• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے متوقع بجٹ پر بہت ہی خاموشی اور رازداری سے کام ہو رہا ہے۔ پاکستان کے وزیر خزانہ جناب اسحاق ڈار اب بجٹ کے معاملات میں خاصے تجربہ کار ہو چکے ہیں۔ عالمی مالیاتی ادارے ان پر مکمل اعتبار کرتے ہیں۔ پاکستان کا بجٹ ایک عرصہ سے عالمی مالیاتی اداروں کی مشاورت سے بنایا جاتا رہا ہے۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف پاکستان کی معیشت سے خاصے مطمئن نظر آتے ہیں۔ قرضوں کے معاملہ میں بھی ان کی عنایات کو نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ ورلڈ بینک اور آئی ایم ایف امیر ملکوں کے محفوظ سرمایہ پر کاروبار کرتے ہیں اور کسی بھی صورت میں نقصان کا اندیشہ نہیں ہوتا۔ پاکستان میں جمہوریت کے فروغ اور ٹیکس کے ذریعہ پاکستان کو آزاد اور ترقی یافتہ ملک بنانا چاہتے ہیں۔ ویسے تو ملک کی آبادی کے تناسب میں ٹیکس دینے والے کم نظر آتے ہیں مگر ایسا نہیں ہے اس وقت پاکستان کا ہر تیسرا فرد ٹیکس دے رہا ہے۔ اس کے باوجود ملک میں جتنا سرمایہ گردش کر رہا ہے اس کے حوالہ سے ٹیکس کی رقم کم نظر آتی ہے۔
پاکستان کی آمدنی میں خاصا بڑا حصہ تارکین وطن کا ہے جو وہ زرمبادلہ کی صورت میں پاکستان کو دیتے ہیں۔ اگرچہ زرمبادلہ کے ذخائر کو مصنوعی طریقہ سے ظاہر کیا جاتا ہے۔ اس میں عالمی ادارے آئی ایم ایف کے قرضے کی رقم بھی شامل ہوتی ہے مگر اس پرجو سود ادا کیا جاتا ہے وہ اخراجات کے حوالے سے خاصی بڑی رقم بنتی ہے اور سود کی ادائیگی کے بعد قرضے کی رقم معاشی ترقی کے لیے کم نظر آتی ہے۔ حکومتی اخراجات میں شاہ خرچی پر کوئی قدغن نہیں ہے اور بجٹ کو کار سرکار کے بابو لوگ بناتے ہیں۔ ان کو اس سے کوئی غرض نہیں کہ بجٹ میں جو رقوم مختلف کاموں کے لیے اداروں کو دی جاتی ہیں ان کے بارے میں فیصلہ کون کرتا ہے۔ اگرچہ ہر ادارہ اپنے اخراجات اور اپنی آمدنی کے حوالہ سے کار سرکار کے خاص لوگوں کو مطلع ضرور کرتا ہے اور یہ تمام کام ہماری نوکرشاہی کے زیر سایہ ہوتا ہے۔ بجٹ کی تیاری کے سلسلہ میں مشاورت کا عمل نظر نہیں آتا۔ اب تمام کام مفروضوں اور اندازوں کے ذریعہ ہوتا ہے جس کی وجہ سے مختلف معاشی ہدف حاصل کرنے میں خاصی دشواری نظر آتی ہے۔
