• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
عدلیہ ،مقننہ اور انتظامیہ کسی بھی ریاست کے بنیادی ستون ہیں۔تینوں ستونوں میں سے کوئی ایک بھی ستون کمزورہو تو ریاست کی بنیادیں ہل جاتی ہیں۔ مگر اہم بات یہ ہے کہ انتظامیہ وہ واحد ستون ہے جو دیگر دونوں ستونوں کے درمیان مضبوطی کی علامت سمجھی جاتی ہے۔آج وطن عزیز میں ریاست کا سب سے اہم ستون انتظامیہ زبوں حالی کا شکار ہے۔سول سروس کی کارکردگی پورے پاکستان کے سامنے ہے۔کرپشن اور بدعنوانی عام ہوچکی ہے۔ترقیوں کے معاملے میں سول افسران کی ساکھ آئی بی نے کھول کر رکھ دی تھی۔ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ کرپشن اور اچھی شہرت نہ ہونے پر 200سے زائد گریڈ 19اور20کے افسران کو ترقی نہیں دی گئی۔مقابلے کے امتحان کی صورتحال بھی سب کے سامنے ہے۔تحریری امتحان میں کامیابی کی شرح 2فیصد سے بھی کم ہے۔ملکی تاریخ میں پہلی مرتبہ ہوا ہے کہ نوکریاں زیادہ ہیں اور پاس ہونیوالے امیدوار کم ہیں۔تحریری امتحان میں کامیاب ہونیوالے امیدواروں میں سے صرف ایک درجن ناکام ہوئے ہیں باقی سارے امیدواروں کو انٹرویو و دیگر مراحل مکمل ہونے کے بعد کامیاب قرار دیا گیا۔ملک میں سول سروس کے گرتے ہوئے معیار پر پاکستان ایڈمنسٹریٹیو سروس کے سینئر افسر ڈاکٹر توقیر شاہ صاحب سے تفصیلی بات ہوئی۔افسوس ہوتا ہے کہ سی ایس ایس کا امتحان اب بہترین امیدواروں کے درمیان مقابلے کا امتحان نہیں رہا بلکہ اب یہ اوسط درجے کے امیدواروں کے درمیان مقابلے کا امتحان رہ گیا ہے۔آج دیکھنے کی ضرورت ہے کہ سی ایس ایس کے حالیہ امتحان میں کامیاب ہونے والے کتنے طلبہ ایسے ہیں جو میٹرک ،ایف اے،ایف اے سی اور بی اے میں ٹاپ ٹین رہے ہیں۔کتنے طلبہ ایسے ہیں جو باہر کی جامعات سے گریجویٹ ہیں۔ان میں سے کتنے کامیاب امیدوار ایسے ہیں جو سول افسران کے بچے ہیں۔شاید مشکل سے میرٹ پر آدھا درجن بھی نہ پورا اتر سکیں۔پورے وثوق سے کہہ سکتا ہوں۔آج سی ایس ایس کے امتحان میں کامیاب ہوکر پاکستان ایڈمنسٹرٹیو سروس کا حصہ بننے والے وہ لوگ ہیں جو معیار کے لحاظ سے ماضی کے پی سی ایس تحصیلداری اور پی سی ایس ای ٹی اوز کے برابر ہیں۔حتی کہ پی سی ایس ایگزیکٹیو کے لوگ بھی ان سے بہتر تھے۔وجہ صرف ایک ہے کہ ہمارے نظام کی خرابی اور سول افسران کی قدر نہ کرنے کی وجہ سے اب قوم کی کریم نے اس امتحان میں آنا چھوڑ دیا ہے۔ڈاکٹر صاحب بتارہے تھے کہ 1990ءمیں ان کا بیج آیا تھا۔دس ہزار امیدوار وں نے امتحان دیا تھا اور ایک ہزار امیدوارتحریری امتحان میں کامیاب ہوئے تھے۔جن میں سب حتمی طور پر 112کامیاب امیدواروں کو 12سروس گروپس کیلئے چنا گیا تھا۔ان 112امیدواروں میں72ڈاکٹرز تھے۔29بین الاقوامی یونیورسٹیز سے پڑھے ہوئے تھے۔انتہائی بدقسمتی ہے کہ اس مرتبہ 202امیدواروں نے تحریری امتحان پاس کیا اور اس میں سے 199کا حتمی چناؤ بھی کردیا گیا۔واہ رے میری سول سروس۔یہ کہنا حق بجانب ہوگا کہ 202امیدوار 199ملازمتوں کیلئے مقابلہ کررہے تھے۔کیسی بدقسمتی ہے کہ ــ200"ملین کا ملک،مقابلے کا امتحان۔۔۔ بس اللہ خیر کرے۔
