• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
کچھ زیادہ عرصہ نہیں گزرا ہو گا جب سندھ اور پنجاب کے بزرگان اسلام کی خانقاہوں،صوفیائے کرام کی درگاہوں اور دین فطرت کے بزرگوں کی آخری آرام گاہوں سے ملحقہ لنگروںمیں سلگتی آگ کے پاس ہی سیدزادوں اور مصلیوں کے بچوں کو ایک ہی پھوہڑی پر اکٹھے کھانا کھاتے دیکھ کر ہندوستان کے برہمنی سماج کی ذات پات اور چھوت چھات کی الائشوں سے تنگ آئے ہوئے لوگوں نے اجتماعی طور پر دین اسلام قبول کرنے کا فیصلہ کیا تھا اب دوسری صدی کے گزرنے کے ساتھ انتہا پسند ہندوئوں کے تشدد سے تنگ آئے ہوئے سینکڑوں اور ہزاروں کی تعداد میں اچھوت جاتی کے لوگ بدھ مت قبول کرنے پر مجبور ہو رہے ہیں اور یہ پیش گوئی درست ثابت ہونے لگی ہے کہ اس صدی کے دوران ہندوستان میں ہندو انتہا پسندوں کی حیثیت ملک کی سب سے چھوٹی کمیونٹی کی ہو جائے گی۔ عالمی دہشت گردی کے رجحان کو اگر اپنے مقاصد کے لئے دین اسلام کے نام نہاد شدت پسند نظریات کا سہارا لینے کی ضرورت نہ پڑتی تو بدھ مت کا رخ اختیار کرنے والے ان بزرگوں کی طرح دین اسلام قبول کرنے کا سوچتے ۔چھوٹی جاتی کے ہندوئوں کے بدھ مت اختیار کرنے کا واضح طور پر ثبوت بھارت کے شہر سہارن پور نے فراہم کیا جہاں برہمنی سوچ سے تنگ آئے ہوئے ہندوئوں نے اپنی دیوی دیوتائوں کی مورتیاں پانی میں بہا دیں اور بدھ مت کو قبول کرنے کا اعلان کر دیا ۔ بتایا جاتا ہے کہ جن پہاڑوں سے سنگ مرمر نکالا جاتا ہے وہاں زیتون کے درختوں اور پودوں کے علاوہ نباتات کی کوئی قسم نہیں پائی جاتی کیونکہ سنگ مرمر چونے کے پتھر کی حیثیت رکھتا ہے جو نباتات کا دشمن ہوتا ہے مگر قدرت نے سنگ مرمر کو سانس لینے والا پتھر بھی بنایا ہے جس کی رگوں میں زیتون کی نرم ونازک جڑیں آسانی سے اتر جاتی ہیں اور وہاں اپنی خوراک کی ضروریات بھی پوری کر لیتی ہیں ۔ دین اسلام کے بزرگوں نے مشورہ دیا کہ مذہب کے خیالات انسانی دنیا میں ویسے ہی اتریں جیسے مرمر کی رگوں میں زیتون کی جڑیں اترتی ہیں اور محض اترتی ہی نہیں ان رگوں پر قبضہ بھی کر لیتی ہیں اور رگوں کا حصہ بھی بن جاتی ہیں ۔ہندو مت کی تعلیمات پر غور کیا جائے تو ان میں جنسی تعلقات کا غلبہ پایا جاتا ہے اور جنسی تعلقات کا غلبہ کچھ زیادہ عرصے کی زندگی کا محتاج نہیں ہوتا آندھی کی طرح زمین کے باوجود ہوائوں کے رخ سے کچھ زیادہ اختلاف نہیں کر سکتا جبکہ دیگر مذاہب اور خصوصاً دین اسلام محض جذبات کا محتاج نہیں ہوتا ایک مکمل ضابطہ حیات اور منظم زندگی پیش کرتا ہے ۔اسلامی ضابطہ حیات اور منظم زندگی کی مضبوطی سے ڈرنے والوں نے ہی اسلام کو دہشت گردی کے مقاصد کے لئے استعمال کرکے اسلام کو بدنام کرنے کی کوشش کی ہے اور اس کوشش میں بہت حد تک کامیاب بھی ہوئے ہیں مگر اسلام کی فوجی طاقت اس سازشی قوت کے خلاف استعمال ہونے سے بہت حد تک کامیاب ہوئی ہے اور یقین کیا جا سکتا ہے کہ اسلامی جذبہ اور ایمان اس انسانیت دشمن رجحان کو کچل دینے میں کامیابی حاصل کرکے اسلام کو پرامن راہیں فراہم کرے گا اور اسلام انسانیت کا آخری اور واحد مذہب اور دین ثابت ہونے میں کامیاب ہو گا۔


.
تازہ ترین