• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
چین پاکستان اکنامک کاریڈور (سی پیک) کا طویل المدتی منصوبہ میڈیا کے ایک حصے میں سامنے آنے پر ایک بار پھر گیم چینجر قرار دئیے جانیوالے اس منصوبے کے بارے میں شکوک و شبہات پیدا ہو گئے ہیں۔ پہلے دن سے گاہ بہ گاہ متنازع ہونے یا بنانے والے اس منصوبے پر اس بار مبینہ لانگ ٹرم پلان کے ریفرنس سے یہ سوالات اٹھائے جار ہے ہیں کہ دو طرفہ تجارت کی طرح اس کے ثمرات میں پاکستان کا حصہ کیا ہو گا۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی پروفیسر احسن اقبال نے مبینہ لانگ ٹرم پلان کو متروک دستاویز قرار دیا۔ انہوں نے میڈیا کی اس مہم جوئی کو لیکس ٹو کہتے ہوئے اسے سی پیک کے بارے میں خدشات پیدا کرنے کی کوشش سے بھی تعبیر کیا۔ وفاقی وزیر منصوبہ بندی نے دعویٰ کیا کہ پاکستان اور چین کی حکومت کے درمیان جس لانگ ٹرم پلان پر اتفاق کیا گیا ہے اس کو صوبائی حکومتوں،متعلقہ وزارتوں اور محکموں سے تفصیلی مشاورت کے بعد حتمی شکل دی گئی ہے اور اس حتمی لانگ ٹرم پلان کا اعلان رواں ماہ کے آخر تک کر دیا جائے گا۔ احسن اقبال بجا فرما رہے ہوں گے لیکن ملین ڈالر سوال یہ ہے کہ آخر وفاقی حکومت یہ نوبت آنے ہی کیوں دیتی ہے کہ تزویراتی گہرائی کے حامل اہم منصوبے سے متعلق شکوک و شبہات جنم لیں۔ جس منصوبے کو عوام کی ترقی اور خوشحالی کا نسخہ ہائے کیمیا بنا کر پیش کیا جاتا ہے اسے قومی سلامتی کا لیبل لگا کر اپنے ہی لوگوں کی پہنچ سے دور کیوں رکھا جاتا ہے۔ سی پیک کے زیر انتظام مختلف منصوبوں پر عمل درآمد شروع ہوئے دو سال گزر چکے ہیں لیکن کیا وجہ ہے کہ ابھی تک صوبائی حکومتیں ماسوائے پنجاب یہ شکوہ کرتی ہیں کہ متعلقہ تفصیلات پر انہیں اعتماد میں نہیں لیا گیا۔ جس مبینہ لانگ ٹرم پلان کی تفصیلات سامنے لانےکو بھی ملک دشمنی قرار دیا جارہا ہے حقیقت میں یہ وہ اسٹڈی ہے جو چین کی حکومت نے چائنہ ڈیولپمنٹ بنک اور نیشنل ڈیولپمنٹ اینڈ ریفارم کمیشن سے تیار کرائی تھی۔ چینی حکومت یہ جائزہ لینا چاہتی تھی کہ اربوں ڈالرز سی پیک میں لگانے کے بعد کیا فوائد حاصل ہوں گے۔ یقیناً اس اسٹڈی کے ذریعے انہوں نے اپنے مفاد کوہی مقدم رکھنا تھا جس کا دوش انہیں کسی صورت نہیں دیا جا سکتا لیکن پاکستان کے عوام یہ پوچھنے میں ضرور حق بجانب ہیں کہ تزویراتی شراکت داری پر مبنی اس غیر معمولی منصوبے میں حصہ دار بننے سے قبل حکومت پاکستان نے ایسی کون سی اسٹڈی کرائی تاکہ پاکستان کے مفادات کا تحفظ یقینی بنایا جا سکے؟ اگر چینی حکومت 251 صفحات پرمشتمل ایسا ضخیم پلان تیار کر سکتی تھی جس میں یہ تک احاطہ کیا گیا ہے کہ پاکستان میں چینی زبان اور ثقافت کو کیسے فروغ دینا ہے تو حکومت پاکستان کیوں ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھی رہی؟ ارباب اختیار کیا اپنے ہم منصبوں سے پوچھیں گے کہ چینی حکومت نے اس مجوزہ لانگ ٹرم پلان میں یہ کیوں تحریر کیا کہ ریاست کی سطح پر کئے جانے والے اس معاہدے کی توثیق چین اور پاکستان کی حکومتوں نے کر دی ہے؟اگر چینی حکومت یک طرفہ لانگ ٹرم پلان تیار کر کے لیک کر سکتی ہے تو حکومت پاکستان نے 67صفحات پرمبنی جو جوابی پلان تیار کر کے چینیوں کو پیش کیا وہ اس کی تفصیلات کیوں سامنے نہیں لا سکی؟ کیوں عوام کو بروقت اعتماد میں نہیں لیا گیا کہ وفاقی حکومت نے جو لانگ ٹرم پلان تجویز کیا اس کی وفاقی کابینہ سے حتمی منظوری لینے سے قبل صوبوں سے تفصیلی مشاورت کی گئی ہے۔ صوبائی حکومتیں بھی تاحال سچ بولنے سے کیوں گریزاں ہیں اور کیوں ابھی تک سی پیک پر سیاست کھیل جا رہی ہے اور عوام کو گمراہ کیا جارہا ہے کہ وفاقی حکومت نے ابھی تک صوبوں کو لانگ ٹرم پلان پر اعتماد میں نہیں لیا؟ کیوں پرویز خٹک اور مراد علی شاہ یہ حقیقت عوام کے سامنے بیان کرنے کو تیار نہیں ہیں کہ 32 صفحات کا جو حتمی لانگ ٹرم پلان طے پایا ہے اس میں ان کا بھرپور ان پٹ شامل ہے؟ انہوں نے یہ جانتے ہوئے بھی کیوں لب سی رکھے ہیں کہ ون بیلٹ ون روڈ سمٹ کے موقع پر پاکستان اور چین کے درمیان سائیڈ لائن پر 32صفحات پر مشتمل سی پیک کے لانگ ٹرم پلان پر دونوں ممالک کے درمیان اتفاق رائے ہو چکا ہے؟ اس حتمی معاہدے کا اعلان سالانہ بجٹ کی وجہ سے مؤخر کیا گیا ہے جو بجٹ کی منظوری کے بعد وفاقی حکومت کی طرف سے ایک خصوصی تقریب منعقد کر کے کئے جانے کی منصوبہ بندی کی گئی ہے۔ وفاقی حکومت بالخصوص پروفیسر احسن اقبال کو اب تک بخوبی اندازہ ہو جانا چاہئے تھا کہ وہ سی پیک سے متعلق دستاویزات کو جتنا چھپا کر رکھیں گے اس منصوبے کے بارے میں شکوک و شبہات اتنے ہی زیادہ بڑھیں گے۔ جبکہ وہ یہ بھی ادراک رکھتے ہیں کہ پاکستان کی تقدیر بدلنے کا حامل یہ منصوبہ ملک دشمنوں کی آنکھوں میں کانٹا بن کر کھٹک رہا ہے۔ جس منصوبے کو کسی بھی قیمت پرسبو تاژ کرنے کے لئے بدنام زمانہ ’را‘ میں ایک خصوصی سیل قائم کیا گیا ہو اس کے تحفظ کے لئے قومی یک جہتی ضروری ہے۔ پاکستان مسلم لیگ ن کی حکومت آئندہ انتخابات میں سی پیک کو بے شک فلیگ شپ منصوبے کے طور پہ پیش کرے لیکن زمینی حقائق کا یہ بھی اہم تقاضا ہے کہ اس منصوبے کو کسی بھی مرحلے پر متنازع نہ ہونے دیا جائے۔ اب تک تو یہ سبق سیکھ لینا چاہئے تھا کہ یہ منصوبہ تب تب متنازع ہوا جب جب اس کو صوبوں اور عوام سے مخفی رکھنے کی کوشش کی گئی۔ منصوبے کے آغاز پر دال میں کالا اس وقت نظر آنا شروع ہوا جب وزیراعظم نے صرف وزیر اعلیٰ پنجاب کے ہمراہ چین کے دورے کئے۔ انگلیاں تب اٹھیں جب چینی صدر کے تاریخی دورہ پاکستان کے دوران انکے استقبال سے لیکر روانگی تک صوبائی حکومتوں اور اپوزیشن رہنماؤں کو ان سے ہر ممکن حد تک دور رکھا گیا۔ شکوک تب پیدا ہوئے جب سی پیک کے تحت 51معاہدوں پر دستخط کئے گئے لیکن دستاویزات کو صوبائی حکومتوں کو فراہم کرنے سے انکار کر دیا گیا۔ خدشات تب پید اہوئے جب صوبوں کے احتجاج کے بعد مونوگرافک اسٹڈی میں مغربی روٹ کو شامل کیا گیا اورتب تک کوئی نقشے پیش نہیں کئے گئے۔ تحفظات تب سامنے آئے جب چھوٹے صوبوں میں پہلے سے موجود سڑکوں کو چار یا چھ رویہ کرکے موٹروے کا نام دیا گیا۔ تعصب کی بو تب آئی جب اورنج لائن منصوبے کو سی پیک کا حصہ بنا دیا گیا۔ اورجب چھوٹے صوبوں کو منصوبوں کو حتمی شکل دینے کے کسی مشاورتی عمل میں شریک نہیں کیا گیا۔ خیبر پختونخوا کے ساتھ اتحادی بلوچستان حکومت نے بھی سی پیک کے خلاف قرارداد تب منظور کی جب وفاقی حکومت کے روئیے نے احساس محرومی کو جنم دیا۔ خیبر پختونخوا کی حکومت، وفاقی حکومت کیخلاف پشاور ہائی کورٹ میں پٹیشن دائر کرنے کےاقدام پر تب مجبور ہوئی جب اسے منصوبوں کی غیر منصفانہ تقسیم اور اے پی سی کے فیصلوں پر عمل درآمد نہ ہونے کا خدشہ لاحق ہوا۔ تھوڑا لکھے کو بہت جانیں،اب جبکہ تمام وزرائے اعلی اوبور فورم میں وزیر اعظم کے ہمراہ شانہ بشانہ کھڑے ہو کر قومی یکجہتی کا پیغام دے چکے ہیں اسکے بعد وفاقی حکومت کو قومی مفادکے نام پر بلاوجہ معلومات چھپانے کی پالیسی ترک کر دینی چاہئے اور صوبائی حکومتوں کو بھی کھلے دل سے اعتراف کرنا چاہئے کہ لانگ ٹرم پلان کو حتمی شکل دینے میں انکی بھی بھرپور مشاورت شامل ہے۔



.
تازہ ترین