اس دفعہ کا بجٹ دو حوالوں سے بڑا اہم ہے کہ ایک تو ماہ رمضان آرہا ہے اور دوسرے ہو سکتا ہے کہ یہ بجٹ نواز سرکار کا آخری بجٹ ہو اور بجٹ کے بعد نئے انتخابات کا اعلان ہو سکتا ہے لہٰذا بجٹ سے اندازہ ہو سکے گا کہ نواز لیگ نے بجٹ میں انتخابات کے تناظر میں کتنی رقم رکھی ہے۔ پہلے تو مردم شماری کی وجہ سے انتخابات کا معاملہ طے نہیں ہوسکتا تھا مگر اب تو فوج نے سول سرکار کو مکمل طور پر مدد مہیا کرکے مردم شماری کا کام مکمل کروا دیا ہے اور وہ اس دفعہ کے بجٹ میں کسی حد تک مددگار بھی ثابت ہو سکتا ہے۔
بجٹ بظاہر تو عوام دوست ہونا چاہئے یا اس کی تیاری میں عوامی مسائل پر غور و فکر کی نوید کا ذکر بھی ضروری ہے۔ ہماری سرکار کا کمال یہ ہے کہ جس بات کا ذکر اس کے ارباب اختیار کرتے ہیں اس کا مطلب ہوتا ہے کہ بس وہ بات کرنی اور کہنی ضرور تھی خواہ اس کا کوئی بھی مطلب نہ ہو۔ اب تک بجلی کے معاملہ میں جو دعوے تواتر سے اعلیٰ سرکاری حلقے کرتے رہے ہیں نتیجہ اس کے برعکس ہے۔ بجلی کی تیاری اور فراہمی دونوں ہی نظرانداز ہو رہے ہیں مگر دعوے بھرپور ہیں۔ بجلی کے معاملہ میں نجی سرمایہ کاری اور غیرملکی سرمایہ دونوں نظر تو آرہے ہیں مگر بدانتظامی کی وجہ سے مطلوبہ نتائج حاصل کرنے ممکن نظر نہیں آتے۔ اگر صرف مختلف ہاؤسنگ منصوبوں کو شمسی توانائی کے ذریعہ بجلی مہیا کی جائے اور حکومت اجازت دے تو بجلی کے معاملہ میں سرکار کو معقول آمدنی بھی ہو سکتی ہے۔ کوئی بھی صوبہ توانائی کے معاملات میں خودمختار اور آزاد نہیں ہے اور ہر صوبہ بجلی کی چوری میں کمی کرنے کو تیار نہیں اور بجٹ میں بجلی کی آمدنی خاصی نظر آتی ہے اور اس آمدنی میں زیادہ حصہ ٹیکسوں کی مد میں نظر آتا ہے اور بجلی بنانے والی کمپنیوں کے اخراجات پر بھی کنٹرول نظر نہیں آتا اس لئے یہ معاملہ اگلے انتخابات میں اہم نظر آرہا ہے۔
اس دفعہ اندازہ ہے کہ بینکوں میں کھاتوں کے حوالہ سے جو لوگ ٹیکس دیتے نظر نہیں آتے ان پر جناب اسحاق ڈار کی خاص نظر ہو گی اور ان تمام لوگوں کے کھاتوں کی پڑتال کے بعد ان پر خصوصی ٹیکس لگایا جا سکتا ہے اور نتیجہ یہ ہو گا کہ عام لوگ جن کی آمدنی محدود ہے اور تارکین وطن جو باہر سے اپنے خاندان کے لیے رقوم زرمبادلہ کی صورت میں بینکوں کے ذریعے منتقل کرتے ہیں اور کسان جو اپنی فصل بیچ کر کچھ رقم بینک میں رکھتا ہے وہ سب اس نئے ٹیکس کی زد میں آجائیں گے اور صرف اس وجہ سے متاثر ہوں گے کہ انہوں نے ٹیکس گوشوارہ نہیں بھرا۔ ملک کی تاجر برادری اس معاملہ میں خاصی بے چینی کا شکار ہے۔ ایک تو ٹیکس کا گوشوارہ خاصا مشکل کام ہے اور نوکرشاہی نے اس کو آسان بنانے کی بجائے مشکل تر بنا دیا ہے اور اگر آپ نے گوشوارہ بنوا بھی لیا تو سرکار کے لوگ تحقیق اور تفتیش شروع کردیتے ہیں اور ہر کسی پر شک کیا جاتا ہے۔ یہ صورتحال ملکی معیشت کے لیے بالکل بھی بہتر نہیں۔
