• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
مایہ ناز یونس خان پاکستان کی جانب سے ٹیسٹ کرکٹ میں سب سے زیادہ 10099رنز سمیت متعدد ریکارڈ لئے دنیائے کرکٹ کو خیرباد کہہ گئے۔ ڈومینیکا ٹیسٹ کے پانچویں دن آخری بار جب وہ قابلِ فخر مصباح الحق کے ہمراہ میدان میں داخل ہوئے، تو پاکستانی کرکٹرز نے قطار بنا کر اپنے ہیروز کو خراج تحسین پیش کیا۔ اس سے قبل پاکستانی ڈریسنگ روم کا منظر بھی جذبات کی شدت کے ایسا زیر اثر آیا کہ ہر آنکھ تر دکھائی دی۔ پھر پویلین جاتے ہوئے میزبان ویسٹ انڈین کھلاڑیوں اور تماشائیوں نے کھڑے ہو کر انہیں جس والہانہ انداز سے الوداع کہا، تاریخ کی آنکھ نے ایسے مناظر کم کم دیکھے ہوں گے۔ عالمی ذرائع ابلاغ نے رخصتی کے اس موقع کو یادگار، دیو مالائی اور تاریخی قرار دیا۔ ستائش و اقرارِ کارکردگی کا یہ سلسلہ ہنوز دراز ہے۔ صاحبان رائے سے بھی زیادہ عام عوام اپنے ہیروز کی ہر دم بلائیں لے رہے ہیں اور کرکٹ کی دنیا کے بعد کی دنیا میں اسی نوع کی کامیابی کے لئے دعائیں دے رہے ہیں۔ بلاشبہ زندہ قومیں اپنی ہیروز کے ساتھ ایسا ہی جذباتی تعلق استوار رکھتی ہیں۔ ہاں کوئی ہیرو گھر بیٹھے بیٹھے اس طرح کی بے لوث محبت کا حقدار نہیں ٹھہرتا۔ اس کے لئے مساعی سے بھی سے کہیں زیادہ ریاضت درکار ہوتی ہے۔ مقام و رُتبہ تو مشقِ ستم کے خراج کے بغیر ملتا ہی نہیں ہے اور یونس خان تو وہ ہیں جو گلیمر کی اس دنیا میں بھی ’منصور‘ قرار پائے۔ جب کسی کو ان کی جواں سال کارکردگی پر دور دور تک ضعف کے سائے پڑتے نظر نہیں آئے، تو مخالفین سازشوں میں سر تا پا مصروف کار ہوئے۔ یہاں تک کہ ان کے خلاف حلف لیا گیا۔ افسوس صد افسوس! کہ وہ روشن کتاب جس کے نزول کا مقصد ہی یہ ہے کہ اسے پڑھا جائے اور اس کی تعلیمات پر عمل کیا جائے، ہم نے اسے طاق میں رکھ دیا۔ دنیا میں کہیں ایسی مثال نہیں ملتی کہ کسی نے کسی کتاب کو اپنے گھر میں رکھا تو ہو لیکن یہ نہ جانتا ہو کہ اس میں کیا لکھا ہے؟ ہم نے قرآنِ عظیم کو گھروں میں تو رکھ لیا ہے لیکن کم کم ایسے ہوں گے جو اس رُشد و ہدایت والی کتاب کو ترجمے کے ساتھ پڑھتے و سمجھتے ہوں گے۔ ہاں ہم اس قدر سنگ دل ضرور ہیں کہ اس پر حلف اُٹھاتے و اٹھواتے، اس وقت بھی نہیں چوکتے جب ہمارے پیش نظر کارِ گناہ ہوتا ہے۔ کاش! محمد یوسف 2009میں کوئی اور عہد و پیمان باندھ لیتے... آپ کو یاد ہوگا کہ نیوزی لینڈ کے خلاف متحدہ عرب امارات میں نومبر 2009میں کھیلے جانے والی سیریز کے دوران سات کھلاڑیوں نے حلف لیا تھا کہ وہ یونس خان کی قیادت میں نہیں کھیلیں گے۔ بتایا جاتا ہے کہ ایک نامور کھلاڑی بھی ان کھلاڑیوں میں شامل تھے۔
