• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
ہمارے معاشرے میں ظلم کی بہت سی شکلیں ہیں۔ کئی ظلم تو ایسے ہیں کہ عمومی طور پر اُنہیں ظلم کے طور پر نہ دیکھا جاتا ہے اور نہ ہی سمجھا جاتا ہے اور یوں انفرادی اور اجتماعی طور پر ہم ایسے گناہ کے مرتکب ہوتے ہیں جس کی ذمہ داری ہم سب پر عائد ہوتی ہے۔ یہاں میں جس ظلم کے بارے میں لکھنا چاہ رہا ہوں اُس کا شکار وہ طبقہ ہے جسے ہمارے معاشرے میں خواجہ سرا، ہجڑا، کھسرا جیسے بُرے ناموں سے پکارا جاتا ہے۔ ایک اخبار کے انٹرنیٹ ایڈیشن میں اس موضوع پر لکھے گئے آرٹیکل کو پڑھنے کا اتفاق ہوا جس میں ایک لڑکی کی کہانی لکھی ہوئی تھی۔ اُس کا کہنا تھا کہ جب وہ نویں جماعت میں پڑھتی تھی تو اُسے احساس ہوا کہ وہ لڑکی نہیں ہے جس پر وہ ایک کرب میں مبتلا ہو گئی۔ بچپن میں ہی اُس کے والد فوت ہو چکے تھے جبکہ والدہ نے دوسری شادی کر لی۔ وہ کہتی ہے کہ اُس کی بہنیں بھی تھیں لیکن اُس کے ہمت نہ ہوئی کہ وہ اُن سے اپنے اندر آنیوالی اس تبدیلی پر بات کرے۔ کچھ عرصہ کے بعد وہ کمر لچک لچک کر چلنے لگی تو اُس کے ایک سوتیلے بھائی نے اُسے کہا کہ تم کھسروں کی طرح کیوں مٹکتی ہو۔ وہ کہتی ہے کہ اُس رات اُسے نیند نہ آئی، ساری رات روتی رہی اُس کے ساتھ یہ کیا ہو رہا ہے، نہ وہ لڑکی ہے نہ لڑکا۔ وہ کہتی ہے کہ اُس نے ہمت کر کے اپنا معاملہ اپنی ماں کے سامنے رکھا جس نے اُس کے سوتیلے باپ سے بات کی جس نے کہا کہ ایک کھسرے کا اُن کے گھر میں کیا کام۔جب یہ بات اُس کے سوتیلے بھائیوں کو پتا چلی تو وہ اُسے مارتے، طعنہ دیتے اور خاندان کی بدنامی کا سبب بتاتے۔ جب اُسے اپنے گھر والوں نے ہی تسلیم کرنے سے انکار کر دیا تو اس صورتحال میں اُسے اپنے گھر کو چھوڑنا پڑا اور خواجہ سرائوں کے خاندان کو اپنا کر لاہور کی ہیرا منڈی آ بسی۔ یہ کہانی معاشرہ کے اُس ظلم اور زیادتی کی ہے جس نے نجانے کتنے انسانوں کو ایسے رستے پر چلنے پر مجبور کیا اور ایک ایسے معاشرتی بگاڑ کا باعث بنا جس کی درستگی کے لیے حکومت، پارلیمنٹ، عدلیہ، میڈیا وغیرہ کسی کو کوئی دلچسپی نہیں۔ اگر کسی انسان میں پیدائشی طور پر کوئی کمی کوتاہی ہو تو بجائے اِس کے کہ ایسے فرد سے ہمدردی کی جائے، اُس کی مدد کی جائے، اُس کی نارمل زندگی گزارنے کے لیے ہمت افزائی کی جائے؛ ہم ایسے شخص کو اپنے سے علیحدہ کردیتے ہیں، اُسے نفرت سے دیکھتے ہیں اور ایسے ماحول کی طرف دکھیلتے ہیں جہاں اُس کے لیے نارمل زندگی گزارنا ممکن نہیں رہتا۔اسی موضوع پر مجھے محترم مفتی منیب الرحمن کی ایک تحریر پڑھنے کا موقع ملا جس کے کچھ اقتباسات میں قارئین کے لیے اس کالم میں پیش کرنا چاہوںگا تاکہ ہم بحیثیت معاشرہ اس گناہ سے بچ سکیں۔ مفتی صاحب لکھتے ہیں’’کسی کی جسمانی ساخت یا ذہنی صلاحیت میں تکوینی اعتبار سے یعنی خالق تبارک تعالیٰ کی حکمت سے کوئی عیب یا نقص (Defeciency) یا کمی رہ گئی ہو، تو ہمیں چاہیے کہ اس بنا پر اس کے اکرام میں کمی نہ کریں، کسی بھی شعبئہ حیات میں کوئی ذمے داری سپرد کرنے کے لیے شریعت اور آئین و قانون کی حدود میں رہتے ہوئے مطلوبہ معیار میں اُس کے لیے تخفیف کی گنجائش رکھیں۔ اُسے یہ احساس نہ ہونے دیں کہ اُس کے جسمانی یا ذہنی نقص، جس میں اُس کی کسی کوتاہی کا دخل نہیں ہے بلکہ وہ بے بس ہے، کے سبب اُس کے احترام میں کمی کی جا رہی ہے۔ ساری دنیا میں معذوروں ــ’’Special Persons‘‘ کے لیے خصوصی سہولتوں کا اہتمام کیا جاتا ہے .......ـ‘‘اپنے فتاویٰ کی کتاب ’’تفہیم المسائل‘‘ کا حوالہ دیتے ہوئے، مفتی صاحب لکھتے ہیں: ’’فقہی اعتبار سے مُخّنث وہ ہے جس میں مرد اور عورت دونوں کی علامتیں پائی جائیں اور کسی ایک جانب کو ترجیح نہ دی جا سکتی ہو۔ اگر بلوغت سے پہلے یا بعد میں کوئی ایسی علامت پائی جائے جو کسی ایک صنف کے زیادہ قریب ہو تو اُس پر اُسی کا حکم عائد ہو گا۔ اگر مذکر کی علامت غالب ہو تو اسے مردوں کے زمرے میں شامل کریں گے اور اگر مونث کی علامت غالب ہو تو اسے عورتوں کے زمرے میں شامل کریں گے........ ‘‘۔ مفتی صاحب کہتے ہیں کہ یہ جو کہا جاتا ہے کہ ایسے افراد کی نماز جنازہ نہیں پڑھی جاتی اور اسے رات میں لوگوں سے خفیہ طور پر جنازے کے بغیر ہی دفن کیا جاتا ہے، شرعاً غلط ہے۔ مفتی صاحب مزید لکھتے ہیں کہ اگر ایسے افراد مستحق ہیں تو اسے زکوۃ و خیرات دی جا سکتی ہے اور دینی چاہیے، وہ ایمان لانے اور احکام شرعیہ کا مُکلّف ہے، اُن پر نماز، روزہ، حج بھی فرض ہے۔ مفتی منیب الرحمن کہتے ہیں کہ ایسے افراد کو حقارت سے نہ دیکھا جائے بلکہ اُن سے ہمدردی کی جائے، یہ عام انسانوں کی طرح اللہ کی مخلوق ہیں اور اگر یہ لوگ اپنے خاندانوں سے بچھڑے ہوئے ہیں، تو حکومت یا دین دار اہلِ خیر ِاِن کے لیے دارالکفالت بنائیں، یہ بہت بڑی انسانی خدمت ہو گی۔مجھے ایسے افراد کے لیے خواجہ سرا، ہجڑا اور کھسرا جیسے نام معیوب لگتے ہیں۔ جو مردوں کے قریب ہو اُسے مرد تسلیم کیا جائے اور جو عورتوں کے قریب ہو اُسے عورت مانا اور پکارا جائے۔ انہیں پکارنا ہے تو اُن کے نام سے پکارا جانا چاہیے۔ جیسا کہ مفتی منیب الرحمن صاحب نے کہا کہ یہ افراد ہماری ہمدردی کے مستحق ہیں اس لیے ہماری کوشش ہونی چاہیے کہ وہ نارمل زندگی گزارسکیں۔ میں تو کہوںگا کہ قانون سازی کے ذریعے حکومت ایسے والدین کو مجرم قراردے کر سزا دے جو اپنے ایسے بچوں کو گھروں سے نکلنے پر مجبور کر دیتے ہیں یا وہ اپنے دوسرے بچوں کی طرح ان کی تعلیم و تربیت پر توجہ نہیں دیتے۔ حکومت کے ساتھ ساتھ نجی شعبہ اور مخیر حضرات کو ایسے بے گھر افراد کے رہنے اور روزگار کے لیے توجہ دینی چاہیے ۔کچھ عرصہ قبل مجھے کسی نے ایک وڈیو بھیجی جس میں اسی طبقہ سے تعلق رکھنے والا ایک شخص اسلام کی تبلیغ میں مصروف تھا۔ مجھے یہ بھی بتایا گیا کہ جنوبی پنجاب کے علاقہ میں تین بہنیں جو ایسی ہی پیدائشی کمی کا شکار تھیں اپنے خاندان کی مدد اور حوصلہ افزائی سے اسلام کی درس و تدریس میں مصروف ہیں۔ ایسے والدین اور خاندان قابل تحسین ہیں جو اپنے ایسے بچوں کو پڑھا لکھا کر نارمل زندگی گزارنے کی کوشش میں ہیں۔ حکومت اور نجی شعبوں میں ایسے افراد کے لیےا سپیشل پرسنز کی طرز پر نوکریوں کے لیے کوٹہ رکھا جائے تاکہ اس معاشرتی ظلم کو روکا جا سکے۔



.
تازہ ترین