• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
علامہ اقبال نے تقریباً ایک صدی پہلے کہا تھا
آزادیٔ افکار سے ہے ان کی تباہی … رکھتے نہیں جو فکر و تدبر کا سلیقہ…ہو فکر اگر خام تو آزادی افکار … انسان کو حیوان بنانے کا طریقہ …علامہ کے سامنے یقینا اپنے دور کے کچھ مسائل ہونگے، جنکی بنا پر انہوں نے ’’ آزادی افکار‘‘ کو فکر یعنی سوچ کی پختگی کیساتھ مشروط کر دیا۔ ان کے اشعار کا آسان مفہوم یہ ہے کہ جو معاشرے تعلیم میں پسماندہ ہوتے ہیں، جہاں لوگوں کی سوچ پختہ نہیں ہوتی ، جہاں عوام کے شعور میں گہرائی نہیں ہوتی اور جہاں سطحی جذباتی باتیں ہی رواج پاجاتی ہیں، وہاں لوگوں کو سوچ اور اظہار کی مکمل آزادی دینے سے تباہی کے راستے کھل جاتے ہیں۔ علامہ کی اس بات کو ایک سو سال سے زائد کا عرصہ گزر چکا، آج اگر کوئی سوچ اور رائے کے اظہار کی آزادی کو مشروط یا محدور کرنے کی بات کرئے ، تو اسے نہ جانے کیسے کیسے طعنے سننے پڑتے ہیں۔ لیکن ہمارے چاروں طرف جو کچھ ہو رہا ہے ، جس طرح جھوٹ،الزامات اور انتشارکا بازار گرم ہے ، اسے" آزادی اظہار رائے" کا مقدس نام دے کر نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ یہ آزادی اب اسقدر بے مہار ہو چکی ہے کہ ملکی مفاد، قومی سلامتی اور دفاع پاکستان کے تقاضے بھی فراموش کر دئیے گئے ہیں۔ یہ احساس مر چکا ہے کہ جاری یہ تماشا وطن عزیز کو کس قدر نقصان پہنچا رہا ہے۔ اہم قومی اداروں کے وقار کو کس طرح مجروح کر رہا ہے۔ پاکستان کے عوام میں کتنی مایوسی اور نا امیدی پھیلا رہا ہے۔
اس آزادی افکار کا تازہ ترین مظاہرہ ’’ نیوز لیکس‘‘ کے حوالے سے ہوا۔ اگرچہ اس طرح کی خبریں ، تجزیے، اور کالم آئے دن میڈیا کی زینت بنتے رہے ہیں۔ لیکن ایک انگریزی اخبار میں چھپنے والی اس خبر پر طوفان اٹھ کھڑا ہوا ۔ وہ عناصر بھی آگ بھڑکانے میں شریک ہو گئے ،جو فوج اور حکومت کے مابین تلخیاں پیدا کر کے اپنے سیاسی مقاصد حاصل کرنا چاہتے تھے۔ ڈان لیکس کی کہانی اب اپنے انجام کو پہنچ چکی ہے۔ وزیر اعظم کو اپنے قریبی اور با اعتماد ساتھی سینیٹر پرویز رشید کی قربانی دینا پڑی، جو وفاقی وزیر بھی تھے۔ معاون خصوصی طارق فاطمی کو بھی عہدے سے ہٹانا پڑا۔ ایک سرکاری افسر راو تحسین بھی زد میں آگئے۔ یقینا وزیر اعظم نواز شریف کیلئے یہ سب کرنا بہت مشکل تھا۔ لیکن انہوں نے ڈان لیکس کمیٹی کی تمام سفارشات کو قبول کر لیا تاکہ معاملے کو یہیں ختم کر دیا جائے۔ تاہم آئی۔ایک ٹویٹ ، ڈان لیکس سے بھی بڑا مسئلہ بن گیا۔ یہاں آرمی چیف جنرل قمر باجوہ کا تدبر اور دلیرانہ رویہ سامنے آیا ۔ انہوں نے ثابت کر دیا کہ لیڈر وہ نہیں ہوتا جو جذباتی نعروں ، سستی شعبدہ بازی اور بہتے ہوئے دھارے کا حصہ بن جائے۔ دلیر، بہادر اور قائدانہ صلاحیوں کا مالک لیڈر وہی ہوتا ہے ، جو ، ان سب باتوں سے بے نیاز ہو کر، ملک و قوم کے مفاد میں ایک بڑا فیصلہ کرئے۔ جنرل باجوہ نے آگے بڑھ کر نہایت عمدہ طریقے سے اس مسئلے کو حل کر دیا ، جو ایک ٹویٹ سے پیدا ہوا تھا۔ کوئی کچھ بھی کہتا رہے، جنرل قمر جاوید باجوہ کا یہ کردار اب ہماری تاریخ کا حصہ بن گیا ہے۔ ان کا قد اس عمل سے کہیں زیادہ بلند ہو گیا ہے۔ ملک کے محب وطن حلقے اور سنجیدہ میڈیا انہیں مسلسل خراج تحسین پیش کر رہے ہیں۔