جس ملک میں ڈان لیکس،پانامااور بنی گالا زیادہ اہم ہو وہاں پر سول سروس کا شیراز یونہی بکھرتا ہے۔آج ملک میں تمام اداروں کیلئے سول سروس غیر ضروری ہوچکی ہے۔کوئی بھی اس ملک میں ایماندار اور اچھی ساکھ کا حامل سول افسر نہیں چاہتا۔ اگر کوئی اچھے سول سروس کی خواہش رکھتا ہے تو پھر سینٹرل سلیکشن بورڈ کے احکامات کو ہوا میں اڑا کر، یہ کیوں کہا گیا کہ ’’سب کو پروموٹ کرو‘‘۔ شاید انہیں احساس نہیں ہے کہ اگر ملک میںاچھی سول سروس ہوگی ،ایماندار اور محنتی افسران کام کریں گے تو کبھی بھی ڈان لیکس،پاناما،بنی گالا،ایبٹ آباد،میمو گیٹ ،اوجڑی کیمپ جیسے واقعات رونما نہیں ہونگے۔مگر شاید ہم سب اس بات کا ادھا ر کھائے بیٹھے ہیں کہ جب تک آوے کا آوہ بگڑ نہ جائے ہم کو توجہ نہیں دینی۔
آج بھی مملکت خدا داد میں مروجہ قوانین کی رو سے وفاقی حکومت کے سیکریٹریز جو بالحاض عہدہ سیکریٹری حکومت پاکستان سمجھے جاتے ہیں۔گریڈ 22 کی اسامی پر تعینات ہوتے ہیں۔وفاقی حکومت میں وزارتیں اور ڈویژن کی انتظامی سربراہی سیکریٹریز کی ذمہ داری ہے۔اور مخصوص حالات میں گریڈ 21 کے ایڈیشنل سیکریٹریز جو سینئر بھی ہوں اسے ایڈیشنل سیکریٹری انچارج لگادیا جاتا ہے۔ایک طرف تو بد انتظامی کا رونا رویا جاتا ہے اور دوسری طرف باصلاحیت افسران کو کونے کھدروں میں انتظار کرنے پر مجبور کیا جاتا ہے یا پھر ایسے واقعات سے انہیں جوڑ دیا جاتا ہے کہ وہ نوکری چھوڑنے یا پھر ملک سے باہر نوکری کرنے پر مجبور ہو جائیں۔ کہــ’چڑھ جا بیٹا سولی پررام بھلی کرے گا‘واضح رہے کہ وہ تمام افسران جو اپنے کیرئیر کے اختتام پر متعلقہ تجربہ اور محکمانہ طور پر نیپا ،SMC اور NMC سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں،ان پر قوم کی ایک بڑی انویسٹمنٹ ہوتی ہے۔یہ افسران بجا طور پر قوم اور ملک کا سرمایہ ہیں۔وطن کی آغوش میں پلنے والے ،اس مٹی سے جنم لینے والے کیا پاکستان سے مخلص نہ ہونگے؟اگر اداروں کی بالا دستی کی بات بطور رسم و فیشن نہیں کی جاتی تو کیا کبھی سول سوسائٹی ،صاحب فکر اور دیگر ارباب و اختیا ر جو فیصلہ سازی میں کردار ادا کرتے ہیں ،کیا اپنے آپ کو قصوروار نہیں ٹھہرائیں گے۔ایک وقت تھا کہ ہمارے سول افسران کی کارکردگی کا اعتراف ہمسایہ ملک نے بھی کیا اور ہندوستان نے پاکستانی سفارتی افسروں کو ہندوستانی سفارتی افسروں پر فوقیت دی۔ان کا ماننا ہے کہ پاکستانی سفارتی افسروں کی ٹریننگ اور قابلیت بھارتی افسروں سے کہیں بہتر ہے۔پاکستان سول سروس نے بڑے بڑے گوہر پیدا کئے ہیں۔جس وقت پاکستان معرض وجود میں آیااس وقت انڈین سول سروس (ICS)کے 770افسران میں سے 73مسلمان تھے۔ماسوائے تین کے تمام سول افسران نے پاکستان آنے کو ترجیح دی۔اس ملک کی باگ ڈور بنانے والے سرکاری افسران تھے۔جنہوں نے بقول قدرت اللہ شہاب کانٹوں سے کاغذو ں کو نتھی کرنے کاکام لیا۔خیموں میں دفتر سجالئے،تھل کے صحراؤ ں کو با غ و بہار بنانے والا۔سمن آبادکی بستی کو سجانے والا،لاہور کے گلبرگ کاخالق ،پی آئی اے کا محسن ظفر الحسن گمنامی کی دبی تہہ میں چھپ گیا ہے۔یہ سب وہ سول افسران تھے جوواقعی اس ملک کی کریم تھے اور سول سروس کے امتحان میں بھرپور کارکردگی کے بعد کامیاب ہوئے تھے۔آج صورتحال مکمل مختلف ہے۔
اگر میں ڈیوز ایڈووکیٹ نہیں تو مجھے یہ کہنے میںکوئی ہچکچاہٹ نہیںآج ہمیں سول سروس کے معیار کو بہتربنانے کیلئے ہنگامی بنیادوں پر اقدامات کرنے کی ضرورت ہے۔کیا اقدامات ہونے چاہئے اس پر آئندہ کالم میں لکھو ں گا مگر غالب نے کیا خوب کہا تھا کہ
بجز قیس اور کوئی نہ آیا بروئے کار
صحرا مگر بہ تنگیٔ چشم حسود تھا


.
تازہ ترین