• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چھٹی ہجری میں رسول اللہﷺ نے دعوت اِلی اللہ کا دائرہ وسیع کرنے کا عزم فرمایا تو عرب و عجم کے بادشاہوں کی طرف آٹھ خطوط لکھے اور انھیں اسلام قبول کرنے کی دعوت دی۔ جن سربراہوں کو خطوط لکھے ان میں ثمامہ بن اثال بھی شامل تھے۔ ثمامہؓ بن اثال کا شمار زمانہ جاہلیت کے بارعب عرب بادشاہوں میں ہوتا تھا۔ یہ قبیلہ بنو حنیفہ کے قابلِ رشک سربراہ تھے کہ جس کی کبھی بھی حکم عدولی نہ ہوتی تھی۔ زمانہ جاہلیت میں ثمامہ کو جب نبی اکرم ؐ کا خط ملا تو اس نے بڑی حقارت سے دیکھا۔ اس کی سطوت و نخوت نے اُسے گھنائونا جرم کرنے پر آمادہ کیا۔ اور اس کو یہ جنون طاری ہوا کہ(نعوذ باللہ) رسول ؐ کو شہید کردے اور آپؐ کے مشن کو ناکام کردے۔ ایک مرتبہ وہ آپؐ پر پیچھے سے وار کرنے ہی والا تھا کہ اس کے چچا نے اس کا ہاتھ روک دیا۔ رسولؐ پر تو وہ حملہ نہ کرسکا لیکن ایک مرتبہ ایسا ہوا کہ بہت سے صحابہ کرامؓ کو گھیر کر ان کو شہید کردیا۔یہ اندوہناک خبر سُن کر نبی ؐ نے فرمادیا کہ ثمامہ جہاں ملے اس کو قتل کردیا جائے۔ اس دلخراش واقعہ کے چند دنوں بعد ثمامہ بیت اللہ کی زیارت کرنے مکہ معظمہ روانہ ہوا تاکہ بتوں کی پوجا کرے اور ان کے نام پر قربانی کرے۔
جب ثمامہ مدینہ منورہ کے قریب راستے میں ہی تھا کہ مجاہدین اسلام کے ایک گروپ جو مدینہ کی نگرانی پر مامور تھا اس نے ثمامہ کو گرفتار کرلیا۔ لیکن انھیں یہ معلوم نہ تھا کہ یہ کون ہے وہ اسے پکڑ کر مدینہ لے آئے۔ ثمامہ بن اثال ایک نڈر جرنیل تھا، تاجور تھا، گورنر تھا، پکڑ کر لایا گیا، مسجد نبوی میں ستون کے ساتھ باندھ دیا گیا۔ رسول پاک ؐ تشریف لے گئے۔دیکھا، خوبصورت چہرہ، لمبا قد، توانا جسم، بھرا ہوا سینہ، اکڑی ہوئی گردن، اٹھی ہوئی نگاہیں، تمکنت، شان و شکوہ، سطوت، شہرت ہے۔ حکمرانی کے جتنے عیب ہیں سارے پائے جاتے ہیں۔ رسول اکرم آگے بڑھے، کہا ثمامہ! کیسے ہو؟ ثمامہ بولا:گرفتار کرکے پوچھتے ہو کیسا ہوں۔ رسول پاک ؐنے فرمایا:کوئی تکلیف پہنچی ؟ کہتا ہے:تمہاری تکلیف کی کوئی پروا، نہ تمہاری راحت کا کوئی خدشہ، جو جی چاہے کرلو۔ رسول پاک ؐنے فرمایا: بڑا تیز مزاج آدمی ہے۔ اپنے صحابہ کو دیکھا، پوچھا، اس کو دکھ تو نہیں پہنچایا؟ عرض کرتے ہیں یا رسول اللہ ؐ گرفتار ہی کیا ہے دکھ کوئی نہیں پہنچایا۔ پیکر حسن و جمال نے فرمایا:ثمامہ ذرا میری طرف آنکھ اٹھا کر دیکھو تو سہی ، ثمامہ کہتا ہے:کیا نظر اٹھا کر دیکھنے کی بات کرتے ہو، میں نہیں دیکھتا، مجھ کو مارا جائے گا تو میرے خون کا بدلہ لیا جائے گا۔ جبرائیل بھی غیظ و غضب میں آگئے ہوں گے، عمر فاروقؓ کی پیشانی سلوٹوں سے بھر گئی، تلوار کے میان پر ہاتھ تڑپنے لگا، اشارہ ابرو ہو اس کی گردن ہو، محمدﷺکے قدم ہوں، یہ کیا سمجھتا ہے لیکن رحمۃ للعالمینﷺ کے ہونٹوں پر مسکراہٹ ہے، فرمایا، جتنا غصہ ہے جی چاہے نکال لو، لیکن ہمارا چہرہ تو دیکھ لو۔ ثمامہ نے جواب دیا:اس نے مدینہ والے کو دیکھا ہی نہیں تھا، اس نے کہا، تمہارا چہرہ کیا دیکھوں۔ لوگو! یہ ہے وہ پیغمبر رحمۃ للعالمین جس کے نقش قدم پر تم کو چلنا ہے۔ جب بے آسرا تھا تب بھی شکن نہیں ڈالی، آج تاجدار تھا لیکن پیشانی پر شکن نہیں ڈالتا ہے۔ فرمایا: کوئی بات نہیں، میری بستی کی طرف تو نگاہ ڈالو۔ اس نے کہا: میں نے روم و یونان ، ایران و مصر کی بستیاں دیکھیں ۔ اس بستی کو کیا دیکھوں؟ رحمۃ للعالمینؐ نے کہا کوئی بات نہیں، دوسرے دن آئے پھر وہی جواب، تیسرے دن پاک پیغمبرؐ آئے فرمایا:ہم تجھ سے کچھ نہیں مانگتے، ذرا دیکھ تو لو، کہتا ہے:نہیں دیکھتا، اب آسمان گوش بر آواز تھے، زمین سہمی پڑی تھی، دیکھیں! آج اس نبی رحمت کی زبان سے کیا حکم صادر ہوتا ہے، اس گستاخ کو کیا سزا ملتی ہے۔ لوگوں نے دیکھا، کائنات نے دیکھا، آسمان طیبہ نے دیکھا، مسجد نبوی نے دیکھا، اس ستون نے دیکھا جس کے ساتھ ثمامہ بندھا ہوا تھا، اب حکم صادر ہوگا اس کی گردن اڑ جائے گی مگر ہمیشہ مسکرانے والے پاک پیغمبرﷺ مسکرائے، فرمایا :جائو! ہم نے اسے چھوڑ دیا ہے چلے جائو، ہم نے اسے رہا کردیا ہے، ہم تجھے کچھ نہیں کہتے تو بڑا آدمی ہے، بڑے ملک کا حکمراں ہے، تو نہیں دیکھتا ہم تجھے کیا کہیں گے، جائو اور اپنے صحابہ کرام کو جن کی تلواریں ثمامہ کی گردن کاٹنے کیلئے بیتاب تھیں، ان کو کہا، بڑا آدمی ہے عزت کے ساتھ لے جاکر اس کو مدینہ سے رخصت کردو۔ انہوں نے چھوڑا، پلٹتے ہوئے اسکے دل میں خیال آیا، بڑے حکمراں بھی دیکھے، محکوم بھی دیکھے، جرنیل بھی دیکھے ، کرنیل بھی دیکھے، صدر بھی دیکھے کمانڈر بھی دیکھے، اتنے حوصلے والا تو کبھی نہ دیکھا، اس کے چہرے کو دیکھوں ہے کیسا ـ’’بس اک نگاہ پر ٹھہرا ہے فیصلہ دل کا‘‘ پھر دیکھتا ہے، دیکھ کر سرپٹ بھاگا، اور پھر آگے میں نہیں کہتا ثمامہ سے سنیں! وہ کیا کہتا ہے، کہا، قدم آگے کی طرف بھاگ رہے تھے دل پیچھے کی طرف بھاگ رہا تھا، دو میل بھاگتا چلا گیا اور جتنی رفتار سے گیا تھا اس سے دگنی رفتار سے واپس پلٹ آیا، وہ ماہ ِتمام ننگی زمین پہ اپنے صحابہ کے ساتھ بیٹھا ہوا تھا، اپنے یاروں کیساتھ ننگی زمین پر بیٹھا ہوا تھا، صحن مسجد پر ننگے فرشوں پر آیا، نبی کرم نے نگاہ ڈالی سامنے ثمامہ کھڑا ہے، فرمایا ہم نے تو تجھے چھوڑ دیا تھا پھر آگئے؟ کہا، مجھ کو اپنا بنا کر چھوڑ دیا، کیا اسیری ہے کیا رہائی ہے۔ چھوڑا تب تھا جب آپ کا چہرہ نہیں دیکھا تھا، اب آپ کا چہرہ دیکھ لیا، اب.... زندگی بھر کیلئے آپؐ کا غلام بن گیا ہوں۔
ثمامہ نے پھر رسول اللہ ﷺاور صحابہ کرام ؓ کے سامنے بلند آواز سے کلمہ شہادت پڑھا۔
’’میں گواہی دیتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ کے سوا کوئی معبود حقیقی نہیں اور گواہی دیتا ہوں کہ محمدﷺ اس کے بندے اور رسول ہیں‘‘
