• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاک افغان تعلقات زیادہ تر غیر دوستانہ ہی رہے ہیں، لیکن کچھ حالیہ واقعات ان دونوں ہمسایہ اسلامی ممالک کے درمیان خلیج کو وسیع کرنے کا موجب بنے ہیں۔ انکے تعلقات مسلسل عدم اعتماد کا شکار رہتے ہیں۔ اس عدم اعتماد کے غبار کو صاف کرنے کیلئے ہر دو طرفہ پیش رفت بڑی حد تک ناکام رہی۔ اسی طرح ان کے درمیان ثالثی کرنے کی کسی تیسرے فریق کی کوشش بھی کامیاب نہیں ہوئی۔ چمن (اسپین بولدک) کے علاقے میں ہونے والی حالیہ سرحدی جھڑپوں کے نتیجے میں نہ صرف طرفین کا جانی نقصان ہوا بلکہ پاک افغان تعلقات میں مزید بگاڑ بھی آیا۔ پاکستان نے افغانستان پر الزام لگایا کہ اس کی فورسز نے سرحدی گائوں، کیلی لقمان اور کیلی جہانگیر میں مردم شماری کرنیوالی ٹیم پر بلااشتعال فائرنگ کی اور عورتوں اور بچوں سمیت سات شہریوں کو ہلاک کر دیا۔ افغانستان کا دعویٰ ہے کہ مردم شماری کرنے والی ٹیم غیر قانونی طور پر افغان دیہاتوں میں کام کر رہی تھی۔ اُس نے پاکستان کی سیکورٹی فورسز پر سرحد پار فائرنگ کرنے اور جانی نقصان پہنچانے کا الزام لگایا۔
یہ سنگین نوعیت کی سرحدی جھڑپ تین پاکستانی وفود، جن میں دو فوجی وفود تھے اور ایک سیاست دانوں پر مشتمل تھا، کے افغانستان دورے کے فوراً بعد پیش آئی۔ درحقیقت اُن دوروں کے بعد کچھ امید بندھی تھی کہ دو طرفہ تنائو کم کرنے اور تعلقات میں بہتری لانے کی کوششیں نتیجہ خیز ثابت ہو رہی ہیں۔ ان میں خاص طور پر اسپیکر قومی اسمبلی سردار ایاز صادق کی قیادت میں تمام اہم سیاسی جماعتوں کے مخصوص ارکان کے ایک بڑے وفد کی صورت کابل گئے اور وہاں کے اہم سیاست دانوں سے ملاقات کی۔ اس پیش رفت کو خوش آئند قرار دیا گیا تھا۔ مذکورہ وفد کے دورے سے اس تاثر کو تقویت ملی تھی کہ سیاست دان مشکل معاملات کو حل کرنے کی صلاحیت رکھتے ہیں۔ وفد میں محمود خان اچکزئی اور آفتاب شیر پائو کی موجودگی نے اس کی اہمیت کو دوبالا کر دیا کیونکہ وہ افغان صدر اشرف غنی اور دیگر افغان رہنمائوں سے ذاتی تعلقات رکھتے ہیں۔ وہ اس سے پہلے بھی افغانستان کے خیر سگالی دورے کر چکے ہیں۔ اس کے علاوہ ڈی جی آئی ایس آئی لیفٹیننٹ جنرل نوید مختار اور چیف اور جنرل اسٹاف لیفٹیننٹ جنرل بلال اکبر کے کابل کے الگ الگ دوروں سے بھی تنائو کم ہونے اور پاک افغان تعلقات کی بہتری کے امکانات روشن ہونے کی امید پیدا ہوئی تھی کیونکہ اعلیٰ سطحی فوجی افسران کافی دیر بعد افغانستان کا دورہ کر رہے تھے۔ ان وفود کے دوروں سے پاک فوج کے چیف لیفٹیننٹ جنرل قمر جاوید باجوہ کے افغانستان دورے کی راہ بھی ہموار ہوتی دکھائی دی۔ جنرل باجوہ کو افغانستان دورے کی دعوت اُس وقت ملی تھی جب اُنھوں نے افغان صدر اشرف غنی اور چیف ایگزیکٹو ڈاکٹر عبداﷲ اور اُس وقت افغان فوج کے چیف جنرل قدام شاہ شاہین سے فون پر بات کی۔ جنرل باجوہ نے پہلی مرتبہ فون یکم جنوری2017 ء کو کیا اور افغان قیادت کو نئے سال کی مبارکباد دی اور دوسری مرتبہ گیارہ جنوری کو کابل، قندھار اور لشکر گاہ میں ہونے والے تباہ کن بم دھماکوں اور ان میں ہونے والے جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا۔ ان دھماکوں میں متحدہ عرب امارات کے پانچ سفارت کاروں، جو قندھار کے گورنر ہائوس میں مقیم تھے، سمیت درجنوں افراد ہلاک ہوئے۔ یکے بعد دیگر ے پیش آنے والے بعض واقعات کی وجہ سے جنرل باجوہ کا افغانستان کا دورہ تعطل کا شکار ہوتا گیا۔ ہو سکتا ہے کہ یہ دورہ اب بھی ممکن ہو لیکن پاک افغان تعلقات میں در آنے والی پیچیدگی کے بعد اسے نتیجہ خیز بنانا آسان نہ ہو گا۔
یہ بات بھی قابلِ غور ہے کہ تعلقات بہتر بنانے کی غرض سے تینوں مرتبہ پیش رفت پاکستان کی طرف سے کی گئی تھی۔ تینوں مذکورہ دورے پاکستانی وفود کے تھے جو افغانستان گئے۔ اس دوران صدر غنی کو پاکستان دورے کی دعوت دی گی جسے رد کردیا گیا۔ ڈاکٹر عبداﷲ کو کئی مرتبہ پاکستان آنے کی دعوت دی گئی ہے لیکن وہ بھی پاکستان نہیں آئے۔ دراصل افغان حکومت پاکستان کے ساتھ تعلقات استوار کرنے کیلئے ایسی شرائط رکھ رہی ہے جنہیں پورا کرنا اسلام آباد کیلئے ممکن نہیں۔ اس سے پہلے برطانوی حکومت کی ثالثی سے وزیراعظم نواز شریف کے مشیر برائے امور خارجہ، سرتاج عزیز کی افغان نیشنل سیکورٹی ایڈوائزر، حنیف اتمار سے لندن میں ملاقات ممکن ہو سکی تھی۔ اس ملاقات میں دونوں ممالک کے درمیان تنائو دور کرنے کی ضرورت پر اتفاق کیا گیا تاکہ گزشتہ 32دنوں سے بند تورخم اور چمن بارڈر کو کھولا جا سکے۔ وہ بارڈر پاکستان میں دہشت گردی کی کارروائیوں، جن کے سرے افغانستان سے ملتے تھے، کے بعد بند کئے گئے۔ اگرچہ اسلام آباد اور کابل کے مفاہمتی اقدامات سے عوام باخبر نہ ہو سکے لیکن دونوں ممالک کے ملٹری کمانڈروں کے درمیان ہاٹ لائن بحال کرنے کے علاوہ مزید ملاقات کا ارادہ ظاہر کیا گیا۔
پاکستان کے صوبے، بلوچستان کے سرحدی قصبے، چمن اور قندھار صوبے میں واقع اسپن بولدک پر فورسز کے درمیان تصادم نے تعلقات بہتر بنانے کی پیش رفت کو دھندلا دیا۔ افغان فوج کے 209ویں شاہین کور ہیڈ کوارٹر، مزار شریف پر طالبان کے خود کش حملوں، جس میں ایک سو ساٹھ سے لے کر دو سو تک افغان فوجی ہلاک ہوئے، نے اس جنگ زدہ ملک کی غیر یقینی سیکورٹی کی صورتحال کو مزید مخدوش کر دیا۔ ایک مرتبہ پھر کچھ افسران نے اپنی سیکورٹی کی کوتاہیوں پر پردہ ڈالنے کیلئے پاکستان پر الزامات کی بارش شروع کردی کہ وہ مبینہ طور پر اپنے علاقے میں محفوظ ٹھکانے رکھنے والے طالبان کو موسم بہار کے حملے، منصوری (جسے ہلاک شدہ طالبان رہنما ملا اختر محمد منصور کے نام سے منسوب کیا گیا ہے) کو روکنے اور طالبان کو لگام دینے میں ناکام رہا ہے۔
