• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستانی معاشرے میں مذہبی رہنمائوں (بحیثیت مجموعی) کے قول و فعل میں عام طور پر پائے جانے والے تضاد کے تناظر میں ہمارے بعض سیانے کہتے ہیں:’’اکثر علماء جو کہتے وہ کرومگر جو کرتے ہیں اس سے بچو‘‘۔ سچی بات تو یہ ہے کہ یہ کہاوت تو ہمارے پورے معاشرے پر ہی صادق آتی ہے، لیکن عام لوگوں کی راہ راست اختیار کرنے کی توقعات اپنے مقابلعلماء صاحبان سے زیادہ ہوتی ہیں کہ وہ اپنے ابلاغ عام میں اچھی و سچی باتوں کے مبلغ ہوتے ہیں، تاہم ان کے اجتماعی اعمال کی شکایات بھی کوئی کم نہیں، کئی پہلو تو حساس اور پریشان کن ہیں۔ زیر بحث لانے سے پہلے سوچنا پڑتا ہے کہ کہیں کفر نہ منہ سے نکل جائے۔ تاریخ ثابت کرتی ہے کہ ’’سچے اور اچھے سیاستدان بڑے بڑے مانے جانے علماء کرام کی اجتماعی کاوشوں سے بڑھ کر نتائج دے جاتے ہیں‘‘۔ جدید تاریخ میں اس بیانیے کی حقیقت کو دو بڑے تاریخی حوالوں سے بخوبی سمجھا جا سکتا ہے۔
برصغیر میں سرسید تا قائد و اقبال، سیاست دانوں کے اجتماعی کردار مسلمانان ہند کے لئے آخری نتیجے (قیام پاکستان) کا موازنہ، اگر اسی عہد کے (مولوی صاحبان ہی نہیں) فاضل علماء کے اجتماعی کردار و کاوش کے نتائج سے کیا جائے تو بات بہ آسانی سمجھ میں آ جائے گی۔ مسلم سیاست دانوں اور سیاسی دانشوروں کی اجتماعی سیاسی و علمی جہد کے نتیجے میں مسلمانوں میں جدید علوم سے آراستہ وہ کھیپ تیار نہیں ہوئی جو جدید سیاسی نظام میں اپنی جگہ بنانے کی اہل تھی۔ انہوں نے ہی مسلم لیگ بنائی اور لیگ نے ہی پاکستان بمقابل علمائے دین نے بڑے خلوص دل سے بڑے بڑے ادارے بنائے۔ ان کا حاصل متحدہ ہندوستان میں مسلمانوں کی مسلک وار تقسیم کی صورت میں نہیں نکلا؟ تبھی تو کتنے ہی مورخین اور تاریخ کے تجزیہ کار مختلف مکاتب فکر کے ہندوستان میں قیام کو چال فرنگی کا شاخسانہ قرار دیتے ہیں۔ درست ہے تو آج کی صورتحال میں کہا جا سکتا ہے کہ انگریز بہت کامیاب رہا، شاید اتنا ہی جتنا پاکستان بنانے والے سیاست دان اور سیاسی دانشور، مورخ خود ہی تجزیہ کر لیں، سرعام تو بنتا نہیں، پہلے ہی تپش کم نہیں۔
بنتی تاریخ کا دوسرا بڑا کیس تباہ کن بالشویک انقلاب کے نتیجے میں سوویت یونین کا قیام اور پھر جدید انسانی تہذیب میں بھی 8عشروں تک کروڑ ہا انسانوں کی جکڑ بندی کے بعد خود سوویت کشور کشائی کی اپنی شکست و ریخت بھی ہمیں یہ ہی سبق دیتی ہے کہ کمیونزم کو ہی اپنا دین ایمان ماننے والے علماء نے بڑے خلوص سے ظلم و جبر سے بنائی اپنی ہی سلطنت نہیں، بلکہ مشرقی یورپ اور ترقی پذیر دنیا میں اشتراکیت برآمد کر کے انسانیت کی جو تذلیل کی وہ علمائے اشتراکیت اور اس کے گرویدہ نام نہاد سیاست دانوں کی طویل اور جارحانہ کاوشوں کا زہریلا ثمر تھا۔ جن کو یقین نہیں وہ آج سوویت یونین سے آزاد ہو کر آزاد ہونے والے سنٹرل ایشین ممالک اور سابقہ وارسا برانڈ مشرقی یورپ کے آزاد عوام سے پوچھیں کہ بعداز انقلاب 83سالوں میں اور جنگ عظیم دوم کے بعد تم اور تمہارے بزرگوں پر کیسی گزری؟ کمیونزم کے علماء نے تو پہلے اپنے سیاست دانوں کو اشتراکی ملا بنایا پھر انہیں میدان سیاست میں اتارا؟ لیکن ایک سیاستدان میخائل گوربا چوف نے اشتراکیت کا جوا اتار کر پرستارکیا (ضمیر کی آواز) اور گلاسناسٹ (Oponness)پر لبیک کہتے ہوئے سوویت یونین کو آزاد کرتے ہوئے بکھیر کر انسانیت کی عظیم خدمت کی، جو لوگ، دانشور اور سیاستدان یہ کفر کہتے ہیں کہ ’’سوویت یونین‘‘ ختم نہیں ہونا چاہئے تھا وہ فقط اپنے ملکی سیاسی مفاد میں یہ کہتے ہیں انہیں اپنی رائے میں تاریخ دنیائے انسانیت کے ہاں سب سے بڑے قید خانوں کے مظلوم قیدیوں سے کوئی غرض نہیں معلوم دیتی جو سب انسان تھے اور ہیں۔
