• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
پاکستان کا آئین قانون یا عالمی عدالت
وفاقی وزیر داخلہ اور مشیر خارجہ نے مل کر بیان دیا ہے:کلبھوشن کو انجام تک پہنچائیں گے، عالمی عدالت سے قونصلر رسائی کا حکم ملا نہ اس کی سزا ختم کی جا سکتی ہے۔ را نے کلبھوشن جیسے موزیوں کے ہاتھوں ہمارے ہزاروں افراد کی جان لے لی ان کا مقدمہ بھی کیا عالمی عدالت میں پیش کیا جائے گا، اب ہم اس بات سے بھی بہل رہے ہیں کہ اچھا ہوا بھارت عالمی عدالت میں چلا گیا اب اس سے ہم کشمیر لے لیں گے، بیوقوف بنانے والے بیوقوف ہیں، یا پھر سارا حمام ہی۔۔۔ ایک طرف یہ بھی بار بار کہا جا رہا ہے کہ پوری مغربی دنیا میں سزائے موت کو معیوب سمجھا جاتا ہے، مگر کیا اسی عالمی عدالت میں تین مرتبہ امریکہ کو تین کیسز میں سزائے موت دینے سے نہیں روکا گیا تھا اور کیا اس نے عملدرآمد کیا تھا، نہیں سزائے موت دے دی تھی، امریکہ نے اب تک مسلم امہ کے لاکھوں مسلمان شہید کئے ۔کیا عالمی عدالت اس وقت موجود نہ تھی، اقوام متحدہ کے تمام انسانی حقوق کے آرگن معطل نہیں، مگر مسلم امہ کی باری میں معطل رہتے ہیں بہرحال اوپر اوپر سے خوشی تو ہے کہ وزیر داخلہ اور خارجہ مشیر قوم کو یقین دلا رہےہیں کہ کلبھوشن کو سزائے موت دی جائے گی پھر کیوں یہ تاخیر؟ کہیں یہ تاخیری حربے تو نہیں؟ ہمارے اس پار سے اس پار کوئی کبوتر اڑ کر چلا جائے، کوئی بکری سرحد پار کر جائے کوئی گدھا اُدھر جا نکلے اور پھر یہ کہ ایک بوڑھی پاکستانی خاتون غلطی سے بھارتی حدود میں داخل ہو گئیں تو سب کو اندر کر دیا، کلبھوشن خنجر بدمست پکڑا گیا، دو پاسپورٹ جن میں سے ایک ہندو دوسرا مسلم رکھنے والا کلبھوشن آخر کیوں زندہ رہنے دیا جائے، دو پاسپورٹ ایک ہی شخص کے ایک ہی نام دھرم ایک میں اور دوسرے میں اور، اس سے بڑی دلیل کیا ہو سکتی ہے۔ کونسی عدالت اس کو نظر انداز کر سکتی ہے، مان لیا کہ ویڈیوز دلیل نہیں ہو سکتیں کیا ہوش و حواس میں اقبال جرم بھی کوئی دلیل نہیں؟ بہرحال وزیر داخلہ و مشیر خارجہ اگر طفل تسلی نہیں دے رہے تو ہم کہیں گے کہ کیا خوب کہا۔
چل چنبیلی باغ میں میوہ کھلائوں گا
عمران خان کہتے ہیں:عوام کو کرپٹ نظام سے چھٹکارا دلائیں گے۔ چنبیلی ہر ’’خان‘‘ کے ساتھ باغ میں میوہ کھانے گئی لیکن اس نے جو منظر دیکھا وہ خواجہ غلام فرید نے یوں بیان کیا؎
آئیاں پیلو چنسن دے سانگے
اوڑک تھیساں فریدن دانگے
چھوڑ آرام قرار ہکیاں ہکیاں نی وے!
