• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پوری دنیا میں اس رقص کی دھوم ہے۔ سعودی عرب کے دارالحکومت ریاض میں عرب ا سلامی امریکن کانفرنس سے قبل خادم الحرمین شریفین شاہ سلمان اورامریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے ہاتھوں میں تلواریں تھام کر رقص کیا۔ اس رقص نے دنیا بھر کے مسلمانوں کو ٹرمپ کی وہ تمام تقاریر یاد دلائیں جو وہ اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں اپنی انتخابی مہم میں کیا کرتا تھا۔ رقص کے بعد ٹرمپ نے مسلمانوں کے بارے میں بڑی اچھی اچھی باتیں کیں۔ اب ہم موصوف کی کن تقاریر کو سچ سمجھیں ۔ رقص سے پہلے والی یا رقص کے بعد والی؟ تلواروں کے سائے میں ہونے والے اس رقص سے داعش جیسی انتہا پسند تنظیموں کا بیانیہ کمزور ہوگا یا مضبوط؟اس سوال کا جواب حاصل کرنے کیلئے آپ کو کسی دانشور یا عالم کے پاس جانے کی ضرورت نہیں۔ پاکستان کی کسی بھی سڑک یا چوراہے پر کسی عام آدمی کو روک کر اس سے پوچھ لیں کہ ٹرمپ نے سعودی عرب میں جو رقص کیا اور جو تقریریں کیں ان سے مسلمانوں کو فائدہ ہوگا یا نقصان؟ایک عام آدمی آپ کو یہ بتادے گا کہ ٹرمپ نے سعودی عرب میں110ارب ڈالر کا اسلحہ فروخت کرنے کے جو معاہدے کئے ہیں ان معاہدوں سے مسلمانوں کو کتنا فائدہ اور کتنا نقصان ہوگا۔
پاکستان کے مسلمانوں کو چھوڑئیے ، برطانیہ کے ایک غیر مسلم صحافی رابرٹ فسک نے وہ سب کچھ کہہ دیا ہے جو کوئی مسلمان حکمران نہ کہہ سکا۔ رابرٹ فسک نے دی انڈی پینڈنٹ لندن میں لکھا ہے کہ سعودی عرب میں ہونے والی ’’عرب نیٹو‘‘ کانفرنس کا ہدف داعش نہیں بلکہ ایران اور شام ہیں۔ آج دنیا بھر کے مسلمانوں کا سب سے بڑا المیہ یہ ہے کہ وہ اپنے اکثر حکمرانوں کے بیانات کو سچ نہیں سمجھتے۔ کیا عام مسلمان مصر کے فوجی صدر جنرل السیسی پر اعتبار کرسکتے ہیں جس نے اپنے ملک کی ایک منتخب حکومت پر ٹینک چڑھادئیے اور قاہرہ کے التحریر اسکوائر میں اپنے ہی لوگوں کا قتل عام کیا؟ کیا یہ مسلمان شام کے صدر بشارالاسد کو اپنا نجات دہندہ سمجھ سکتے ہیںجو اپنے ہی لوگوں کے خلاف کیمیائی ہتھیار استعمال کرتا ہے؟ مسلم ممالک کے یہ مضبوط حکمران اپنے لوگوں پر شیر بن کر ٹوٹ پڑتے ہیں اور غیر ملکی طاقتوں کے سامنے بکری بن جاتے ہیں اور ان کے اسی دوغلے پن سے انتہا پسندوں کو تقویت ملتی ہے۔ عام مسلمان داعش سے بھی تنگ ہے اور اپنے مفاد پرست حکمرانوں سے بھی تنگ ہے اور یہی وہ مایوسی ہے جو بہت سے نوجوانوں کو انتہا پسندی کی طرف دھکیل دیتی ہے۔ نوجوانوں کو انتہا پسندی سے بچانا ایک بہت بڑا چیلنج بن چکا ہے لیکن ہمیں اس چیلنج کے مقابلے کیلئے ٹرمپ پر نہیں اپنے آپ پر اعتماد کرنا ہوگا۔
پاکستان کی 50فیصد آبادی 25سال سے کم عمر کے نوجوانوں پر مشتمل ہے۔ یہ نوجوان پاکستان کا مستقبل ہیں لیکن افسوس کہ ان نوجوانوں کی صلاحیتوں کو قومی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کے بجائے سیاسی مقاصد کیلئے استعمال کرنے کی کوشش کی جاتی ہے۔ذرا یاد کیجئے جنرل پرویز مشرف کے دور میں لمبی زلفوں پر لال ٹوپی سجا کر خلافت کے خواب دکھانے والے ایک صاحب کو ٹی وی اسکرینوں پر لایا گیا۔ موصوف نے نوجوانوں کو اسلام کے نام پر جمہوریت اور آئین کے خلاف ورغلانا شروع کیا اور مشرف حکومت کے ناقدین پر کفر و غداری کے فتوے لگانے شروع کردئیے۔ مشرف صاحب چلے گئے تو ان صاحب نے جنرل اشفاق پرویز کیانی کو انقلاب برپا کرنے کی دعوت دینی شروع کی۔ کیانی صاحب سے امیدیں پوری نہ ہوئیں تو ان صاحب نے جنرل کیانی کے خلاف سوشل میڈیا پر ایک بھرپور مہم چلائی۔ کچھ عرصہ قبل ان صاحب کو سعودی عرب میں گرفتار کرلیا گیا تو ان کے سرپرست انہیں وہاں سے بھی چھڑا لائے۔ انہی صاحب کے کچھ تربیت یافتہ نوجوانوں نے تحریک انصاف کے ایک امیر ترین رہنما کے قائم کردہ سوشل میڈیا سیل میں بیٹھ کر سیاسی مخالفین پر کفر اور غداری کے فتوے لگانے شروع کئے۔
