• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کے انتہائی قابل اعتماد دوست چین دنیا کا نقشہ تبدیل کرنے کے لئے ایک منصوبہ ون بیلٹ ون روڈ کے نام سے بنا رہا ہے ایک اندازے کے مطابق اس منصوبہ پر تقریباً 9 سو ارب ڈالر کی سرمایہ کاری کی جائے گی۔ اس منصوبہ میں پاکستان اور سری لنکا کی بندرگاہوں سمیت مشرقی افریقہ میں تیز رفتار ٹرینیں اور وسطی ایشیاء سے گزرنے والی گیس پائپ لائنوں سمیت بہت کچھ شامل ہے۔ عالمی ماہرین کا خیال ہے کہ چین عالمی سطح پر اپنا اثرورسوخ بڑھانے کی خواہش رکھتا ہے دوسری طرف ملکی شرح نمو سست ہونے کے خدشات کے پیش نظر بھی یہ منصوبہ چین کی نظر میں انتہائی اہمیت کا حامل ہے۔ اس عظیم منصوبے کامقصد دو راستوں کے ذریعے تجارت کو فروغ دیناہے ۔ ایک راستہ تو قدیمی شاہراہ ریشم کی بنیاد پر ہو گا جو چین سے نکلتا ہوا وسطی ایشیااور مشرق وسطیٰ سے گزرتا ہوا یورپ پہنچے گا اور دوسرا راستہ چین کو سمندر سے مشرقی ایشیا اور مشرقی افریقہ سے ملائے گا۔ پاکستان اور چین کے درمیان سی پیک کا منصوبہ بھی اسی کا حصہ ہے۔ سی پیک جو کہ مستقبل میں پاکستان کی ریڑھی کی ہڈی اختیار کر جائے گا یہ منصوبہ ون بیلٹ ون روڈ کا گیٹ وے ہوگا۔ ایک اندازے کے مطابق چین پاکستان میں اگلے پندرہ سال میں ایک سو ارب ڈالر سے بھی زائدکی سرمایہ کار ی کا ارادہ رکھتا ہے۔ یہ سرمایہ کاری ناصرف چین کی معیشت کو سہارا دے گی بلکہ پاکستان میں بھی گیم چینجر کے طور پر دیکھی جا رہی ہے۔ چین پاکستان میں 55 ارب ڈالر سے زیادہ منصوبوں کا آغاز کر چکا ہے جس میں 30 ارب ڈالر سے زائد سرمایہ کاری صرف پاور سیکٹر میںکی جارہی ہے جبکہ چین انفراسٹرکچر کے ساتھ ساتھ موٹرویز اور ایل لنک پر بھی بھاری سرمایہ کاری کر رہا ہے اس کے علاوہ چین سب سے اہم گوادر پورٹ جو کہ سی پیک میں انتہائی اہمیت کی حامل بندر گاہ ہو گی کی تعمیر اور آپریشنل کرنے پر اربوں ڈالر کی سرمایہ کاری کے علاوہ پاکستان میں زراعت، صنعت اور آئی ٹی کے شعبوں پر بھی بھاری سرمایہ کاری کا ارادہ رکھتا ہے ۔ پاکستان کے وزیراعظم چند روز قبل 6 روزہ دورہ پر چین گئے جہاں چاروں وزرائے اعلیٰ سمیت وفاقی کابینہ کے اہم وزرابھی ان کے وفد کا حصہ تھے۔ یہ امر انتہائی خوش آئند ہے کہ ہمارے تمام صوبوں کے وزرائے اعلیٰ سیاسی اختلافات کے باوجود وزیراعظم کے ہمراہ دور ہ چین میں ان کے ساتھ کھڑے تھے اس سے ناصرف پاکستان بلکہ غیر ملکی طاقتوں کو یہ تاثر دیا گیا ہے کہ پاکستان کی تمام سیاسی جماعتیں سی پیک منصوبے کے ایشو پر ایک ہیں اور اس کو پاکستان کا منصوبہ سمجھتی ہیں۔ اس عمل سے مخالف قوتوں کویہ پیغام بھی دیا گیا ہے کہ پاکستانی قوم اپنے ملک کی تعمیر وترقی میں شانہ بشانہ کھڑی ہے۔ ون بیلٹ ون روڈ کے حوالے سے منعقد کانفرنس میں 65ممالک کے نمائندوں نے شرکت کی جبکہ 29ممالک کے سربراہان اس کانفرنس میں شریک تھے۔ اس کانفرنس میں پاکستان ایک نمایاں حیثیت کے طور پر ابھرامیزبان ملک چین کے صدر شی چن پنگ نے اس کانفرنس میں پاکستانی وزیراعظم کو اپنے ساتھ ساتھ رکھا جو اس بات کی نشاندہی کرتا ہے کہ چین ناصرف پاکستان کا عظیم دوست ہے بلکہ دونوں کی ترقی ایک ساتھ جڑ ی ہے۔ پاکستان کو ملنے والی اس اہمیت سے ہمارے دشمن انتہائی ناخوش اور افسردہ ہیں۔ہمارا دشمن بھارت جو پاکستان کو ہر بین الاقوامی فورم پر تنہا کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے نہیں جانے دیتا اب پاکستان کی مخالفت میں خود تنہائی کا شکار ہو رہا ہے۔ ون روڈ ون بیلٹ کانفرنس میں بھارت کا بائیکاٹ اس بات کی دلیل ہے کہ وہ خود بین الاقوامی طور پر تنہاہو رہا ہے۔ بھارت نے اپنے نئے دوست امریکہ کے کہنے پر اس کانفرنس کا بائیکاٹ کیا اور یہ بہانہ بنایا کہ ون بیلٹ ون روڈ کا مین راستہ ایک متنازعہ علاقہ گلگت بلتستان سے گزرتا ہے جو کہ اس کا علاقہ ہے ۔ بھارت کے اس دعوے کو چین نے یکسر رد کرتے ہوئے کہا کہ چین ون بیلٹ ون روڈ کے تمام خشکی اور پانی کے راستوں کو ناصرف بہتر بنائے گا بلکہ اس کی حفاظت بھی اس کی ذمہ داری ہو گی جس سے بھارت کی خارجہ پالیسی کو شدید دھچکا لگا ہے۔ اس ایشو پر بھارتی میڈیا کے ایک بڑے حصے نے بھارت کی ون بیلٹ ون روڈ کانفرنس میں شرکت نہ کرنے کی پالیسی کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا ہے کچھ میڈیا رپورٹ اور ماہرین نے یہاں تک کہہ دیا ہے کہ بھارت کو اپنی خارجہ پالیسی کا از سر نو جائزہ لینے کی ضرورت ہے بھارت کو اس منصوبے سے الگ ہونے سے کہیں نقصان تونہیں ہورہا۔ پاکستان میں کچھ عناصر نے ایک مرتبہ پھر سی پیک اور ون بیلٹ ون روڈ کو لے کر سیاست چمکانا شروع کر دی ہے۔ افواہیں اور منفی تبصرے پاکستان کو نقصان پہنچائیں گے۔ ہمارے عظیم دوست چین نے ہر برے وقت میں پاکستان کا ساتھ دیا ہے اور ثابت کیا ہے کہ وہ پاکستان کا مخلص اور با اعتماد دوست ہے اس کو بھی پاکستان سے دور کرنے کی کوششیں کی جا رہی ہے ۔ہماری حکومت اب تک پاک چین اقتصادی راہداری کے ماسٹر پلان کو مکمل طور پر عوام کے ساتھ شیئر نہیں کر رہی یہ عمل بھی ایسے خدشات اور افواہوں کو تقویت دے رہے ہیں۔حکومت پاکستان کو اس حوالے سے فوری طور پر اقدامات اٹھانے کی ضرورت ہے اور پلاننگ کمیشن کے چیئرمین احسن اقبال اس مسئلے کو سنجیدگی سے لیں اور وہ ضروری اقدامات اٹھائیں جن سے یہ افواہیں اور خدشات دور کئے جاسکیںجیسا کہ اس سے پہلے سندھ اور خیبرپختونخوا حکومتوں کو سی پیک جیسے عظیم منصوبہ کے حوالے سے خدشات تھے جسے احسن طریقے سے وفاقی حکومت نے دور کیا ہے۔سیاستدان ، ماہرین اور تبصرہ نگاروں سے گزارش ہے کہ وہ اپنی مخالفت اور سیاست سے ریاست پاکستان کو نقصان نہ پہنچائیں اگر ان کے کسی ادارے ،حکمراں جماعت یا وزیراعظم سے اختلافات ہیں تو اس کے لئے پاکستان میں لوڈشیڈنگ، بے روز گاری سمیت دیگر بہت اہم ایشوز ہیں جس سے وہ اپنا اسکور برابر کر سکتے ہیں لیکن خدارا! اس عظیم منصوبے پر سیاست فوری طور پر بند ہو نی چاہئے ۔اس منصوبےکے حوالہ سے ماضی میں سول وعسکری قیادت سمیت تمام سیاسی قوتوں نے بھرپور حمایت کا مظاہرہ کیا تھا اب بھی اس کی اشد ضرورت ہے اس حوالے سے میں یہ بھی کہتا چلوں کہ پاکستان پیپلزپارٹی کی طرزسیاست سے اختلاف کیا جا سکتا ہے اور سابق صدر پاکستان آصف علی زرداری پر ہر حوالے سے تنقید بھی کی جا سکتی ہے لیکن سی پیک جیسے منصوبہ کے حوالے سے ان کے جذبات انتہائی قدر کی نگاہوں سے دیکھے جاتے ہیں حالانکہ ان کے بھی موجودہ حکومت سے شدید سیاسی اختلافات ہیں اسی طرح تحریک انصاف سمیت دیگر سیاسی جماعتیں ، مبصرین اور تبصرہ نگاروں کو بھی چاہئے کہ وہ بھی حکومت کی کارکردگی اور دیگر ایشو پر بھرپور تنقید و سیاست کریں مگر اس قومی اہمیت کے حامل منصوبےپر غیر ضروری تبصرہ اور سیاست برائے سیاست کو ترک کرنا وقت کی اہم ضرورت ہے۔



.
تازہ ترین