• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
آج تین موضوعات اپنی طرف کھینچ رہے ہیں اول بھارتی شہری کی سزا کے خلاف عالمی عدالت کا فیصلہ، جس پر ہمارے جذباتیت پھیلانے کے ٹھیکیدار مخصوص میڈیا نے ایک طوفان بپاکر رکھا ہے۔ احمقانہ پروپیگنڈے کے حصہ بننے اور جھوٹ لکھنے پر ضمیر نہیں مان رہا جبکہ سچائی لکھیں تو ہضم نہ ہوسکے گی، اس لئے چھوڑ دیتے ہیں۔ دوسرا موضوع امریکی صدر ٹرمپ کا پہلا بیرونی دورہ ہے جس کا آغاز سعودی عرب سے ہوا ہے۔ اپنے اس دورے میں وہ یہ کوشش کریں گے کہ مسلم اقوام شدت پسندوں اور دہشت گردوں سے اپنی ہمدردیاں واپس لیتے ہوئے مہذب اقوام عالم کے دوش بدوش چلیں۔ اس دورے کا جائزہ اگلے کالم میں ان شاءاللہ۔ فی الحال آرمی چیف کے غیر روایتی کلیدی خطاب پر اکتفا جو انہوں نے ہائر ایجوکیشن کمیشن سے منسلک سو سے زائد یونیورسٹیوں کے وائس چانسلرز اور دیگر اہل علم کے سیمینار میں پیش کیا ہے، جس کا عنوان تھا ’’انتہا پسندی کو مسترد کرنے میں نوجوانوں کا کردار‘‘ گویا وہ اعلیٰ تعلیمی اداروں اور میڈیا ہاوسز کے ذریعے نسلِ نو سے مخاطب تھے، جن سے انہیں اتنی امیدیں ہیں کہ’’اگر آج درست فیصلے کئےگئے تو دس سال بعد ہم ان کے ثمرات سمیٹ رہے ہوں گے اور اگر آ ج اس حوالے سے کوتاہی برتی گئی تو دس سال بعد بھی ہم یہی کچھ دیکھ رہے ہوں گے کہ کس طرح ہمارے نوجوان شدت پسندی کے ہاتھوں متاثر ہورہے ہیں‘‘۔ انڈس یونیورسٹی کے وائس چانسلر کو مخاطب کرتے ہوئے انہوں نے کہا کہ آپ کے بھائی کا درد میں سمجھ سکتا ہوں لیکن اپنے لوگوں کو شہید ہوتے دیکھ کر میں ہر روز اسی درد سے گزرتا ہوں۔
انتہاپسندی کو ختم کرنے کےلئے جنرل باجوہ کے خطاب میں تین باتیں بڑی اہم تھیں جو مسئلے کی اصل جڑ ہیں۔ اول یہ کہ دہشت گردی وانتہاپسندی کو شکست دینے کےلئے ان کے نظریہ کو شکست دینا ضروری ہے۔ دوم یہ کہ شدت پسندی کو ختم کرنے کےلئے اس کی وجوہات کا خاتمہ یقینی بنایا جانا چاہئے۔ سوم یہ کہ شدت پسندی ایک مائنڈ سیٹ ہے جو اس بیماری کے شکار لوگوں میں عدم برداشت اور عدم رواداری پیدا کرتا ہے، ضرورت اس مائنڈ سیٹ کو توڑنے کی ہے۔ اس سلسلے میں آپریشن ردالفساد ایک نئے دور کا آغاز ہے۔ اس آپریشن کے ساتھ ساتھ ہمیں نیشنل ایکشن پلان میں بیان کئےگئے طریق کار کو بھی اپنانا ہوگا۔ ہم تو گزشتہ دو دہائیوں سے یہ دہائی دیتے چلے آرہے ہیں کہ محض دہشت گردوں کو پکڑنا یا مارنا مسئلے کا حقیقی حل نہیں ہے، جب تک شدت پسندی کی نرسریوں پر ہاتھ نہیں ڈالا جاتا اس وقت تک اس موذی مرض کی آبیاری ہوتی رہے گی۔ آپ جتنے بھی دہشت گردوں کو پکڑیں، اس سے کہیں زیادہ کی نئی کھیپ تیار ہو کر سوسائٹی میں سرایت کرتی رہے گی۔
ہمیں دہشت گردوں کی فوری جذباتی کیفیت اور اس کے پسِ منظر کو سمجھا جانا چاہیے جو کہ اتنی فوری بھی نہیں ہوتی بلکہ باقاعدہ ان پر حاوی ہوتی ہے اور کسی ایک پر نہیں بلکہ بہت سے لوگوں پر حاوی رہتی ہے،ہماری روایتی سوسائٹی میں شدت پسندانہ سوچیں کس کثرت اور تیزی سے پھیلی ہوئی ہیں ان کے مظاہر ہم آئے روز مختلف سانحات کی صورت دیکھتے رہتے ہیں، قابل افسوس بات یہ ہے کہ جب بھی شدت پسندی کے زیر اثر کوئی ایسی واردات ہوتی ہے تو وطنِ عزیز کے لبرل طبقات سے بڑھ کر وہ لوگ اس کی مذمت میں پیش پیش ہوتے ہیں جن کے دم قدم سے ایسی سوچیں سوسائٹی میں تیزی سے پھیلی ہیں ۔