آخیڑوں رل یار پیلوں پکیاں نی وے
ہم تو اب بھی چنبیلی سے کہیں گے میوہ کھانے کی امید ختم کر دے، اس وقت باغ کی فصیل کے اردگرد جتنے میوہ کھلانے والے پٹرولنگ کر رہے ہیں، ان کے جھانسے میں کوئی بھی چنبیلی نہ آئے، اندر جائے گی تو اسے معلوم ہو جائے گا؎
ہر شاخ پہ الو بیٹھا ہے انجام گلستان کیا ہو گا؟
ہمیں کم از کم اتنا تو معلوم ہے کہ جتنے بھی آواز لگا رہے ہیں ان میں انقلاب لانے، تبدیلی پیدا کرنے بچہ سقہ نظام بدلنے اور خوشحالی لانے والوں جیسی ایک بات بھی نہیں پائی جاتی، کیونکہ جس میں بھی ایسی صلاحیت ہو وہ کبھی اپنے منہ سے نہیں ہاتھ سے کر کے دکھاتا ہے، ہمارے ہاں روڈ بنانے والے بھی ہیں اور روڈ ماسٹرز بھی، دونوں کو روڈوںنے فائدہ پہنچایا لیکن جس زمین پر روڈ بنائی اور پھر اس پر دوڑ لگائی، اس کا حق ادا نہ کیا، دانشمندکو بازار میں کہیں سے من پسند سودا نہ ملے تو خالی ہاتھ گھر آ جائے، کم از کم پانچ سالہ پچھتاوے سے بچ جائے گا۔ کرپٹ نظام سے نکاح پڑھانے والوں کی کمی نہیں، خلع دلانے والا کوئی نہیں بڑی کوشش کرتے ہیں کہ کم از کم کرپشن پارک میں ہم وطنوں کو ہنسا دیں لیکن خود ہنس پڑتے ہیں کسی کو کیا ہنسائیں گے، خان صاحب چھٹکارا خود تو پا گئے کسی اور کو چھٹکارا نہیں دلا سکتےکیونکہ جو نجات دہندہ ہوتے ہیں ان سے تاریخ بھری پڑی ہے ہمیں ان کا چہرہ مہرہ خوب یاد ہے چال چلن سے بھی آگاہ ہیں اس لئے ایک بار پھر ’’چنبیلی‘‘ سے کہیں گے ورنہ سسی والا انجام ہو گا
کون ہے مقدر کا سکندر اللہ ہی جانتا ہے
یوں تو ہمارے سیاسی ایرینا میں بھانت بھانت کے سیاسی گویئے موجود ہیں مگر یہ جو ان میں سے بعض دوسروں کے مقدر جاننے کے بھی دعویدار ہیں اور اپنے فقرے میں یہ فقرہ ضرور شامل کرتے ہیں عمران خان کے مقدر میں سڑکوں پر رُلنا لکھا ہے اس میں نہ صرف علم غیب پر چھلانگ لگانے کا مظاہرہ موجود ہے ایک مخصوص قسم کا گھمنڈ بھی ہے، جو مقدر لکھنے والے کو سخت نا پسند ہے، یہ بھی کہا جاتا ہے ہم سڑکیں بناتے رہیں گے عمران ماپتے رہیں گے یہ جملہ خاصا شاعرانہ و ’’شریفانہ‘‘ ہے، یہاں تک تو ٹھیک ہے لیکن کون جانتا ہے کہ کس کے مقدر میں رُلنا ہے، اس لئے خان صاحب کی قسمت کا حال بتانے والے طوطے محتاط رہیں کہ وہ اپنا کپڑا کسی سڑک کے کنارے بچھا کر رُل سکتے ہیں، شریفانہ بات کرنے میں کوئی حرج نہیں کہ سیاسی پارٹیوں میں کئی دو نمبر ظریف موجود ہیں اور ان کی ظرافت اتنی پختہ نہیں ہوتی کہ کسی کو ہنسا سکے البتہ رُلا سکتی ہے، ہمارا مقصد یہ ہے بات ظریفانہ ہو ستم ظریفانہ نہ ہو۔ اقتدار کا نشہ واحد نشہ ہے جسےترشی اتار دیتی ہے، جو خواتین و حضرات اقتدار کے گھگرے پہن کر سیاسی ریمپ پر مثل ایان پھر تے ہیں، وہ کیا جانیں کہ کب خان کے دن پھرتے ہیں، اور کب نشہ ہرن ہوتا ہے، جو قلم وہ جس کی قسم کھائی وہ آئینے رقم کرتا ہے، کوئی بھی استفادہ کر سکتا ہے، اور آئینہ ایک ایسی چیز ہے کہ اس میں دیکھنے والا صرف اپنا چہرہ دیکھ سکتا ہے، آئینے کا نہیں، وزیراعظم کے معاون خصوصی ڈاکٹر آصف کرمانی ہوں یا وہ جن کے وہ ’’وہ‘‘ ہیں محتاط رہیں اور بار بار کسی کو بھی رُلنے کی دھمکی نہ دیں کہ یہ اقتدار کا ملنا یا اس سے خود کو رگڑنے کا موقع نصیبوں سے ملتا ہے اور محض ایک آزمائش ہوتی ہے کسی کا پیالہ ماپنے کے لئے کہ وہ کتنا گہرا کتنا چوڑا ہے۔ کیونکہ؎
دیتے ہیں مے ظرفِ قدح خوار دیکھ کر



.
تازہ ترین