• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کالم نگاری بھی ایک عجب دنیا ہے۔ ایک آزاد دنیا جس کے اپنے رنگ ہیں اور وہ رنگ ہر کالم میں نظر آتے ہیں۔ لکھاری کی سوچ، نظریات، محبت و نفرت، تعصبات اور باطنی رنگ وقت کے ساتھ ساتھ کھل کر نمایاں ہوجاتے ہیں۔ انہیں جتنا بھی چھپایا اور دبایا جائے وہ قلم کی نوک سے بہرحال صفحۂ قرطاس پر پھیل جاتے ہیں اور لکھاری کی پہچان بن جاتے ہیں۔ الفاظ جہاں اپنا تاثر پیدا کرتے ہیں وہاں لکھاری کی ذات کا امیج یا ہلکا سا خاکہ بھی قاری کے ذہن میں بنا دیتے ہیں۔
کالم نگاری کا ایک حادثہ یہ بھی ہے کہ کبھی کبھار آپ کسی موضوع پر لکھنے بیٹھتے ہیں تو چند سطریں لکھنے کے بعد راہوار قلم آپ کو کسی دوسری طرف لے جاتا ہے۔ بات سے بات نکلتی جاتی ہے اور دل کی بات دل ہی میں رہ جاتی ہے۔ اگر آپ سائنس کے مشتاق ہیں تو یقیناً میری اصلاح کرتے ہوئے کہیں گے کہ بات دل سے نہیں بلکہ ذہن سے نکلتی ہے اور ذہن ہی میں رہ جاتی ہے۔ دل تو فقط ایک چھوٹا سا لوتھڑا ہے جو دھڑکتا رہتا ہے تو زندگی کی علامت کہلاتا ہے اور جب دھڑکنا چھوڑ دے تو دنیا سے کوچ کا نقارہ بج جاتا ہے۔ سائنسی طور پر شاید ایسا ہی ہو کہ سوچ اور اظہار صرف ذہن کی ملکیت ٹھہریں لیکن میری ذاتی رائے میں جب سوچ پختہ ہو جائے، جب سوچ ایمان اور تیقن کا حصہ بن جائے تو پھر وہ صرف ذہن میں ہی نہیں ٹھہرتی بلکہ دل کی گہرائیوں میں بھی اتر آتی ہے کیونکہ عقیدت، محبت، جذبے، ایمان کا براہ راست تعلق قلب کی دنیا سے ہوتا ہے اور اسی لئے انہیں قلبی وارداتیں کہتے ہیں۔ مطالعے، مشاہدے اور تجربات کے وہ شعبے جو دل کو متاثر نہیں کرتے، چاہے وہ بے حد معلومات افزا اور فکر انگیز ہوں وہ ذہن ہی کے کونوں میں محفوظ ہو جاتے ہیں اور ’’دل دریا تے سمندروں ڈونگا‘‘ میں لہریں پیدا نہیں کرسکتے۔ محترم واصف علی واصف صاحب نے ایک نہایت فکر انگیز فقرہ لکھا ہے۔ ظاہر ہے کہ ان کا ہر فقرہ معرفت کا پیامبر ہوتا ہے اور قلب و ذہن پہ نقش چھوڑ جاتا ہے۔ البتہ ان لوگوں کا معاملہ قدرے مختلف ہے جنہوں نے ساری زندگی عقل کی دنیا میں اور عقل کی تابع فرمانی میں گزار دی اور کبھی دل کی وسیع کائنات میں جھانکنے کی کوشش نہیں کی۔ اس حوالے سے علامہ اقبال کا وہ شعر بہت مشہور ہے؎
اچھا ہے دل کے پاس رہے پاسبان عقل
لیکن کبھی کبھی اسے تنہا بھی چھوڑ دے
علامہ کی کبھی کبھی کی شرط یا مشورہ ان کے لئے ہے جو ہمہ وقت عقل کی دنیا میں رہتے اور ہر شے کو عقل کے پیمانے پر ناپتے یا تولتے ہیں ورنہ صوفی بیچارا تو زندگی دل کی کائنات میں قدرت کے رازوں کو سمجھنے اور ’’مشاہدہ‘‘ کرنے میں گزار دیتا ہے۔ مشاہدہ بڑا بامعنی، گہرا اور وسیع لفظ بلکہ تصور ہے کیونکہ جب صوفی کے دل پر تجلیوں کی شبنم اترتی ہے تو وہ مشاہدے میں اس قدر غرق ہو جاتا ہے کہ نہ ہی صرف اپنے ماحول اور اردگرد موجودات سے غافل ہو جاتا ہے بلکہ خود اپنے وجود کا احساس بھی کھو بیٹھتا ہے۔ گویا وہ سراپا کیفیت بن جاتا ہے اور خود اس کیفیت میں پوری طرح ڈوب جاتا ہے۔ طریقت کی منازل سے گزرتے ہوئے میں نے ایک ایسے شخص کو دیکھا جس کی گردن مستقل طور پر بائیں جانب جھک گئی تھی۔ کچھ عرصے کے بعد راز کھلا کہ وہ دل کی کائنات پر نظریں جمائے قدرت کے عطاکردہ مناظر میں اس قدر محو رہتا تھا اور مست رہتا تھا کہ اس کی گردن ہی دل کی جانب ڈھلک گئی تھی۔ یہ ایک جذب کی کیفیت ہوتی ہے جو صاحبان باطن یا قلب کی نگاہ سے دیکھنے والوں کو نصیب ہوتی ہے اور اپنے دامن میں بے پناہ سکون، آسودگی اور اطمینان لاتی ہے۔ اہل عقل کے نزدیک دل گوشت کا ایک لوتھڑا ہے لیکن اہل نظر قلب کو حدنظر تک پھیلی کائنات سمجھتے ہیں جس میں آنکھ قدرت کے مظاہر دیکھتی اور آسمانوں کی سیر کرواتی ہے۔ ظاہر ہے کہ ان وارداتوں یا معاملات کا تعلق ظاہری آنکھ کے مشاہدات سے نہیں ہوتا بلکہ باطنی نگاہ سے ہوتا ہے۔ ظاہر نظر کا فریب ہے جسے ہم حقیقت سمجھتے ہیں جبکہ اصل حقیقت وہ ہے جو ہماری ظاہربین آنکھوں سے مخفی رہتی ہے لیکن صوفی کی نظر میں کھل کر عیاں ہو جاتی ہے۔ ذکر ہوا تھا جناب واصف علی واصف مرحوم کے قول کا۔ اسے پڑھیے اور اس پر غور کیجئے تو آپ پر نئے نئے معانی منکشف ہوتے چلے جائیں گے۔ جناب واصف علی واصف نیم مجذوب، صاحب حال صوفی تھے۔ صوفی کے فرمودات میں ہمیشہ اس کے مشاہدات کا عکس موجود ہوتا ہے، الفاظ اس کے قلب کی گہرائیوں سے نکلتے ہیں نہ کہ محض ذہن کی پیداوار ہوتے ہیں۔ اسی لئے صوفی کے بیان میں ہمیشہ قلبی واردات پوشیدہ ہوتی ہے جسے سمجھنا آسان نہیں ہوتا۔ جناب واصف صاحب کا فرمان ہے ’’جب آنکھ کے اندر دل آجائے تو دل میں آنکھ پیدا ہو جاتی ہے‘‘۔ محض عقل کے ذریعے اس فقرے کا پوسٹ مارٹم کریں تو ظاہر بین حضرات کو ہنسنے اور تمسخر اڑانے کا سامان مل جائے گا اور وہ کہیں گے بھلا دل۔ گوشت کے لوتھڑے۔ میں آنکھ کہاں اور کیسے آسکتی ہے۔ بات پھر اپنے اپنے پس منظر اور تجربات کی ہے۔ میں بھی ایک ظاہر بین اورسطحی انسان ہوں اور جانتا ہوں کہ ہماری آنکھ پردوں اور دیواروں کی قیدی ہوتی ہے۔ لیکن میں نے بارہا مشاہدہ اور تجربہ کیا ہے کہ اللہ سبحانہٗ و تعالیٰ جنہیں دل کی آنکھ عطا کرتے ہیں وہ بیٹھے بیٹھے سینکڑوں بلکہ ہزاروں میلوں تک دیکھ لیتے ہیں، قلبی نگاہ کے راستے میں کوئی پہاڑ یا رکاوٹ حائل نہیں ہوتی اور قلب کی نگاہ کے سامنے پوشیدہ حقائق، قدرت کے راز اور مستقبل کے واقعات یوں کھلتے اور عیاں ہوتے چلے جاتے ہیں جیسے ہم اپنے سامنے موجود مناظر کو دیکھتے ہیں۔ یہ میرا تجربہ ہے اور مجھے یقین ہے کہ یوم حساب مجھے اپنے اعمال کا حساب اور جواب دینا ہے۔ اس لئے مجھے کسی سے کوئی غرض نہیں، غرض ہے تو صرف عاقبت سے.....!!



.
تازہ ترین