریقے سے کرتا ہوں۔ اس لئے بھرپور نظریاتی اختلاف کے باوجود وہ کل بھی دوست تھے اور آج بھی ہیں ۔ میدان صحافت میں آنے کے بعد میں جن سیاستدانوں کا قدردان بن گیا تھا، ان میں محمود خان اچکزئی صاحب سرفہرست تھے ۔ اس لئے ان کے ساتھ بھی ذاتی احترام اور دوستی کا تعلق استوار ہوا تھا ۔ احترام اب بھی ہے لیکن دوستی گزشتہ انتخابات کے بعد ان کے حکمراں بننے کے بعد ختم ہوگئی ۔ اقتدار میں آنے کے بعد جس طرح انہوں نے حکومتی عہدوں کو جس طرح اپنے گھرانے میں تقسیم کیا اور خود ان کے قریب ترین ساتھیوں نے جو اندر کی کہانیاں بتائیں ، اس کے بعد ان کے بارے میں میرے ذہن میں موجود خوش گمانیوں کا محل دھڑام سے گر گیا۔جس طرح کسی زمانے میں میری خواہش اور کوشش رہتی تھی کہ اے این پی اور پختونخوا میپ کے مابین فاصلے کم ہوں ، اسی طرح گزشتہ انتخابات تک میں حتی المقدور کوشش کرتا رہا کہ پختون بیلٹ کو درپیش چیلنجز کے مقابلے کے لئے مولانا اور اچکزئی کی تلخیاں بھی کم ہوں لیکن میں کوششوں کے باوجود ان کی تلخیاں کم نہ کرسکا ۔مولانا اسلامی نظام کی بات کرتے ہیں اور ان کی سیاست میں قوم پرستی کی کوئی گنجائش نہیں جبکہ اچکزئی صاحب سیکولرزم اور پختون قوم پرستی کے علمبردار ہیں ۔ اچکزئی صاحب مولانا کو اسٹیبلشمنٹ کا مہرہ سمجھتے تھے جبکہ مولانا ان کو پختون دشمن اور افغان حکومت کے خدمت گار کے القابات سے یاد کرتے تھے۔مولانا افغان طالبان اور ملا محمد عمر کے مداح تھے جبکہ اچکزئی صاحب ، حامد کرزئی کے ۔ مخاصمت کی اصل وجہ یہ تھی کہ بلوچستان کے پختون بیلٹ میں ان دونوں کا ہی مقابلہ رہتا ہے ۔2008ء کے انتخابات میں یہاں مولانا کا کھیل کامیاب ہوا تو وہ بلوچستان کے حکمراں بنے اور 2013ء میں اچکزئی صاحب کی چالیں صحیح چلیں تو مولانا کی جماعت کا جنازہ نکل گیا۔ اچکزئی صاحب ہمیں بتاتے اور سمجھاتے تھے کہ ان کو آوٹ کرنے کے لئے ایجنسیاں مولانا کو وہاں سپورٹ کرتی ہیں جبکہ گزشتہ انتخابات میں جب بلوچستان میں مولانا کی جماعت کو شکست ہوئی اور اچکزئی صاحب حکمران بنے تو سب سے زیادہ لیکچر ہمیں مولانا کے سننے پڑے کہ کس طرح ایجنسیوں نے ان کو آوٹ کرانے کے لئے درپردہ اچکزئی صاحب کو کامیاب کروایا۔ انتخابات کے بعد جس طرح میاں نوازشریف نے سال ڈیڑھ تک مولانا محترم کو تڑپایا اور انہیں وزارت دینے میں ٹال مٹول کی تو اس کی ایک وجہ یہ بھی تھی کہ اچکزئی صاحب میاں صاحب پر زور ڈالتے رہے کہ وہ مولانا سے دور رہیں ۔غرض ان دونوں رہنمائوں کا ہر معاملے اور ہر ایشو پر اس قدر اختلاف تھا کہ وہ ذاتی اختلاف میں تبدیل ہوگیا تھا لیکن ان دونوں کا اتفاق ہے تو بس دو باتوں پر ہے ۔ ایک میاں نوازشریف کی قیادت پر اور دوسرا قبائلیوں کو غلام رکھنے پر ۔ میاں نوازشریف کی قیادت اور قبائل کی غلامی پر اصرار نے دونوں کو یوں یکجاں کردیا ہے کہ اب ساری خدائی ایک طرف ہے اور میاں صاحب کے یہ دونوں بھائی دوسری طرف ۔ مولانا فضل الرحمان صاحب کا طرہ امتیاز یہ ہے کہ معاملہ کچھ بھی ہو لیکن وہ دلیل اور منطق کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتے لیکن اس معاملے میں انہوں نے جو موقف اپنایا ہوا ہے وہ اسلامی اصولوں سے موافق ہے ، جمہوری اصولوں سے اور نہ اخلاقیات سے ہم آہنگ ہے ۔ اسی طرح اچکزئی صاحب کا یہ خاصہ ہے کہ کچھ بھی ہوجائے لیکن ان کی زبان تلخ نہیں ہوتی لیکن اس معاملے میں ملک کی تمام سیاسی جماعتوں بشمول مسلم لیگ (واضح رہے کہ فاٹا کو قومی دھارے میں لانے کا نکتہ حکمراں مسلم لیگ کے منشور میں شامل ہے) کی اجتماعی سوچ کو غلط اور صرف اپنے آپ کو درست قرار دیتے ہیں۔ دونوں تاثر یہ دے رہے ہیں کہ وہ میاں نوازشریف سے اپنی بات منوارہے ہیں لیکن میاں نوازشریف کے اس اسکرپٹ میں رنگ بھررہے ہیں جس کے نتیجے میں کروڑوں پختون قبائلی مزید کئی سالوں تک غلام رہیں گے ۔ فاٹا کا نظام کس قدر ظالمانہ اور غلامانہ ہے ، اس کا اندازہ اس امر سے لگا لیجئے کہ گزشتہ دس سالوں میں محمود خان اچکزئی صاحب اس کے کسی انچ پر قدم نہیں رکھ سکے ۔ وہ لاہور جاسکتے ہیں ، کراچی جاسکتے ہیں حتیٰ کہ گلگت بلتستان جاسکتے ہیں اور وہاں اپنی سوچ کے مطابق جلسہ اور تقریر کرسکتے ہیں لیکن قبائلی علاقہ جات میں پولیٹکل ایجنٹ کی اجازت کے بغیر نہیں جاسکتے ۔ خود مولانا فضل الرحمان جن کے کسی زمانے میں وہاں سے سات اراکین قومی اسمبلی منتخب ہوئے تھے بھی وہاں نہیں جاسکتے ، نے مجھے بتایا کہ گزشتہ نوسال سے ان کو قبائلی علاقوں میں جانے کی اجازت نہیں ۔ حالانکہ موجودہ نظام کی رو سے وہاں کے حاکم مطلق ممنون حسین صاحب جو اچکزئی صاحب اور مولانا صاحب کے وزیراعظم میاں نواز شریف کے نامزد کردہ اور تابعدار ہیں ۔ گویا میاں نواز شریف کے گیم کا حصہ بن کر مولانا صاحب اور اچکزئی صاحب نہ صرف قبائلیوں کو حسب سابق غلام رکھنا چاہتے ہیں بلکہ اپنے آپ کو بھی یوں غلام رکھنا چاہتے ہیں کہ وہ پختونوں کی سرزمین پر جانے کے لئے ممنون حسین صاحب یا کسی اور کی اجازت کے محتاج ہوں۔ پہلے مجھے شک تھا لیکن اب یقین ہوگیا ہے اور یہ صرف مجھے نہیں بلکہ باجوڑ ایجنسی سے مسلم لیگ(ن) کے رکن قومی اسمبلی شہاب الدین خان کو بھی ہوگیا ہے کہ میاں نوازشریف وقت گزارنا چاہتے ہیں ۔ وہ اپنے دعوے میں مخلص ہوتے تو اقتدار سنبھالتے ہی فاٹا کے پختونخوا کے ساتھ انضمام کا عمل شروع کرتے لیکن ان لوگوں سے ان کے دوری کا یہ عالم ہے کہ اپنی کابینہ میں کسی قبائلی کو نمائندگی تک نہیں تھی ۔ یہ شاید پاکستان کی تاریخ کی پہلی کابینہ ہے کہ جس میں کسی قبائلی ایم این اے یا سینیٹر کو وزیر نہیں بنایا گیا ۔ مولانا صاحب اور اچکزئی صاحب اب تو قبائلیوں کے بڑے غمخوار بن رہے ہیں لیکن اپنے وزیراعظم کے سامنے انہوں نے کبھی اس با ت پر احتجاج نہیں کیا کہ وہ کابینہ میں ان کے ’’محبوب‘‘ قبائلیوں کو نمائندگی کیوں نہیں دے رہے ۔ عمران خان کی اہلیہ ریحام خان تک نے بے گھر ہونے والے قبائلیوں کے کیمپ کے دورے کئے لیکن ان دونوں کو مقتدر ہوکر بھی یہ سعادت کبھی حاصل نہیں ہوئی ۔ان سے تو آصف علی زردری اچھے تھے کہ جنہوں نے نہ صرف قبائلیوں کو وزارتیں دیں بلکہ ایک قبائلی شوکت اللہ کو گورنر بھی بنا دیا ۔ بہ ہر حال میاں نوازشریف نے ڈیڑھ سال تک تو قبائلی علاقوں کے لئے کوئی کمیٹی تک نہیں بنائی۔ پھر فوج کے بنائے گئے نیشنل ایکشن پلان میں قبائلی علاقوں کو قومی دھارے میں لانے کا نکتہ شامل کیا لیکن اپنے حکومتی وزرا کی کمیٹی بنانے میں کئی ماہ کی تاخیر کی ۔ پھر سرتاج عزیز کی قیادت میں بنائی گئی کمیٹی پر مجھ سمیت ہر پختون اور سیاستدان کو اعتراض تھا لیکن نہیں تھا تو مولانا صاحب اور اچکزئی صاحب کو نہیں تھا۔ اس کمیٹی کی رپورٹ میں چونکہ فاٹا کا پختونخوا کے ساتھ انضمام کا بنیادی نکتہ شامل تھا ، اس لئے بے پناہ اعتراضات اور تحفظات کے باوجود فاٹا کے پارلیمنٹرینز اور اپوزیشن جماعتوں نے اسے قبول کیا اور وزیرستان سے لے کر پشاور تک جشن منائے گئے ۔ پھر میاں صاحب اس رپورٹ کو کابینہ سے منظور نہیں کرارہے تھے ۔ چنانچہ فاٹا کے پارلیمنٹرین نے اے پی سی بلائی اور سب اپوزیشن جماعتوں کے تعاون سے دھرنے کی دھمکی دی تو مجبوراً کابینہ سے اس کی منظوری لے لی گئی۔ پھر اسمبلی کا اجلاس ہوا اور اصولاً ہونا یہ چاہئے تھا کہ اس میں کابینہ کی منظور شدہ سفارشات کے مطابق بل پیش کیا جاتا لیکن چونکہ میں صاحب کا ارادہ عمل کا نہیں تھا ، اس لئے اس اجلاس میں اس کو پیش نہیں کیا گیا ۔ پھر فاٹا کے پارلیمنٹرین نے اے پی سی بلایا اور جب پھر 20مئی کی ڈیڈ لائن دے دی تو اس میں وزیراعظم کی طرف سے مشیرقانون ظفراللہ خان خود آئے اور اعلان کیا کہ بجٹ اجلاس سے قبل اس کام کیلئے خصوصی اجلاس طلب کیا جائیگا اور حسب وعدہ سرتاج عزیز کمیٹی کی سفارشات کے مطابق قانون سازی کی جائے گی۔چنانچہ آنکھوں میں دھول جھونکنے کے لئے اجلاس طلب بھی کیا گیا لیکن اس میں مناسب بل کی بجائے صرف رواج ایکٹ پیش کیا گیا۔ لیکن اس کا نتیجہ یہ نکلا کہ بدھ کے روز وزیرسیفران جنرل (ر) عبدالقادر بلوچ نے فاٹا کے اراکین پارلیمنٹ کو بلا کر یہ بری خبر سنا دی کہ چونکہ مولانا اور اچکزئی صاحب آخری حدوں تک جانے کو تیار ہیں ، اس لئے وزیراعظم نے ہمیں ہدایت کی ہے کہ اس حوالے سے آگے کوئی پیش رفت نہیں کی جائے گا ۔ انہوں نے کہا کہ نہ انضمام ہوگا اور نہ صدر کا اختیار ختم ہوگا بلکہ ہم صرف رواج ایکٹ نافذ کریں ۔ا س پر مسلم لیگی رکن اسمبلی شہاب الدین خان نے احتجاج کیا تو عبدالقادر بلوچ نے انہیں یہاں تک کہا کہ وہ اگر اپنے وزیراعظم کا حکم نہیں مانتے تو پارٹی چھوڑ دیں ۔ جب انہوں نے اور حاجی شاہ جی گل نے اصرار جاری رکھا تو انہیں ڈرانے کے لئے عبدالقادر بلوچ نے جھوٹ بول کر یہاں تک کہہ دیا کہ اسٹبلشمنٹ انضمام کی سخت مخالف ہے اور اس کی طرف سے سخت پیغام آیا ہے کہ اسٹیٹس کو کو نہ چھیڑا جائے ۔ یوں فاٹا کے پختونخوا کے ساتھ انضمام کے لئے بلایا گیا اجلاس مولانا اور محمود خان اچکزئی کی جذباتی تقریروں کے بعد ختم ہوا۔ اب بجٹ اجلاس ہوگا اور پھر نیا انتخابی سال شروع ہوگا جس کا مطلب یہ ہے کہ قبائلی عوام اگلے انتخابات میں بھی اسی طرح غلام بن کر حصہ لیں گے اور ان کی آزادی اور پاکستان کے قومی دھارے میں آنے کا معاملہ اب اگلی حکومت نمٹائے گی ۔ مولانا کے اس موقف اور ضد کے کچھ دیگر محرکات بھی ہیں اور اچکزئی صاحب کی ضد بھی کہیں اور سے شروع ہوتی ہے لیکن اب وہ جو کچھ کررہے ہیں ، وہ میاں نوازشریف کی خدمت ہی ہے ۔ اصل معاملہ یہ ہے کہ میاں صاحب قبائلی علاقوں کے پختونخوا کے ساتھ انضمام کے لئے درکار رقم ( جو خود سرتاج عزیز کمیٹی نے ڈویزیبل پول سے 3 فی صد تجویز کی ہے ) دینا نہیں چاہتے ۔ انتخابی سال کی وجہ سے وہ وسائل کا رخ پنجاب کی طرف رکھنا چاہتے ہیں ۔ دوسری طرف وہ یہ بھی نہیں چاہتے کہ ان پر الزام لگے کہ انہوں نے حسب وعدہ قبائلی علاقوں کو ان کا حق نہیں دیا ۔ چنانچہ انہوں نے مولانا اور اچکزئی صاحب کو اس کام پر لگارکھا ہے ۔ وزیراعظم صاحب چاہئیں تو ان دونوں کا منانا ان کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے ۔ اگر وزیراعظم سی پیک کے معاملے پر ان دونوں نے بلوچستان اورپختونخوا کے حق پر کمپرومائز پر آمادہ کرسکتے ہیں تو اس معاملے پر کیوں نہیں کرسکتے ۔ بہ ہر حال آج ہر قبائلی اور پختون کے دل کی یہی آواز ہے اور اس آواز کا اظہار وہ انشاء اللہ اگلے انتخابات میں رائے کے اظہار کی شکل میں کریں گے کہ :
سنا ہے میرے رقیبوں میں خوب ان بن ہے
میرے خلاف مگر اتحاد ہے ان میں

.
تازہ ترین