بعد ازاں محبت بھرے انداز میں یوں گویا ہوئے میرے پیارے محمدﷺ کی قسم! آج میرے لئے کائنات میں تمام چہروں سے محبوب ترین چہرہ آپؐ ہی کا ہے۔ اللہ کی قسم! آج سے پہلے آپؐ کایہ شہر دنیا کے تمام شہروں سے زیادہ برا معلوم ہوتا تھا اور آج یہ مجھے تمام شہروں سے زیادہ محبوب دکھائی دیتا ہے۔ پھر اس کے بعد درد بھرے لہجے میں عرض کی:یا رسول اللہ ؐ مجھے انتہائی افسوس ہے کہ میں نے آپؐ کے صحابہ رضی اللہ عنہم کا بے دریغ خون بہایا ہے‘ بھلا میرے اس جرم کا مداوا کیسے ہوگا۔ یہ سن کرآپؐ نے ارشاد فرمایا:ثمامہ (رضی اللہ عنہ) گھبرائیے نہیں اسلام پہلے سب گناہوں کو مٹا دیتا ہے اور آپ ؐنے اس خیر و برکت کی بشارت دی جو اللہ سبحانہ و تعالیٰ نے اسلام قبول کرنے کی بدولت اس کے نصیب میں لکھ دی۔ یہ سن کر جناب ثمامہ ؓ کا چہرہ خوشی سے تمتما اٹھا اور یوں کہنے لگے۔ اللہ کی قسم! میں نے اپنے زمانہ جاہلیت میںجس قدر مسلمانوں کو قتل کیا ہے‘ اس سے دگناہ زیادہ مشرکین کو تہہ تیغ کروں گا۔ اب میری جان‘ میری تلوار اور جو کچھ بھی میرے پاس ہے سب کچھ آپ کی اور آپ کے دین کی خدمت کیلئے وقف ہے۔پھر عرض کی یارسول اللہ ؐ! مجھے اجازت ہو تو میں عمرہ ادا کر آئوں۔آپؐ نے ارشاد فرمایا:عمرہ ضرور ادا کریں لیکن اسلامی تعلیمات کی روشنی میں۔اور آپ ؐ نے انہیں عمرہ ادا کرنے کا طریقہ بھی سمجھا دیا۔
حضرت ثمامہؓ اجازت ملنے کے بعد عمرہ ادا کرنے کیلئے روانہ ہوگئے۔ مکہ معظمہ پہنچ کر آپ نے بآواز بلند تلبیہ کلمات کہنے شروع کردیئے۔ ترجمہ:حاضر ہوں، الٰہی میں حاضر ہوں، حاضر ہوں تیرا کوئی شریک نہیں۔ میں حاضر ہوں۔ سب تعریفیں اور نعمتیں تیری ہیں اور حکومت بھی تیری، تیرا کوئی شریک نہیں۔حضرت ثمامہؓ وہ پہلے مسلمان ہیں جو مکہ معظمہ میں بآواز بلند تلبیہ کہتے ہوئے داخل ہوئے۔ قریش نے اونچی آواز میں جب یہ کلمات سنے تو ان کے غصے کی کوئی انتہا نہ رہی۔ سب لوگ تلواریں ہاتھوں میں لئے گھروں سے باہر نکل آئے تاکہ اس شخص کو گرفتار کرسکیں جس نے مکہ میں آکر انکے عقائد کیخلاف ببانگ دہل کلمات کہنے کی جرأت کی۔
جب قوم ثمامہؓ کے پاس پہنچی تو ثمامہ نے ایک بار پھر اونچی آواز میں تلبیہ کہا۔ کفار اسلحہ تان کر کھڑے ہوگئے قریش میں سے ایک نوجوان نیزہ لے کر آگے بڑھا لیکن دوسروں نے اس کے ہاتھ پکڑ لئے اور کہا:ارے ‘تم جانتے نہیں ہو‘ یہ کون ہے؟ یہ تو یمامہ کا بادشاہ ثمامہ بن اثال ہے۔ بخدا‘ اگر تم نے اسے کوئی تکلیف دی تو اس کی قوم ہماری اقتصادی امداد بند کردے گی اور ہم بھوکوں مرجائیں گے۔ قوم نے یہ سن کر اپنی تلواریں نیام میں ڈال لیں اور حضرت ثمامہ ؓ سے محو گفتگو ہوئے۔ کہنے لگے ثمامہ تجھے کیا ہوا؟ کیا تم بے دین ہو گئے ہو؟ کیا تم نے اپنے آبائو اجداد کے دین کو چھوڑ دیا؟ ثمامہؓ نے فرمایا:میں بے دین نہیں ہوا‘ بلکہ میں نے تو عمدہ دین کو اختیار کرلیا ہے۔ اور فرمایا:رب کعبہ کی قسم! اب سرزمین نجد میں سے اس وقت تک تمہارے لئے گندم کا ایک دانہ نہیں آئے گا جب تک کہ تم میرے پیارے محمدﷺ کی اطاعت اختیار نہ کر لو گے۔ حضرت ثمامہؓ بن اثال زندگی بھر اپنے دین کے وفادار اور آپؐ کے ساتھ کئے گئے عہد و پیماں کے پابند رہے۔ اور مسیلمہ بن کذّاب کے خلاف جہاد کیا اور لوگوںسے خطاب کیا، پھر ان کے سامنے درج ذیل قرآنی آیات تلاوت فرمائیں:
ترجمہ:اس کتاب کا اتارا جانا خدائے غالب و دانا کی طرف سے ہے۔ جو گناہ بخشنے والا اور توبہ قبول کرنے والا (اور) سخت عذاب دینے والا (اور) صاحبِ کرم ہے۔ اس کے سوا کوئی معبود نہیں، اسی کی طرف پھر کر جانا ہے۔



.
تازہ ترین