• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
بیجنگ میں ہونے والی ون بیلٹ اور ون روڈ کانفرنس میں 29 حکومتوں کے سربراہان، 130ممالک کے وفود نے 14 اور 15مئی 2017ء کو شرکت کرکے ایک دلکش، دلفریب اور پُروقار منظر پیش کیا۔ جس سے دُنیا میں پاکستان کی چین کے ساتھ مل کر اہمیت انتہائی نمایاں ہوئی اور چین کے اِس عزم کی تجدید تھی کہ وہ پاکستان کے ساتھ مل کر دُنیا کا ایک نیا عالمی نظام وضع کرے گا، روس کے سربراہ ولادیمیر پیوٹن کی شمولیت نے اس کانفرنس کی قدر و منزلت کو دوبالا کردیا اورظاہر کررہا تھا کہ واقعی دُنیا میں کوئی تبدیلی رونما ہونے والی ہے، یہ ایک پٹی اور ایک سڑک جسے حرف عام میں او بی او آر کہا جاتا ہے، تین براعظموں یعنی ایشیا، افریقہ اور یورپ کو ملائے گی۔ جن ممالک کے سربراہان نے شرکت کی اُن کے نام لکھے جائیں تو پورا کالم اُن ناموں سے پُر ہوجائے گا۔ تاہم خاص خاص ممالک میں ارجنٹینا، آسٹریلیا، روس، بیلاروس، چین، پاکستان، برازیل، ازبکستان، انڈونیشیا، قزاقستان، ملائیشیا، فلپائن، اٹلی، کینیا، سری لنکا، کرغیزستان، قزاقستان، اسپین اور دیگر ممالک شامل تھے۔ امریکہ، برطانیہ، یونان، سعودی عرب، جاپان، ایران، کویت، متحدہ عرب امارات، نیپال، سوئٹزرلینڈ، ترکی جیسے بڑے ممالک بھی شامل تھے۔ یہ پُرشکوہ تقریب تھی، جس نے دُنیا بھر میں ترقی و خوشحالی، امن و شانتی کا پیغام دیا۔ مگر بھارت اس میں شریک نہیں ہوا اور شاید اس کا خیال ہے کہ وہ اِس خوشحالی کی راہ پر اس کانفرنس کے ممالک کو چلنے نہیں دے گا مگر جس عزم کے ساتھ یہ ممالک اِس کانفرنس میں شریک ہوئے وہ اِس بات کو نفی کرتے ہیں کہ وہ اس قافلے کی راہ میں کسی رکاوٹ کو خاطر میں لائیں گے، میاں محمد نواز شریف کو وہاں غیرمعمولی اہمیت دی گئی جس نے پاکستان کی قدرومنزلت کو بڑھا دیا، 2014میں چین کے ایک کالم نگار کی ذریعے اِس ارادے کا اظہار بیجنگ کے ایک اخبار کے ذریعے ہوا کہ چین نے پاکستان کے ساتھ مل کر ایک نیا عالمی نظام ترتیب دینے کا فیصلہ کیا ہے اور اس میں اس نے پاکستان کی تمام مشکلات اور چیلنجوں کو اپنانے کا بھی ارادہ ظاہر کیا ہے اور اس نے پاکستان کے معاملے میں یہ پالیسی تبدیل کرلی ہے کہ وہ کسی ملک کی عملی مدد کو نہیں آئے گا، چینی قیادت کا فیصلہ تھا کہ وہ پاکستان کی ہر الجھن میں ساتھ دے گا اور اس کے ساتھ قدم بہ قدم ملا کر چلے گا۔ اِس کانفرنس سے پہلے چینی سربراہ نے پاکستان کے دورے کے وقت 46بلین کے ترقیاتی منصوبوں کے معاہدہ کئے اور پھر وہ بڑھا کر 57بلین ڈالرز ہوگئے۔ اس دورے میں ترقیاتی منصوبوں میں اضافہ ہوا اور 500ملین ڈالرز کے معاہدوںمیں شاہراہ ریشم کا فریم ورک معاشی پٹی اور 21ویں صدی میں سمندری تجارت کو محفوظ بنانے کی شروعات معاشی و تکنیکی تعاون، گوادر بندرگاہ کی تعمیر، حویلیاں میں ڈرائی پورٹ کا قیام اور سنکیانگ کو گوادر سے ملانے والی سڑک کی تعمیر جو دراصل سنکیانگ کو بحرعرب سے ملا دے گی کے منصوبوں پر دستخط ہوئے۔ اس کے علاوہ اس ارادے کا اظہار بھی کیا گیاکہ پشاور سے کراچی تک دو رویہ ریلوے لائن ڈالی جائے گی جس پر بہت بڑی رقم خرچ ہوگی، اس کانفرنس میں پاکستان کے وزیراعظم نے جہاں پاک چین اقتصادی راہداری کی تکمیل کے عزم کا اظہار کیا وہاں ایک بڑے اور طاقتور ملک ہونے کا ثبوت دیتے ہوئے کہا کہ اقتصادی راہداری کے فوائد یا اُس کی تکمیل میںپڑوسیوں سے دوستی کے بغیر مشکلات ہوسکتی ہیں، یہ ایک طرح سے افغانستان، بھارت اور دیگر ممالک کو پیغام تھا کہ پاکستان اُن کے ساتھ صلح جوئی سے رہنا چاہتا ہے اور اُن کے ساتھ جو مسائل