• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ابھی ابھی چارسدہ میں پانچ دھماکے ہوئے ہیں ۔ان میں سے ایک دھماکہ ایک اسکول میں ہوا ہے ۔یعنی یہ لوگ انہی دہشت گردوں کے نظریاتی بھائی ہیں جنہوں نے پشاور اے پی ایس میں بچوں کا قتل عام کیا تھا ۔گزشتہ دنوں سابق صدر آصف علی زرداری نےجب ان بچوں کے والدین سے پشاور میں ملاقات کی اوران کےمطالبات سن کر انہیں یقین دلایا کہ وہ ان کے مطالبات سینیٹ میں پیش کرنے کا کہیں گے اور شہدا کو نشان حیدر دینے کے لئے سینٹ میں قرارداد بھی پیش کریں گے۔سینیٹ کے ایوان سے توقع تو کی جاسکتی ہے کہ ان شہیدبچوں کےلئے وہ ضرور کچھ نہ کچھ کرے گی مگر کئی دن گزر جانے کے باوجود ابھی تک اس سلسلے میں وہاں کچھ نہیں ہوا۔بلکہ سینیٹ نے تو ابھی تک اپنے اکلوتے شہید آفیسر کےلئے بھی کچھ نہیں کیا ۔اِس وقت اُس کی کہانی بھی ہر اُس سویلین شہید کی کہانی لگ رہی ہے جو دہشت گردی کی جنگ میں لقمہ ء اجل بن چکا ہےیعنی ساٹھ ہزارشہیدوں کی فہرست میں ایک اور شہید کا نام درج کر دیا گیا ہے ۔اس سلسلے میں مطالبات تو بہت ہوئے حتی کہ اسلام آباد سے تنویر حسین ملک نے مجھے بھی اپنے خط میں لکھا
’’میں آپ کی توجہ بارہ مئی کو مستونگ بلوچستان میں ہونے والے اندوہناک اور ہولناک واقعہ کی طرف دلانا چاہتا ہوں ۔جس میں ڈپٹی چیئرمین سینیٹ کے قافلے پر ہونے والے خود کش حملے میں 26 دوسروں کے ساتھ افتخار مغل بھی شہید ہوئےجو ڈاریکٹر سینیٹ سکریٹریٹ تھے ۔ان کی شہادت پر ہر آنکھ اشکبار ہوئی۔مگر اب پریشانی یہ ہے کہ ان کے تین معصوم بچوں کا کیا ہوگا جو زیر تعلیم ہیں اس کی بیوہ کیا کرے گی ۔ان سب کا واحد سہارا افتخار ہی تھا۔باقی تمام رشتہ دار تو زلزلے کے دوران بالاکوٹ میں ہی شہید ہو گئے تھے ۔اگر چہ سینیٹ میں راجہ ظفرالحق نے خراج تحسین کےلئے قرارداد پیش کی مگرنہ تو ابھی تک گورنمنٹ آف بلوچستان نے بچوں کےلئے کسی امداد کا اعلان کیا ہے اور نہ ہی وفاقی حکومت کی طرف سے کچھ ہوا ہے ۔‘‘
انہیں چیئرمین سینیٹ میاں رضا ربانی سے یہ توقع ضرور ہے کہ ’’وہ ڈیوٹی کے دوران شہید ہونے والے آفیسر کے بچوں اور بیوہ کےلئے خصوصی پیکج کا اعلان کریں گے اور جس طرح انہوں نے جمہوریت کے شہدا کے لئے ایک گیلری بنوائی ہے وہ پارلیمنٹ کے اس پہلے شہید کی یاد تازہ رکھنے کےلئے کسی کمیٹی روم کا نام ان کے نام منسوب کریں گے۔انہیں نشان امتیاز دینے کےلئے حکومت سے سفارش کریں گے۔اس کے ساتھ مولانا فضل الرحمٰن اور ڈپٹی چیئرمین مولانا عبد الغفور حیدری سے بھی یہ توقع رکھتے ہیں کہ شہید کی بیوہ اور بچے جس سرکاری کوارٹر میں مقیم ہیں وہ اس بات کو یقینی بنائیں گے کہ حکومت انہیں اس چھت سے محروم نہیں کرے گی اور بچے در در کی ٹھوکریں نہیں کھائیں گے ۔‘‘یہ وہ کہانی ہے جو ابھی لکھی جانی ہے ۔
