• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
2018 ء کے عام انتخابات کیا شیڈول کے مطابق ہوں گے اور جمہوری عمل دوسری مرتبہ پر امن انتقال اقتدار کے ذریعے پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک نیا ریکارڈ قائم ہو سکے گا ؟ یہ وہ بنیادی سوال ہے ، جو ملک کے اندر ہونے والے سیاسی مباحث میں اکثر کیا جاتا ہے۔ اکثر لوگوں کے ذہن میں یہ سوال ماضی کے تجربات اور ان کے نتیجے میں پیدا ہونے والے خدشات اور وسوسوں کی وجہ سے موجود ہوتا ہے۔ بہت کم لوگ اس سوال پر مستقبل کے تناظر میں غور کررہے ہیں۔ ہمارے خطے سمیت پوری دنیا میں جو تبدیلیاں رونما ہو رہی ہیں ، وہ پاکستان میں جمہوری اور سیاسی استحکام کے لئے پہلے سے زیادہ غیر یقینی کی صورت حال کو جنم دے سکتی ہیں۔
مئی 2013 ء کے عام انتخابات کے ذریعے جب اقتدار ایک جمہوری حکومت سے دوسری حکومت کو منتقل ہوا تو ایک نئی تاریخ رقم ہوئی کیونکہ قیام پاکستان کے بعد پہلی مرتبہ کسی جمہوری حکومت نے اپنی آئینی مدت پوری کی تھی اور دوسری جمہوری حکومت کو انتقال اقتدار ہوا تھا۔ اس غیر معمولی واقعہ کو پاکستان میں جمہوری استحکام سے تعبیر کیا گیا تھا لیکن جمہوری استحکام کے جتنے بھی عوامل تھے ، وہ علاقائی اور عالمی سطح پر اس وقت کی صف بندیوں ، تضادات اور پرانے عالمی ضابطہ ( ورلڈ آرڈر ) سے جڑے ہوئے تھے لیکن 2018 کے عام انتخابات سے پہلے علاقائی اور عالمی سطح پر حالات یکسر تبدیل ہو چکے ہیں۔ تیزی سے نئی صف بندیاں ہو رہی ہیں۔ امریکہ کا عالمی ضابطہ غیر موثر ہو رہا ہے۔ چین ایک نئی عالمی طاقت کے طور پر بہت تیزی سے پیش قدمی کر رہا ہے۔ اس نے ’’ ون بیلٹ ون روڈ ‘‘ وژن دے دیا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ اسے چین کے نئے عالمی ضابطے کا نام دے رہے ہیں۔ پاک چین اقتصادی راہداری ( سی پیک ) کا منصوبہ ’’ ون بیلٹ ون روڈ ‘‘ کے عظیم تر منصوبے کا ایک چھوٹا سا حصہ ہے لیکن اس کے بغیر ون بیلٹ ون روڈ کا وژن مکمل نہیں ہوتا۔ پاکستان کی اہمیت میں بہت زیادہ اضافہ ہو گیا ہے۔ پاکستان اپنے جغرافیائی محل و قوع کی وجہ سے سرد جنگ کے زمانے میں بھی بہت اہمیت کا حامل تھا اور سرد جنگ کے بعد امریکی نیو ورلڈ کے عہد میں عالمی طاقتوں کے لئے اس کی اہمیت کم نہیں ہوئی لیکن بدلتی ہوئی دنیا میں عالمی سیاست اور معیشت میں پاکستان کا کردار بہت زیادہ بڑھ گیا ہے۔ پاکستان کی تزویراتی ( اسٹریٹجک ) اور جغرافیائی محل و قوع کی اہمیت ہی اس کے سیاسی عدم استحکام کا سبب رہی ہے۔ اب اس اہمیت میں اضافے کی وجہ سے عدم استحکام کے خدشات اور خطرات میں بھی اضافہ ہو گیا ہے۔
چین کے ون بیلٹ ون روڈ کے وژن کو نئی شاہراہ ریشم قرار دیا جا رہا ہے۔ چین کا اپنے اس عالمی وژن ( جسے مغربی میڈیا نیا عالمی ضابطہ قرار دے رہا ہے ) پر عمل درآمد کے لئے پاکستان پر زیادہ انحصار ہو گا۔ دوسری طرف امریکہ اس خطے میں بھارت ، جاپان اور اپنے دیگر اتحادی ملکوں کے ساتھ مل کر چین کا راستہ روکنے کی ہرممکن کوشش کرے گا۔ اس حوالے سے امریکہ اور اس کے اتحادیوں کا فوکس بھی پاکستان ہو گا۔ پاکستان ایک بار پھر عالمی مفادات کے ٹکراؤ کا مرکز بننے جا رہا ہے۔ یہ بات ہمارے لئے اچھی نہیں ہے۔