اس دفعہ کا بجٹ عوام اور سرکار دونوں کے لیے بہت اہم ہوگا۔ اگر سابقہ روش کے مطابق بابو لوگوں نے اپنا کام کیا اور آئی ایم ایف کی خوشنودی کے لیے ٹیکس دینے والوں میں اضافہ کے لیے من مانی کی تو عوامی ردعمل سرکار کے لیے مشکلات پیدا کرسکتا ہے۔ اس دفعہ کے بجٹ میں جو دعوے ہماری سیاسی اشرافیہ کرتی رہی ہے ان پرکتنی رقم رکھی جاتی ہے وہ سرکار کی نیت کی غمازی کرے گی۔ پاکستان قرضوں کی وجہ سے صحت اور تعلیم کے معاملات میں متاثر ہو رہا ہے۔ ایک تو یہ دونوں معاملات اب صوبوں کے پاس ہیں اور صوبے اور سیاسی قیاد ت دوسرے ترقیاتی معاملات میں زیادہ توجہ دے رہی ہے اور اگر غیرملکی امداد ملتی بھی ہے تو صوبے کے بابو اس کا استعمال اپنے طور پر کرتے ہیں اور اسی وجہ سے تعلیم کا معیار اور صحت کے معاملات میں سرکار بے بس نظرآرہی ہے ۔
شنید ہے کہ اس دفعہ کے بجٹ میں عسکری اداروں کے لیے رقم میں اضافہ بھی کیا جا رہا ہے۔ دوسری طرف یہ حقیقت بھی ہے کہ سابقہ سال میں جو رقم دفاعی معاملات کے لیے رکھی گئی تھی اس سے کم رقم سرکار نے دی۔ اس سلسلہ میں وزیر خزانہ نے عسکری حلقوں سے بات چیت بھی کی۔ اسحاق ڈار صاحب کا مسئلہ یہ ہے کہ ایک طرف وزیر خزانہ ہیں اور دوسری طرف وزیر سیاسی معاملات بھی ہیں اور تیسری حقیقت یہ ہے کہ وہ عالمی اداروں کے ترجمان بھی ہیں۔ اب تک جتنی بھی مجالس عالمی مالیاتی اداروں کے ساتھ ہوئیں وہ سب ملک سے باہر ہی ہوئیں۔ عالمی مالیاتی اداروں کی نئی روش یہ ہے کہ انہوں نے ہمارے وزیرخزانہ کو متفق کرلیا ہے کہ حکومت پاکستان اپنے اثاثے فروخت کر سکتی ہے جبکہ دوسری طرف ملک کی ایک اہم شخصیت جو ہاؤسنگ میں اپنی پہچان کروا چکی ہے ان کا کہنا ہے کہ وہ غیرملکی مدد کے بغیر پاکستان کی معیشت بدل سکتے ہیں اور ان کا وزیراعظم پاکستان اورسابق صدر زرداری سے بہت ہی تعلق خاطر ہے۔ اس دفعہ کے بجٹ میں ہاؤسنگ کے حوالہ سے کچھ تبدیلیوں کی بات بھی کی جا رہی ہے۔ ہمارے جمہوری ادارے قومی اسمبلی اور سینیٹ میں بیٹھے ہوئے عوامی نمائندے بجٹ کے سلسلہ میں کم اور اپنی تنخواہوں کے لیے زیادہ بے چین ہیں اور امید ہے کہ ان کی سرکار ضرور سنے گی اور یہ ہی جمہوریت کا حسن ہے تاہم دیکھنا یہ ہے کہ اس دفعہ کا بجٹ اس جمہوری نظام کو مزید کتنا مضبوط کرتا ہے، ہمارے وزیر خزانہ حکومت کی مدد کرتے ہیں یا وہ اپنے مہربانوں کے لیے زیادہ مہربان ہونے جا رہے ہیں۔ سوال بس اتنا ہے کہ بجٹ عوامی ہوگا یا حسب روایت سرکاری ۔

.
تازہ ترین