اس مائنڈ سیٹ کو تخلیق کرنے کے ذمہ داران تنہا محض مذہبی فکری مراکز نہیں ہیں بلکہ ہماری ماڈرن یونیورسٹیاں بھی کسی طرح پیچھے نہیں ہیں جن کے سربراہان سے جنرل صاحب مخاطب تھے لیکن کیا مجال ہے ان یونیورسٹیوں میں متنازع فکری ایشوز پر کوئی کھلا علمی مباحثہ منعقد ہوسکے یا مختلف نقطہ نظر رکھنے والا اعتماد اور کھلی فضا میں عقلی وشعوری دلائل دے سکے۔ مردان یونیورسٹی میں ایک ذہین طالبعلم کے ساتھ جو کچھ ہوا وہ ہمارے سامنے ہے ہمیں دکھ ہے کہ حریت فکر اور آزادی اظہار جیسی اعلیٰ انسانی اقدار کو ہماری سوسائٹی میں بھر پور نفرت کے ساتھ قابلِ گردن زنی جرم بنا ڈالا گیا ہے اس سے بھی زیادہ افسوسناک حقیقت یہ ہے کہ کسی کو اس حوالے سے کوئی پریشانی بھی نہیں ہے یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہم وقت کے ساتھ بحیثیت قوم بے حس ہوتے چلے جارہے ہیں سب یہی سوچتے ہیں کہ تجھے پرائی کیا پڑی ہے اپنی نبیڑتو۔ اس مائنڈ سیٹ کے مفاسد کھل کر سامنے آچکے ہیں ایک تو یہ کہ ہم عصرِ حاضر کے اُن عظیم افکار و نظریات سے دن بدن کٹتے چلے جارہے ہیں جن کے پیچھے صدیوں پر محیط انسانی دانش کے تجربات ہیں یا وہ انسانی شعور کے ارتقاء کی معراج ہیں ہم کنویں کے مینڈک کی طرح لوکل قسم کے پھیلائے ہوئے متعصبانہ خیالات کے خول میں بند ہوکرکند ذہنوں جیسا رویہ اپناتے ہیں اور شیخی یوں بگھارتے ہیں۔پوری دنیا کو چاہیے وہ ہماری اتباع کرے۔
فی زمانہ میڈیا کی ترقی سے گھٹن زدہ معاشروں کا تعفن لوکل نہیں رہ پایا بلکہ اُس کے برے اثرات بھی اسی طرح آگے بڑھے ہیں، جس طرح اچھائی کے اثرات پھیلتے ہیں لیکن دیکھا یہ گیا ہے کہ انسانی معاشروں میں تعمیری کاوشوں کےلیے صدیوں محنت کرنی پڑتی ہے جبکہ تخریب کاری کے لیے ایک ہیوی بم پھوڑنا کافی ہوتا ہے۔ جب ایک جگہ قومی تعصب بڑھتا ہے تو اقوام دیگر پر بھی اس کے منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں جنوبی ایشیاء کے لوگ تو ویسے ہی صدیوں اکٹھے رہنے کی وجہ سے کئی اختلافات کے باوجود ایک قوم کی طرح ہیں رہنے سہنے اور سوچنے سمجھنے کے اسلوب قریباً ایک جیسے ہی ہیں یہاں ہم نےکچھ چیزوں پر سخت رویہ اپنایا تو ہمارے ہمسائے ہم سے کیوں پیچھے رہ جاتے انہوں نے بھی اپنی گاؤ ماتا کو اچک لیا۔
اسی طرف اشارہ کرتے ہوئے جنرل صاحب یہ کہہ رہے تھے کہ انتہا پسندی کو اب معمول کی بات سمجھ لیا گیا ہے بھارت جیسے ملک میں نفرت اب قومی دھارے میں داخل ہوچکی ہے یوں’’بھارت کا قومی چہرہ‘‘ مسخ کر رہی ہے۔ہمارے مقتدر حلقوں کو پورا ادراک ہے کہ بھارت کا قومی چہرہ قطعاً ایسے نہیں تھا ہندوستان مختلف مذاہب اور تہذیبوں کا سنگم تھا جس نے نظریات و خیالات کے تنوع کو سینے سے لگایا بھانت بھانت کی بولیاں بولنے والوں کو وطنیت کے دھارے میں سمویا تھا لیکن ہندوتوا کے نظریے نے اس کا بھی براحال کر دیا ہے فراخی، وسعت نظری سادھو اور صوفی ازم کی جگہ مذہبی شدت پسندی نےلے لی ہے بلا شبہ آج کا ہندوستان گاندھی جی کا نہیں مودی سرکار کا ہندوستان ہے وہاں بھی لبرل طبقات کو ویسی ہی مشکلات اور جدوجہد کا سامنا ہے جیسے آج ہمیں پاکستان میں یہ چیلنج درپیش ہے۔ ہندوستان پر عسکری شعبے سے وابستہ کسی شخص نے شاید ہی کبھی اس سے بہتر تنقید کی ہو۔
شکوہ بےجا بھی کرے کوئی تو لازم ہے شعور



.
تازہ ترین