• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ایک بہت پرانی تحریر کا خیال مجھے اس طرح آیا کہ ایک دوست مجھ سے کہنے لگے کہ یہ جو حافظ حسین احمد کو بہت سی پارٹیوں بشمول طاہر القادری اور عمران خان پر اعتراض رہا ہے کہ ان کے جھنڈے میں ڈنڈا بعض جرنیلوں کا ہے تو کیا ٹویٹ واپس لےلینے سے یہ سبق بھی ملتا ہے کہ اب یہ سیاسی جماعتوں کے جھنڈوں کے لئے اپنے ڈنڈے نہیں دیں گے۔
میں اس سے پہلے کہ آگے بڑھوں ذرا حافظ حسین احمد کے اس وقت کے بیان اور اس حوالے سے اپنی تحریر کو دوبارہ دیکھ لیتے ہیں۔
اگرچہ یہ بار بار کہا جاچکا ہے کہ طاہر القادری کے پیچھے اسٹیبلشمنٹ نہیں لیکن حافظ حسین احمد کا دعویٰ ہے کہ طاہر القادری کے جھنڈے میں ڈنڈا بعض جرنیلوں کا ہی ہے۔ ان کا فرمانا ہے کہ طاہر القادری کا ایجنڈا وہی ہے جو اس سے پہلے عمران خان اور الطاف حسین کا تھا یعنی یہ کہ اس سے پہلے الطاف حسین اور عمران خان کے جھنڈے میں بھی ڈنڈا ان ہی جرنیلوں کا رہا ہے۔ جرنیلوں کے ڈنڈے والی بات بھی خوب ہے۔ دیکھا جائے تو تقریباً ہر سیاسی جماعت پر اس طرح کے الزامات لگتے رہے ہیں۔ مسلم لیگ (ن) جو اس وقت اسٹیبلشمنٹ کے خلاف سب سے بڑی تحریک کی دعویدار ہے، ایک زمانے تک اس پر بھی یہ الزام رہا کہ اس کے جھنڈے میں ڈنڈا بعض جرنیلوں کاہے اور اس الزام میں سچائی بھی تھی اس لئے کہ اس بات سے تو انکار نہیں کیا جا سکتا کہ نواز شریف صاحب پر نظر عنایت سب سے پہلے جنرل غلام جیلانی کی پڑی اور انہوں نےاپنے ڈنڈے سے ہانک کر ان کو ضیاءالحق کی جماعت میں شامل کرا لیا۔ ایک زمانے تک نواز شریف صاحب اسی ڈنڈے کے سہارے کھڑے رہے اور ان کے قد کاٹھ میں اضافے کی بنیادی وجہ یہی ڈنڈا بنا۔ یہ اور بات کہ اپنے قد کاٹھ میں اضافے کے ساتھ ساتھ اور ضیاءالحق کے اچانک ہلاک ہونے یا کر دیئے جانے کے سبب ان کو اندازہ ہوا کہ اب انہیں اپنے جھنڈے سے یہ ڈنڈا نکال دینا چاہئے۔ سو وہ اپنا جھنڈا الگ کرنے کے سفر پر چل پڑے۔ اس سفر میں انہیں خاصی مشکلات کا سامنا رہا۔ دو بار وزیراعظم بنائے گئے اور ہٹائے گئے۔ اس دوران ان کے ساتھیوں نےاپنے ڈنڈے کے ساتھ ان جرنیلوں اور عدالتوں دونوں کو ٹھیک کرنے کی کوشش میں ناکامی کا سامنا کیا اور اقتدار سے ہاتھ دھو بیٹھے۔ اسٹیبلشمنٹ نے اس دوران شاید سبق یہ سیکھا کہ بہتری یہی ہے کہ مشرف جیسے آدمی کو جھنڈا دے کر چوہدری پرویز الٰہی، شجاعت حسین، الطاف حسین، آفتاب شیر پائو، فیصل صالح حیات جیسے لوگوں کو ہانک کر خود حکومت کی جائے۔ اس کوشش میں خاصی کامیابی بھی ہوئی اور 9برس تک پرویز مشرف نے ڈنڈے کے زور پر ملک کو تابع رکھا۔ غلطی ان سے اس وقت ہوئی جب اس نے اسی ڈنڈے سے عدلیہ اور میڈیا کو ہانکنے کی کوشش کی۔ یہ تو بھلا ہو چیف جسٹس صاحب کا کہ انہوں نے پرویز مشرف کے ڈنڈے کا وار روک دیا لیکن اس وقت تک اسٹبلشمنٹ نے یہ کامیابی ضرور حاصل کی کہ این آر او سائن کروا لیا اور یوں کسی حدتک پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنے جھنڈوں کے لئے اس ہی ڈنڈے کا سہارا لیا۔ پیپلز پارٹی نے تو اپنی بقا کے لئے اپنے جھنڈے سے یہ ڈنڈا الگ نہیں کیا لیکن (ن) لیگ بہرحال اس سے چھٹکارا پانے میں جتی ہے۔ لیکن اب نئے جھنڈوں کی ضرورت ہے اور اسی وجہ سے حافظ حسین احمد کا شکوہ ہے کہ اب یہ جھنڈے طاہر القادری اور عمران خان کی جماعت سے ہیں۔ حافظ حسین احمد کو ویسے اس معاملے میں زیادہ گلہ کرنے سے پرہیز کرنا چاہئے کیونکہ بقول بہت سے سیاسی تجزیہ کاروں کے خود ان کی پارٹی کے جھنڈے میں بھی یہ ہی ڈنڈا ہے۔ ایسا نہ ہوتا تو مولانا فضل الرحمٰن صاحب اکثر اوقات اسٹیبلشمنٹ کی حمایت کرتے نظر نہ آتے۔ اسی اثر کی وجہ سے ہے کہ ضیاءالحق کا دور ہو یا مشرف کا، ان کی جماعت ہمیشہ حکومت کے ساتھ کھڑی نظر آتی ہے۔ عجیب بات یہ ہے کہ بہت سی مذہبی جماعتیں جو اس بات پر مصر ہیں کہ ان کے جھنڈے آزاد ہیں اپنے آپ کو بچانے یا ترقی دینے کے اس ڈنڈے کا سہارا لیتی رہی ہیں۔ انہی میں سے ایک جماعت، جماعت اسلامی بھی ہے۔
ایم ایم اے کی تحریک ہو یا بینظیر مخالف اتحاد یا پھر مشرف کو 17ویں ترمیم کے ذریعے سہارا دینے کاعمل، جماعت اسلامی نے اپنے جھنڈے کے لئے اس ہی ڈنڈے کا استعمال کیا۔
اب رہی بات جناب ہمارے موجودہ چیف آف دی آرمی اسٹاف کی تو جو باتیں انہوں نے ڈیمو کریسی کے حوالے سے کی ہیں اس سے لگتا تو یہی ہے کہ ماضی ماضی ہو گیا۔ اب اب براہ راست مداخلت نہیں کی جائے گی۔ اس کو وزارتِ خارجہ، کشمیر، بھارت اور افغانستان کے ساتھ پالیسی میکنگ میں عمل دخل کے علاوہ شاید اور زیادہ کچھ نہیں چاہئے۔ پاکستان پر حکومت کرنا اب اتنا آسان نہیں رہا جتنا شاید ایوب خان، ضیاءالحق اور مشرف کے دور میں تھا۔ اللہ کرے یہ احساس پختہ رہے اور آئندہ یہ جماعتیں اپنے جھنڈے میں اپنا ہی ڈنڈا لگائیں۔



.
تازہ ترین