اس فتوے بازی کے مقابلے کیلئے مسلم لیگ (ن) نے بھی اپنی سائبر فورس تیار کی اور کچھ ہی عرصے میں مسلم لیگ (ن) کے سائبر کمانڈوز ا لزام بازی اور گالی گلوچ میں تحریک انصاف کو بہت پیچھے چھوڑ گئے۔ اب قوم کے یہ نوجوان سوشل میڈیا پر ایک دوسرے کے ساتھ گندی گالی گلوچ کے ذریعہ ہمارے معاشرے کے پڑھے لکھے طبقے کے اخلاقی دیوالیہ پن کا جنازہ نکالنے میں مصروف رہتے ہیں اور ان کی گالی گلوچ سے پتا چلتا ہے کہ انتہا پسندی کا تعلق مذہب کے ساتھ نہیں ہے۔ انتہا پسندی ایک مائنڈ سیٹ اور یہ خطرناک مائنڈ سیٹ پڑھے لکھے نوجوانوں میں ز یادہ فروغ پذیر ہے جس کا ثبوت خان عبدالولی خان یونیورسٹی مردان میں توہین مذہب کے الزام میں ایک طالبعلم مشال خان کا قتل ہے۔
نوجوانوں میں بڑھتی ہوئی ا نتہا پسندی کے بارے میں آئی ایس پی آر نے ہائر ایجوکیشن کمیشن کے تعاون سے جی ایچ کیو میں ایک سیمینار کا انعقاد کیا جس میں پاکستان کی اہم یونیورسٹیوں کے وائس چانسلروں کے علاوہ کچھ دینی مدارس کے ذمہ داروں نے بھی شرکت کی۔ سیمینار میں آرمی چیف کی تقریر سے قبل ڈاکٹر شعیب سڈل اور ڈاکٹر مختار احمد نے نوجوانوں میں مایوسی کی وجوہات پر ٹھوس دلائل کے علاوہ ممکنہ حل بھی پیش کیا۔ غازی صلاح الدین نے میڈیا پر کئے جانے والے بےجا اعتراضات کا جواب دیا اور انتہا پسندی کے خاتمے کیلئے میڈیا کے کردار کی اہمیت کو تسلیم کیا۔ آرمی چیف جنرل قمر جاوید باجوہ نے قرآنی آیات کی روشنی میں کہا کہ کچھ فسادی اپنے آپ کو اصلا ح کرنے والے قرار دیتے ہیں، ایسے فسادیوں سے ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔ انہوں نے واضح کیا کہ انتہا پسندی کی اصطلاح کا مذہبی لوگوں کے ساتھ کوئی تعلق نہیں۔ ایک وائس چانسلر کے سوال کے جواب میں جنرل قمر جاوید باجوہ نے کہا کہ یونیورسٹیوں کو تحفظ فراہم کرنا حکومت کی ذمہ داری ہے لیکن پاکستان آرمی بھی ہر وقت آپ کی مدد کیلئے تیار ہے۔ ان کی باتیں سن کر سمجھ آرہی تھی کہ وہ فوج کو سیاست میں الجھائے بغیر صرف اور صرف پاکستان کے اندرونی و بیرونی دشمنوں سے نمٹنا چاہتے ہیں اور اپنے مقصد کی کامیابی کیلئے سب کو ساتھ لے کر چلنا چاہتے ہیں۔
گزشتہ دنوں ڈان لیکس کا معاملہ طے ہونے کے بعد ان پر بہت سے الزامات لگائے گئے۔ کچھ لوگوں نے ان کی آئین پسندی کو کمزوری سمجھ لیا ہے لیکن ان کی اصل طاقت آئین کے اندر موجود ہے اور وہ اس طاقت کا مظاہرہ اپنوں کے خلاف نہیں بلکہ دشمنوں کے خلاف کریں گے۔ کچھ سیاستدان ان سے ناراض ہیں کچھ صحافی اور تجزیہ نگار بھی ان سے خوش نہیں۔ سوشل میڈیا پر ان کے خلاف طرح طرح کے الزامات لگائے گئے کیونکہ انہوں نے جنرل السیسی بن کرمنتخب حکومت پر ٹینک چڑھانے سے گریز کیا۔ بہت جلد ان کے ناقدین کو پتا چل جائے گا کہ جنرل السیسی بن کر کسی منتخب حکومت کو غیر آئینی طریقے سے ختم کرنے کا مطلب سیاسی شہید پیدا کرنا ہوتا ہے۔ پاکستان جیسے ملک میں منتخب حکومت کے مستقبل کا فیصلہ آئین و قانون کے مطابق ہو تو زیادہ بہتر ہوتا ہے۔ آئین و قانون میں موجود آزادیاں برقرار رہیں تو ہم اپنی حکومتیں بدلنے میں آزاد رہیں گے اور یہی آزادی انتہا پسندی کے خلاف سب سے بڑی طاقت بنے گی لہٰذا ہمیں آئینی آزادی کا یہ رقص جاری رکھنا ہوگا۔



.
تازہ ترین