• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چین میں 14اور15مئی 2017ء کو ’’بیلٹ اینڈ روڈ انٹرنیشنل فورم‘‘ کا انعقاد تاریخ انسانی کا اہم واقعہ ہے۔ اسے محض ایک عالمی سربراہ کانفرنس سے تعبیر نہیں کیا جا سکتا۔ یہ فورم ایک نیا عہد شروع ہونے کا تاریخی عمل ہے۔ عالمی رہنماؤں کے اس غیر روایتی اجتماع میں چین نے ’’ون بیلٹ ون روڈ‘‘ یعنی ایک پٹی ایک شاہراہ کا تصور دیا۔ یہ ایسی تبدیلی کا تصور ہے، جس کے بارے میں پہلے کسی نے سوچا بھی نہیں ہو گا۔ یہ فکر کی تبدیلی ہے۔ تاریخ میں پہلی مرتبہ صدیوں پرانے نو آبادیاتی اور سامراجی تصورات پر کاری ضرب پڑی ہے۔
ون بیلٹ ون روڈ (OBOR) ایک ایسا منصوبہ ہے، جس کے تحت دنیا کے 65ممالک کو ایک شاہراہ سے منسلک کیا جائے گا۔ اس شاہراہ کے6 کاریڈور ہوں گے۔ نیوزی لینڈ اور قطب شمالی سے لیکر سری لنکا اور افغانستان تک کے ممالک اس منصوبے میں شامل ہونگے۔ دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی منصوبے سے استفادہ کرے گی۔ یہ سارا منصوبہ900 ارب ڈالر کا ہو گا۔ ایک پٹی ایک شاہراہ (اوبور) سے نئی دنیا جنم لے گی، جو اس دنیا سے مختلف ہو گی، جس کا اب تک تاریخ نے مشاہدہ کیا ہے۔ اوبور کا تصور دنیا کیلئے قابل قبول ہے کیونکہ اس کا بنیادی خیال استحصال نہیں بلکہ ترقی میں شراکت داری ہے۔ چین نہ صرف اس ترقی کا محرک ہے بلکہ مالیاتی وسائل بھی فراہم کرنیوالا ہے۔ تمام65 ممالک اس منصوبے میں شریک ہونے پر آمادہ ہیں یا آمادگی ظاہر کرنے والے ہیں۔ اوبور کا تصور کسی کے خلاف نہیں اور نہ ہی اس میں جارحیت کا عنصر ہے۔ یہ تسخیر کائنات اور نئی دنیا کی تعمیر کا تصور ہے۔ اس لئے اس کی مخالفت بھی کوئی آسان کام نہیں ہے۔
مغربی ذرائع ابلاغ اوبور کے منصوبے کو چین کے نیو ورلڈ آرڈر (نئے عالمی ضابطہ) سے تعبیر کر رہے ہیں۔ وہ یہ تاثر دینے کی کوشش کر رہے ہیں کہ چین تاریخ انسانی کی ایک خطرناک طاقت بن کر ابھر رہا ہے۔ مغربی ذرائع ابلاغ کی اس رائے کے پس پردہ عالمی سامراجی طاقتوں کا خوف ہے کیونکہ چین نے یہ تصور دے کر ان کے روایتی سامراجی حربوں کو تاریخ میں پہلی مرتبہ غیر موثر بنا دیا ہے۔ یہ ٹھیک ہے کہ چین کا یہ تصور اس کے اپنے مفادات کی تکمیل کیلئے بھی ہے لیکن چین نے اس کیلئے وہ راستہ اختیار کیا ہے، جو تاریخ میں کسی نے نہیں اختیار کیا۔ چین نے سب کچھ چھین لینے کی بجائے سب کچھ دے دو کی پالیسی اپنائی ہے۔ وہ دنیا کی نصف سے زیادہ آبادی کی معاشی ترقی میں مدد کرنا چاہتا ہے۔ اس کے نتیجے میں دنیا کی قیادت اس کے پاس چلی جائے گی۔ چینی قوم دنیا کی قدیم ترین تہذیبوں میں سے ایک انتہائی مالا مال (Rich) تہذیب کی وارث ہے۔ ماضی میں چین کا اپنے خطے میں اگرچہ روایتی نو آبادیاتی اور سامراجی کردار رہا ہے لیکن یہ کردار مغربی اقوام کی طرح نہیں رہا۔ مغربی اقوام خصوصاً اینگلو سیکسن نسلی گروہوں نے کئی صدیوں سے لوٹ مار، استحصال، استبداد، جنگوں اور خونریزی کے ذریعے نہ صرف اپنی بالادستی کو قائم رکھا ہوا ہے بلکہ ان کی بقا کا انحصار اپنے عوامل پر ہے۔ امریکہ اور اس کی اتحادی سابقہ نو آبادیاتی اور موجودہ سامراجی مغربی اقوام نے دنیا کے وسائل پر قبضہ کرنے کیلئے ہتھیاروں، قرضوں، جنگوں اور خونریزی کے طریقے اختیار کئے رکھے۔ چینی قوم نے نو آبادیاتی اور سامراجی طریقوں پر کبھی انحصار نہیں کیا۔ چینی قوم نے اپنی بقا کیلئے اپنی غیر معمولی صلاحیتوں اور اپنے وسائل پر انحصار کیا۔ چین کی آبادی بہت بڑی ہے۔ چین کی قیادت یہ سمجھتی ہے کہ اتنی بڑی آبادی کی ضروریات کو روایتی سامراجی اور نو آبادیاتی طریقوں سے مستقل بنیادوں پر پورا نہیں کیا جا سکتا۔ شاید اسی لئے چین نے اپنی معاشی پیداوار کو ساری دنیا میں سہولت کے ساتھ پہنچانے کیلئے معاشی ترقی میں شراکت داری کا عظیم تصور دیا ہے۔دنیا نو آبادیاتی، جدید نو آبادیاتی اور سامراجی ہتھکنڈوں سے اکتا چکی ہے اور ان ہتھکنڈوں کو شعوری طور پر مسترد کر رہی ہے۔ اسے وہ معیشت قبول نہیں ہے، جو ہتھیاروں کی پیداورار میں بے تحاشا اضافے سے چلتی ہو۔ دنیا کو وہ سیاست قبول نہیں ہے جس میں دہشت گرد بھی مخصوص عالمی طاقتوں کے اشارے پر کام کر رہے ہوں اور دہشت گردی کیخلاف جنگ کرنے والی ریاستیں اور حکومتیں بھی اپنی مخصوص عالمی طاقتوں کے ایجنڈے کی تکمیل کر رہی ہوں۔ دنیا ایسے تصورات سے کانپ جاتی ہے، جو تیل، گیس اور دیگر قدرتی اور معدنی وسائل پر قبضے کیلئے سیاسی فلسفہ بنا کر پیش کئے جاتے ہوں۔ یہی وجہ ہے کہ چین کا ’’اوبور‘‘ کا وژن پوری دنیا کو اپیل کر رہا ہے۔ یہاں تک کہ یورپ بھی اس کا حصہ بننا چاہتا ہے۔
ایک پٹی ایک شاہراہ پر چین دنیا کی جو نئی صف بندی کرنا چاہتا ہے، وہ اپنے جوہر میں انتہاپسندی اور دہشت گردی کیخلاف ہے۔ انتہاپسندی اور دہشت گردی غربت کی پیداوار ہیں۔ مغربی سامراجی اقوام کی عالمی بالادستی کی پالیسیوں نے غربت کو جنم دیا۔ انہوں نے انتہاپسندی اور دہشت گردی کے فروغ کیلئے بڑی سرمایہ کاری کی۔ اب یہی سامراجی ممالک چین کے بارے میں یہ کہہ رہے ہیں کہ چین غیر سودمند سرمایہ کاری کر رہا ہے۔ اگر امریکہ اور اس کے حواریوں کی جنگوں، ہتھیاروں، دہشت گردی اور انتہاپسندی میں ہونے والی سرمایہ کاری غیر سودمند نہیں ہے تو چین کی سرمایہ کاری کیسے غیر سودمند ہو سکتی ہے۔ یہ بھی کہا جاتا ہے کہ اوبور کا منصوبہ قابل عمل نہیں ہے کیونکہ اس ایک پٹی ایک شاہراہ پر کئی ایسے ممالک اور خطے ہیں، جو عدم استحکام کا شکار ہیں۔ ان میں پاکستان، افغانستان، عراق، شام وغیرہ کا نام لیا جاتا ہے۔ لیکن ان ممالک اور دیگر خطوں میں عدم استحکام اور انتشار کا بنیادی سبب سامراجی ملکوں کی پالیسیاں ہیں۔ یہ سبب اگر ختم ہو جائے تو یہاں استحکام آسکتا ہے۔ اوبور کا منصوبہ انتشار اور عدم استحکام ختم کرنے کا منصوبہ ہے۔ بیلٹ اینڈ روڈ انٹرنیشنل فورم میں 29ملکوں کے سربراہان مملکت و حکومت، 70سے زائد ملکوں کے نمائندوں، ورلڈ بینک، عالمی مالیاتی فنڈ (آئی ایم ایف) اور دیگر عالمی مالیاتی اداروں کے سربراہوں،20سے زائد عالمی تنظیموں کے نمائندوں اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل نے شرکت کی۔ فورم سے پہلے کئی کانفرنسز، سیمینارز اور ورکشاپس منعقد ہوئیں، جن میں دنیا کے مختلف شعبوں میں سرمایہ کاری سے متعلق امور پر غور کیا گیا لیکن یہ پہلا عالمی ایونٹ ہے، جس میں نہ تو فوجی اور دفاعی معاملات پر بات ہوئی اور نہ ہی ہتھیاروں کی خریدو فروخت کے معاہدے ہوئے۔ چین کے نجی اور سرکاری بینک اور مالیاتی اداروں نے یورپ کی امیر ترین حکومتوں، کثیر القومی اداروں سمیت دنیا کے دیگر ملکوں اور حکومتوں کو انفرا اسٹرکچر، ٹیکنالوجی، سائنس، زراعت، صنعت، توانائی تعلیم، صحت اور دیگر غیر فوجی شعبوں میں سستے قرضے فراہم کرنے یا سرمایہ کاری کرنے کی پیشکش کی۔ چین کے بینک اور مالیاتی ادارے عالمی بینک، آئی ایم ایف اور دیگر سامراجی مالیاتی اداروں کا متبادل بن کر ابھر رہے ہیں۔ ان عالمی مالیاتی اداروں کو ایک امریکی ماہر معیشت نے ’’غربت کے آقا‘‘ کا نام دیا ہے۔ اوبور وژن پر عمل درآمد میں بہت زیادہ مشکلات حائل ہو سکتی ہیں لیکن حقیقت یہ ہے کہ اس وژن نے فکر تبدیل کر دی ہے۔ دنیا بھر کے لوگوں کی ’’جنت الارض‘‘ سے متعلق امنگوں کو بھڑکا دیا ہے اور صدیوں پرانے استحصالی، نو آبادیاتی، جدید نو آبادیاتی اور سامراجی نظریوں کو منطق سے عاری کر دیا ہے۔



.
تازہ ترین