پاکستان کا قیام (Participate by Approach)کے نتیجے میں ہوا۔ یہ مسلمانان برصغیر کے تابناک مستقبل کی تعمیر اور تہذیب سازی بذریعہ سیاسی و جمہوری عمل ہے۔ جو علاقائی، ملکی اور لسانی دکانیں سجائے بغیر ایک مقصد عظیم کے حصول کے لئے Intended Benfits(جن کی ترقی مقصود تھی) کی پالیسی سازی فیصلہ سازی اور فیصلوں پر عملدرآمد میں شرکت سے ممکن ہوئی یہ دنیا کے لئے ان ہونا تھا۔ قیام پاکستان سے ہی ان کی اقتصادی ترقی، سیاسی، سماجی و ثقافتی ترقی کا عمل شروع ہونا تھا، اور ہوا اسی لئے قائد کی نومولود مملکت کے شہریوں کو نصیحت برائے مستقبل ’’اتحاد ایمان اور تنظیم‘‘ہے۔ مشترکہ مفادات (ترقی و فلاح) کے اہداف حاصل کرنے کی آزمودہ شرط اول اتحاد اور تنظیم ہی ہے، جس کو ممکن اور مستقل بنانے کا ذریعہ ہمارے پاس مشترکہ ایمان ہی بنتا ہے جو ایک ’’فلاحی جدید اسلامی ریاست‘‘ کا قیام ہے جس کے تمام شہری بلا امتیاز مذہب و نسل و علاقہ و زبان و ثقافت، یکساں شہری حقوق اور مواقع کے حق دار ہوں گے۔ یہ ہی اسلامی جمہوریہ پاکستان کا آئین تمام شہریوں کو ضمانت دیتا ہے۔ گویا قیام پاکستان ’’تخت لاہور‘‘ کی طاقت سے بنا نہ ’’سندھ کارڈ‘‘ کے سیاسی شعبدوں سے۔ یہ تو شہر بنگال مولوی فضل حق کی لاہور میں پیش کردہ قرار داد کی منظوری کے ذریعے قائم ہوا۔ جو گجراتی مسلم لیڈر حضرت قائداعظم کی قیادت میں عمل میں ڈھل گئی جسے پہلی تائید سندھ اسمبلی نے دی اور سرحد کے ریفرنڈم میں پٹھانوں نے اور ادھر بلوچستان میں خان آف قلات نے قائد کی آواز پر لبیک کہا اور پھر یو پی سی پی بہار مشرقی پنجاب و بنگال کے مسلمانوں جس کے لئے دیوانہ وار جدوجہد کی۔ کوئی پارٹیسپٹری اپروچ سے اپروچ تھی۔
آج ہمارے وزیراعظم نواز شریف ہمیں بتا رہے ہیں کہ ترقی پر سیاست نہ کی جائے محترم وزیراعظم! تاریخی حوالے تو اپنی جگہ ہیں، آج ڈویلپمنٹ سائنس اور ڈویلپمنٹ مینجمنٹ، ہر دو باڈیز آف نالج کا آزمودہ علم (نالج) اس امر کی بار بار تصدیق کر چکا ہے کہ Participate by Approachاختیار کئے بغیر مطلوب ترقی ممکن ہی نہیں ترقیاتی عمل میں جن رکاوٹوں کی نشاندہی ہو چکی ہے ان میں سب سے بڑی وجہ Intended Benfitsکو پالیسی سازی، فیصلہ سازی اور فیصلوں پر عملدرآمد میں یکسر نظر انداز کرنا ہے۔ یعنی ترقیاتی تحریکوں اور عمل پر حکومتی، جماعتی یا گروہی اجارہ داری۔ پاکستان کی المناک صورت یہ ہے کہ یہاں یہ اجارہ داری حکومتوں تک محدود ہو گئی پھر حکمرانی خاندانوں کی اجارہ داری سے محدود تر کر دی گئی ہے ایسے میں حکمرانوں کے اس غیر جمہوری طرز عمل کے خلاف سیاست ہی ہو گی ہم نے واضح امکان ہندو اجارہ داری کے غلبے سے محفوظ رکھنے کے لئے بذریعہ جداگانہ انتخاب پاکستان بنایا تھا۔ آج کے باری پوری ہوتے حکومتی ادوار میں تو وولزاف بزنس کو بھی نظر انداز کر کے جو ترقیاتی منصوبے بنائے گئے ہیں وہ متنازعہ اور نتائج کے اعتبار سے محدود ترین ہوں گے خواہ یہ اورنج ٹرین ہو، سستی روٹی، لیپ ٹاپ کی مفت تقسیم، میٹرو بس یا چینی وسیع تر قومی مفاد کا حامل (جس کا بلاشک ہمیں کچھ کہے بغیر فائدہ ہو گیا) وسیع تر انفراسٹرکچر صوبائی وزراء اعلیٰ کو جو دو دورہ چین میں شامل کیا گیا وہ ان کے سیاسی احتجاج و اعتراض کے بعد لیکن درمیانی مراحل میں اور زیر بحث اپروچ کی روح کے بغیر لیکن کر لوں تو بہتر ہے اور اچھا ہو گا عوام، جن کی ترقی مقصود ہو، عوام کو سماجی انصاف دے گا، نہ مطلوب با اختیار بلدیاتی نظام نہ سکول، نہ صحت، نہ پانی، نہ صفائی۔ حضور پارٹیسپٹری اپروچ اختیار کریں۔



.
تازہ ترین