ہیں وہ حل کرنا چاہتا ہے، اسی دوران ایک اور واقعہ ہوا کہ 18 مئی 2017ء کو عالمی عدالت نے 240 سے زائد کوئٹہ کے ہزارہ برادری کے قاتل کلبھوشن یادیو کو پھانسی پر نہ چڑھانے کا فیصلہ دیا جو کچھ لوگوں کے مطابق عدالت کا اپنی حد سے تجاوز ہے اور شاید وہ اِس تناظر میں ہو کہ یورپ میں کسی کو پھانسی نہیں دی جاتی، اس لئے وہ کلبھوشن کی پھانسی کے خلاف ہیں، اس پر پاکستان میں بھونچال آگیا اور پاکستان کا موقف یہ تھا کہ غداری کے معاملے میں عالمی عدالت کا دائرہ اختیار تسلیم نہیں کرتے، نہ صرف یہ بلکہ پاکستان نے یہ مطالبہ بھی کیا کہ کلبھوشن کئی پاکستانیوں کا قاتل ہے، بھارت پاکستان کو سہولت کاروں تک رسائی دے جبکہ پاکستان کلبھوشن تک کونسلر رسائی دینے کا پابند نہیں، وہ مطالبہ کرتا رہے مگر اُن کی بات نہیں مانی گئی، اُن کا کہنا تھا کہ فیصلے سے فرق نہیں پڑتا۔ اس پر یہ سوال اٹھا کہ یہ غلطی ہوئی یا کسی منصوبہ کا حصہ ہے جس کا جواب پاکستان نے یہ دیا کہ عالمی عدالتی احترام کے لئے پیش ہوئے، عالمی عدالت نے اپنی حدود سے تجاوز کیا، اُن کا یہ خیال ہے کہ پاکستان کا کیس کمزور ہوگیا ہے۔ پاکستان نے بھارت کی طرف سے ہونے والی دہشت گردی کو زیادہ زور دار طریقے سے نہیں اٹھایا۔ مشیر خارجہ سرتاج عزیز کا کہنا ہے کہ عالمی عدالت نے صرف رائے کا اظہار کیا ہے۔ قونصلر رسائی نہیں دے سکتے۔ اٹارنی جنرل اشتر کا کہنا تھا کہ عالمی عدالت کے فیصلے سے فرق نہیں پڑتا، ویسے بھی عالمی عدالت کے اِس فیصلے سے بھارتی طرفداری کا اظہار واضح نظر آرہا تھا جبکہ بھارت نے ہمارا نیوی کا ایک جہاز گرایا تھا اس پر عالمی عدالت ہماری بات سننے کو تیار نہیں تھی۔ اسی لئے اب پاکستان احتراماً عالمی عدالت میں پیش ہوا، ورنہ اس کو پیش ہونے کی ضرورت نہیں تھی علاوہ اس کے کہ کوئی عالمی تناظر اور خطے کے امن کے حوالے سے اندرونی طور پر فیصلے ہوئے ہوں یا ویانا کنونشن پر دستخط کردیئے گئے ہوں تو وہ عالمی عدالت کے دائرہ کار میں آسکتا ہے۔ عالمی عدالت نے کہا بھارت کلبھوشن کے معاملے میں مطمئن نہیں کر پایا، مکمل شواہد اگر پیش کئے گئے تو عالمی عدالت ریلیف دے سکتی ہے۔ بھارت کا اس پر ردعمل آیا کہ کلبھوشن کو بچانے کے لئے کسی بھی حد تک جائیں گے۔ اس پر پاکستان کو ایک دفعہ پھر کارگل جیسی صورتحال کا سامنا ہے۔ آیا وہ جنگ جیسی صورتحال سے دوچار ہونے کو تیار ہے یا پھر وہ بھارت کے ساتھ عالمی عدالت کے بیچ بچائو کے راستے کو قبول کرکے جنگ یا کشیدگی سے بچنا چاہے گا مگر سوال یہ بھی ہے کہ کیا کارگل کے بعد کشیدگی کم ہوگئی اوربھارت اِس معاملے میں کامیابی حاصل کرنے کے بعد اقتصادی راہداری کی مخالفت ختم کر دے گا۔ جس کے امکانات صفر ہیں یا پھر پاکستان وقت کے حصول کی پالیسی کو اپنا کر عالمی عدالت کے پاکستان کے خلاف فیصلے کو تسلیم کرلے گا۔ اس کے علاوہ پاکستان کے بری افواج کے سربراہ کا کہنا ہے کہ ساری ذمہ داری فوج پر ڈالنے سے ملک آگے نہیں جاسکتا، یہ بات تو انہوں نے معاشرہ میں پھیلے ہوئے دہشت گردی کے ناسور کے حوالے سے کہی، اس کے علاوہ وزیراعظم محمد نواز شریف چین اور ہانگ کانگ کے دورے کے بعد اب سعودی عرب کے دورے پر چلے گئے ہیں جہاں ڈونلڈ ٹرمپ کو خلیجی ممالک کے سربراہان سے خطاب کرنا ہے۔ دیکھنا یہ ہے کہ میاں صاحب کو امریکی صدر کے خطاب کی کانفرنس میں کیا اہمیت ملے گی وہاں چین جیسی اہمیت ملنا تو مشکل ہے تاہم پاکستان ایک اہم ملک ہے اور وہ مسلم سربراہان سے خطاب کررہے ہیں وہ بھی ایک چھت کے نیچے۔ مگر سوال یہ ہے کہ اس سے پاکستان کو کچھ ملے گا یانہیں۔



.
تازہ ترین