جس دوران یہ واقعات پیش آرہے تھے، ایک سابق مجاہدین لیڈر نے مسلح جدوجہد ترک کرتے ہوئے سیاسی راہ اپنانے کا فیصلہ کیا ہے۔ یہ حزبِ اسلامی کا کمانڈر، گلبدین حکمت یار ہے جس نے1990 ء کی دہائی کے وسط میں مجاہدین کی حکومت کے دوران وزیراعظم کا منصب سنبھالا تھا۔ اب وہ بیس سالہ روپوشی کے بعد منظرِعام پر آتے ہوئے کابل پہنچا، لیکن اُس کی آمد سے تنازعات کھڑے ہونے میں دیر نہیں لگی۔ اُس کی افغان دارالحکومت میں آمد کو ایک اہم واقعے کے طور پر دیکھا گیا کیونکہ وہ افغان حکومت کے ساتھ امن معاہدہ کرکے واپس آیا تھا۔ تاہم بے دھڑک دل کی بات کرنے کے عادی، حکمت یار نے افغان صدر، اشرف غنی اور سی ای او ڈاکٹر عبداﷲ کو یہ کہہ کر مشتعل کر دیا کہ افغان آئین کو اصلاحات کی ضرورت ہے۔ نیز اُس نے طالبان کو اپنا بھائی بھی قرار دیا۔ حکمت یار نے قومی حکومت کی قانونی اور عوام کی نمائندگی کی حیثیت پر سوال اٹھاتے ہوئے کہا کہ یہ سابق امریکی سیکریٹری آف اسٹیٹ، جان کیری کی ثالثی سے تشکیل پائی تھی چنانچہ اس کا احترام کرنے کی کوئی ضرورت نہیں۔
صدر غنی نے حکمت یار کے آئین میں اصلاحات کرنے کے بیانیے کے جواب میں کہا کہ یہ وقت آئینی اصلاحات کیلئے موزوں نہیں، اس کی بجائے آئین کو تقویت دینے کے اقدامات درکار ہیں۔ حکمت یار نے دعویٰ کیا تھا کہ اُس کے پاس آئین سے بہتر متبادل موجود ہے، اگرچہ اُس نے عوامی طور پر اس کاا ظہار نہ کیا۔ اس سے پہلے اُس نے موجودہ افغان آئین کے تحت حکومت کے ساتھ امن معاہدہ کرنے میں کوئی حرج نہیں سمجھا تھا۔ ڈاکٹر عبداﷲ نے حکمت یار کے بیان پر ردعمل کا اظہار کرتے ہوئے کہا یہ قومی حکومت افغان عوام کے ووٹوں سے بنی ہے، اسے کسی نے ملک پر مسلط نہیں کیا۔ ڈاکٹر عبداﷲ نے یہ بھی کہا کہ طالبان حکمت یار کے بھائی ہوں گے لیکن افغان عوام اُنہیں اپنا بھائی نہیں سمجھتے اور نہ ہی وہ حکمت یار کیلئے برادرانہ جذبات رکھتے ہیں۔ اس کے جواب میں حکمت یار نے الزام لگایا کہ طالبان کیلئے ’’بھائی‘‘ کی اصطلاح پر بھڑک اٹھنے والے لوگ ملک میں امن کے خواہاں نہیں۔ وہ افغانستان کو ہمیشہ کیلئے جنگ کے شعلوں میں جلتے دیکھنا چاہتے ہیں۔
حکمت یار کا ابتدائی کردار افغان حکومت کو مستحکم کرنے والے رہنما کے طور پر دیکھا گیا تھا کیونکہ یہ کسی بھی مسلح گروہ کے ساتھ پہلی مفاہمتی کوشش تھی۔ خیال تھا کہ اس کے بعد طالبان بھی حکومت سے شراکتِ اقتدار پر بات کرنے کیلئے راضی ہو جائیں گے۔ تاہم اب اُس کے بیانات ملک کے نازک سیاسی مفاہمت کے ماحول کو خراب کرنے اور موجودہ صورتحال کو برہم کرنے والے عامل کے طور پر دیکھے جارہے ہیں۔ دوسری طرف حکمت یار صدر غنی اور ڈاکٹر عبداﷲ کے درمیان ثالثی کرانے اور طالبان کی طرف سے بات کرنے کیلئے اپنا خدمات پیش کر رہا ہے، لیکن کوئی بھی اُسے یہ کردار سونپنے کیلئے تیار نہیں۔ تاہم یہ ناکامی حکمت یار کو خود کو امن کا نقیب اور ایک ماہر سیاست دان سمجھنے سے نہیں روک سکی۔ حقیقت یہ ہے کہ حکمت یار کا افغان سیاست میں کردار بہت محدود تھا اور اوپر سے اُس نے صورتحال کو غیر یقینی بنانے کی کوشش کی جب افغانستان کو بدترین تشدد کا سامنا ہے اور اس کے پاکستان سے تعلقات بھی کشیدہ ہیں۔ پاکستان وہ ملک ہے جو افغان امن میں اپنا کردار ادا کرسکتا ہے۔



.
تازہ ترین