ایک طرف تو پوری قوم ایک طوفان کے ٹل جانے اور جنرل باجوہ کے تاریخی کردار پر خوشی کا اظہار کر رہی تھی، دوسری طرف ان سیاستدانوں اورنام نہاد ٹی وی میزبانوں کے ہاں صف ماتم بچھ گئی، جنہوں نے امید باندھ لی تھی کہ اس ٹوئٹ کے بعد فوج اور حکومت کے درمیان ایک بڑا معرکہ ہونے جا رہا ہے۔ان عناصر کو یقین تھا کہ آخر کار میدان اس سے خالی ہو جائیگا جس کے استعفے کا مطالبہ 2013 کے انتخابات کے فورا بعد ہی شروع ہو گیا تھا۔ تاہم وزیر اعظم نوازشریف اور جنرل قمر جاوید باجوہ کے فہم و تدبر نے ان کی آخری آس کو بھی خاک میں ملاڈالا۔ اس ناکامی کے بعد یہ لوگ روایتی اور سوشل میڈیا پر جو کچھ کر رہے ہیں، اسے آزادی اظہار کے لبادے میں چھپایا نہیں جا سکتا۔ یہ کھلے عام اہم شخصیات کو تنقید بلکہ تضحیک کا نشانہ بنا رہے ہیں اور ان کی توہین کے مرتکب ہو رہے ہیں۔ یہ ملک دشمنی اور آئین و قانون کی کھلی خلاف ورزی ہے،جس کی اجازت نہیں دی جا سکتی۔، وزیر داخلہ نے ان عناصر کا محاسبہ کرنے اور ان کے خلاف کارروائی کرنے کا اعلان کیا ہے۔ایف ۔آئی ۔اے (FIA) کے سائبر کرائم ونگ کو ہدایات جاری ہو چکی ہیں۔
لازم ہے کہ زبانی کلامی اعلانات کے بجائے عملی اقدامات کئے جائیں۔ پارلیمنٹ نے طویل بحث کے بعد سائبر کرائم بل منظور کیا تھا۔اس قانون کی موجودگی کے باوجود صورتحال جوں کی توں ہے۔ بیشترسوشل میڈیا گروپس میں جھوٹ کا بازار گرم ہے۔ آج کل ایک سابق سفارتکار اور زرداری صاحب کے دست راست، ایک پرانی تصویر کو شیئرکرکے یہ تاثر دینے میں مصروف ہیں کہ طارق فاطمی اس وفد کا حصہ تھے جو ـ "روڈ اینڈ بیلٹ کانفرنس" کے حوالے سے وزیر اعظم کیساتھ چین گیا۔وقت آگیا ہے کہ وزارت داخلہ ایف ۔آئی۔ اے(FIA) کے سائبر کرائم ونگ کی کارکردگی کا جائزہ لے۔انتہائی ضروری ہے کہ آئی ٹی ماہرین کی مدد سے ایسے شر پسند عناصر کا سراغ لگا کر انہیں قانون کیمطابق سزائیں دی جائیں،جو اداروں کے خلاف زہریلا پروپیگنڈا کر رہے ہیں۔
اسی تناظر میںپیمرا نے بھی ٹی وی چینلز کو ہدایات دی ہیں کہ سول ملٹری تعلقات کو محتاط انداز میں زیر بحث لائیں۔ میڈیا کے بعض حلقے مگر کسی ہدایت اور حدود کے پابند نہیں۔ پیمرا کی کاروائی پرچند لاکھ روپے جرمانہ ادا کر دیا جاتا ہے یا پھر عدالتوںکا رخ کیا جاتا ہے۔ اس وقت مختلف چینلز نے 143 کیسز پرسٹے آرڈرز لے رکھے ہیں۔ ایسی صورتحال میں میڈیا کی اصلاح کیونکر ممکن ہے۔ چیف جسٹس صاحب کو اس صورتحال کا جائزہ لینا چاہئے۔ شر پسند عناصر کی بیخ کنی اور حوصلہ شکنی صرف اسی صورت ممکن ہے جب ان کے خلاف فوری کارروائی ہو گی۔ان افراد کی بھی گرفت ہونی چاہئے جو کام سے روکنے کیلئے ،چیئر مین پیمرا کو دھمکا رہے ہیں۔ وزارت داخلہ کیلئے کسی بھی ٹیلی فون کال کو ٹریس کر کے ان افراد کی نشاندہی کرنا ہرگز کوئی مشکل کام نہیں۔

.
تازہ ترین