یہ تو خیر شہیدوں کے لواحقین کے مسائل تھے۔ بنیادی بات تو وہی ہے کہ ابھی دہشت گردی پر مکمل پر طور پر قابو نہیں پایا جا رہا ۔آرمی چیف نے کسی حد تک اس کی وجہ ناقص حکمرانی کو قرار دیا ہےمگر سوال پیدا ہوتا ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ افواج پاکستان لڑ رہی ہے اور اس کے حکمراں آرمی چیف ہیں ۔اس مسئلے میں پوری قوم آرمی چیف کی پشت پر کھڑی ہے انہیں دہشت گردی کی روک تھام کےلئے کوئی انتہائی قدم ضرور اٹھانا چاہئے اوران کے راستے میں اگر کوئی آتا ہے تو اسے بھی اپنے انجام تک پہنچانا چاہئے ۔ظلم ہے کہ اب تو ایسی آوازیں بھی اٹھنی شروع ہو گئی ہیں کہ ’’لوڈشیڈنگ اُسی کرپشن کا حصہ ہےجو دہشت گردی کے ساتھ جڑی ہوئی ہے ۔ یہ الزام بھی لگایا جاتا ہے کہ سب سے بڑے دہشتگرد کلبھوشن جس کی گردن پر ہزاروں بےگناہ پاکستانیوں کا خون ہے اسے بچانے کی کوششیں جاری ہیں ۔وغیرہ وغیرہ ‘‘
ویسے مجھے اس بات پر بھی حیرت ہے کہ عالمی عدالت انصاف کو کلبھوشن کے بارے میں یہ کیوں نہیں بتایا گیا کہ یہ شخص بھارتی جاسوس ہے یا نہیں ۔لیکن یہ طے ہے کہ یہ ایک بہت بڑا دہشت گرد ہے جس نے پاکستان میں بہت زیادہ دہشت گردی کرائی ہے اس شخص کی وجہ سیکڑوں معصوم لوگ لقمہ ٔ اجل بنے ہیں ۔ہزاروں زخمی ہوئے ہیں ۔بے شمار اپاہج ہوئے ہیں ۔ املاک تباہ ہوئی ہیں ۔پاکستان کو چاہئے تھاکہ دنیا کے سامنے کلبھوشن کو دہشت گرد کی حیثیت سے پیش کرتا۔کیونکہ دہشت گروں کےلئے دنیا بھر میں کسی کے دل میں کوئی ہمدردی موجود نہیں اور ہونی بھی نہیں چاہئے ۔امریکی عدالتیں ابھی تک گوانتانا موبے کو بند نہیں کراسکیں ۔
وزیر اعظم نواز شریف سعودی عرب میں دہشت گردی کے خلاف ہونے سربراہی کانفرنس میں شریک ہونے گئے ہیں جہاں وہ امریکی صدر سے بھی ملاقات کریں گے ۔مجھے یقین ہے کہ وہ وہاں بھارت کی طرف سے پاکستان میں ہونے والی دہشت گردی کے بارے میں تفصیل سے گفتگو کریں گے اور دنیا کو بتائیں گے کہ دہشت گردی کے فروغ میں بھارت جو کچھ کررہا ہے اس کے سدباب کی اشد ضرورت ہے ۔جب تک ہم پاکستانی اِس سچ کو مکمل طور پر سامنے لانے میں کامیاب نہیں ہونگے کہ دہشت گردی کی جنگ کے پیچھے سب سے اہم کردار بھارت کا ہے اس وقت ہم مکمل طور پر دہشت گردی کی جنگ نہیں جیت سکتے ۔مگر ابھی امریکہ کا خیال اس کے برعکس ہے امریکی تھنک ٹینکس کے خیال میں دہشت گردی کے خلاف امریکہ ،سعود ی عرب اور ایران ایک پیج پر ہیں مگر پاکستان کا معاملہ واضح نہیں ۔پاکستان کا کام صرف دہشت گردی میں ملوث تنظیموں کو ’’کالعدم“ قرار دینا نہیں بلکہ انہیں ختم کرنا ہے مگر پاکستان ایسا نہیں کیا ۔پاکستان میں زیادہ تر دہشت گرد تنظیمیں ابھی موجود ہیں صرف ان کے نام بدل دئیے گئے ہیں۔(مرے تھے جن کےلئے وہ رہے وضو کرتے )



.
تازہ ترین