یہ بات تو طے ہو گئی ہے کہ امریکہ کی بالادستی والا نظام اپنے منطقی انجام کو پہنچ رہا ہے۔ دہشت گرد اور غیر ریاستی عناصر کے ذریعے دنیا کو کنٹرول کرنے کے حربے اب زیادہ دیر کارگر نہیں رہیں گے۔ اب یونی پولر ورلڈ نہیں رہی بلکہ ملٹی پولر ورلڈ ( کثیر قطبی دنیا ) وجود میں آچکی ہے۔ اگرچہ چین تصادم کی بجائے معاشی تعاون کا راستہ اختیار کر رہا ہے لیکن اس پر تصادم مسلط کیا گیا تو وہ اس سے راہ فرار اختیار نہیں کرے گا۔ بدلتی ہوئی نئی دنیا میں بڑے فریقین نے نہ صرف ایک دوسرے کی طاقت کا اندازہ لگا رکھا ہوگا بلکہ اپنے منصوبوں پر عمل درآمد کرنے اور درپیش چیلنجوں کا مقابلہ کرنے کا بلیو پرنٹ بھی تیار کر رکھا ہو گا۔ چین نے پاکستان میں مستقبل کی حکومتوں کے بارے میں دو تین آپشنز سوچ رکھے ہوں گے جبکہ امریکہ اور اس کے اتحادیوں نے بھی پاکستان کے حوالے سے اپنے منصوبے بنا رکھے ہوں گے۔ ان حالات میں پاکستان کی بڑی سیاسی جماعتوں کے علاوہ چھوٹی سیاسی جماعتوں اور پریشر گروپس کی بھی اہمیت بڑھ گئی ہے۔ پاکستان کے غیر سیاسی حلقے بھی ایک بار پھر بہت اہم ہو گئے ہیں۔ خطرہ یہ ہے کہ عدم استحکام اور انتشار پیدا کرنے کے لئے بہت زیادہ سرمایہ کاری ہو سکتی ہے۔
اس وقت پاکستان تاریخ کے انتہائی نازک موڑ پر ہے۔ امکانات بھی بہت ہیں اور خطرات بھی بہت ہیں۔ پاکستانی قوم کے لئے ایک بہت بڑا امتحان ہے۔ یہ کام کوئی آسان نہیں ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی اور غیر سیاسی قوتوں کو ایک ایجنڈے پر متفق کیا جائے اور ان پر عالمی طاقتوں کو اثر انداز نہ ہونے دیا جائے۔ اس امتحان میں کامیابی کا ایک ہی طریقہ ہے کہ جمہوری عمل جاری رہے اور شفاف انتخابات کے ذریعے پر امن انتقال اقتدار کو یقینی بنایا جائے اور ایک نیا ریکارڈ قائم کیا جائے۔ تیزی سے بدلتی ہوئی دنیا میں جمہوری استحکام کے نئے عوامل کو رواج دیا جائے۔ اس صورت میں پاکستان امریکی کیمپ سے دور ہونے کے ردعمل کا بھی مقابلہ کر سکتا ہے اور پاکستان کو عدم استحکام کا شکار کرنے والی عالمی طاقتوں کی سازشوں کو بھی ناکام بناسکتا ہے۔
آئندہ چار پانچ ماہ پاکستان کے لئے بہت اہم ہیں۔ پاکستان کی سیاسی قیادت کو بہت تدبر کا مظاہرہ کرنا ہو گا۔
اس دوران بہت غیر معمولی واقعات رونما ہو سکتے ہیں کیونکہ پاکستان میں دلچسپی رکھنے والی عالمی طاقتیں عام انتخابات سے پہلے ہی یہاں ایسے حالات پیدا کرنا چاہیں گی ، جو بعد ازاں ان کے مقاصد کی تکمیل کے لئے سازگار ہوں۔ علاقائی اور عالمی سطح پر نئی صف بندیاں جن عالمی طاقتوں کے مفاد میں نہیں ہیں ، وہ جارحانہ اور مہم جویانہ حکمت عملی اختیار کر سکتی ہیں۔ 2018ء کے انتخابات کا پرامن انعقاد اور اس کے بعد پر امن انتقال اقتدار بہت ضروری ہے۔ بصورت دیگر کسی بھی قسم کا عدم استحکام اور انتشار اپنی سنگینی کے حوالے سے ہمارے تصور سے بھی زیادہ خطرناک ہو گا۔



.
تازہ ترین