آج جب ہر طرف، چہار دام باوقار یونس خان کی پرجوش رخصتی کی سج دھج و طمطراق دیکھتا اور شاد و آباد کی دعائیں سنتا ہوں، تو بے اختیار طمانیت و یقین کا احساس پوری شدت کے ساتھ قلب و نظر کے آئینہ میں مچلتا ہوا یہ باور کراتا ہے کہ بے شک عزت دینے والی وہ ذات ہے جس کے سامنے سازشیں کارگر نہیں ہو سکتیں۔ اخلاص ہی جس کو فقط مطلوب ہے۔ بعض کھلاڑی ایڑیاں رگڑ رگڑ کر بھی اگر ایک طرف یونس خان کے ریکارڈ کی گرد کو نہیں پہنچ پائے تو دوسری طرف وہ ایسی باعزت رخصتی کے لئے بھی اپنے من ہی من میں مانندِ سوکھے پتے جل بھن کر جیسے راکھ ہی ہوگئے... کیا کسی کو ایسی حقیقی مسرت و انبساط نصیب ہوگا جو یونس خان کو ہو رہا ہے۔ لاریب مصنوعیت، حقیقی صناعی کا متبادل قرار نہیں پاسکتی۔
کہا جاتا ہے کہ کسی نے اسے انا کا مسئلہ بنا لیا ہے۔ کسی نوع کی انا؟ وہ ’انا‘ جس کے ایک معنی خودی (پختو) ہیں۔ نہیں صاحب نہیں... ایسی انا کا تعلق آخری میچ یا تقریب کے لئے منت سماجت سے نہیں ہوتا، کھبی نہیں .... واضح یہ ہے کہ یہ دریا خان آفریدی اور ایمل خان مومند جیسے غیوروں کی انا نہیں ہے، جن کی شہادت پر صاحبِ سیف و قلم خوش حال خان خٹک پکار اُٹھے تھے ’’خودی کے پیکر ایمل خان و دریا خان تو چلے گئے، اب تنہا خوش حال خان ہی کو مغل استبداد کا مقابلہ کرنا ہے.....‘‘ بات مسافتوں پر جا پہنچی۔ عرض یہ کرنا ہے کہ یونس خان کو یہ تمام ریکارڈز، عزت و اپنائیت اس صبر و شکر اور استقامت کی بدولت ملےجو ان کی خمیر کا نصیب تھے۔ یہ بھی سچ ہے کہ شاہد خان جس قدر مقبول ہیں، کوئی اور پاکستانی اسٹار نہیں! بالکل اسی طرح شہرت کی بلندیوں پر ہیں جس قدر ’یو ٹرن‘ کہلائے جانے والے عمران خان سیاستدانوں میں ہیں۔ مادھوری کے رقص کا بھی ایک جہاں گرویدہ تھا، مادام گوگوش جب گاتی تھیں تو وطنی سرحدیں تارِ عنکبوت بن جاتی تھیں۔ یہ سب شہرہ آفاق قابلِ احترام ٹھہرے۔ ہم مگر یہاں ذکر اس کردار کا کر رہے ہیں کہ جس کی بدولت کوئی شخصیت ذی شان نظر آئے۔ بہرصورت حلف اٹھانے والے اپنے عمل کے لئے آپ جوابدہ ہیں۔ یونس خان نے درست کہا ہے کہ وہ کپتان رہتے تو شاید اتنے ریکارڈ نہیں بنا پاتے۔
پاکستانی ٹیم کو مقامِ اول پر فائز کرنے والے مصباح الحق بھی صد فیصد اِس عزت، محبت و اپنائیت کے حقدار تھے جو انہیں یونس خان کے ساتھ ملکی و عالمی شخصیات اور ہم وطنوں نے دی۔ روز و شب والدہ کی دعائوں کے حصار میں رہنے والے مصباح الحق کی کارکردگی بھی ہر خاص و عام کے قلب و نظر میں جگمگاتی رہے گی۔ انہوں نے کبھی بھی مسٹر ٹک ٹک کے طعنوں کی پروا نہیں کی، استقامت و حکمت سے پاکستان کو عالمی درجہ بندی میں پہلے نمبر پر لے آئے۔ مصباح الحق کا تعلق بھی عمران خان کی طرح نیازی قبیلے سے ہے۔ دنیائے کرکٹ پر جس طرح دو نیازیوں عمران خان اور مصباح الحق نے حکمرانی کی، اسی طرح ان کے مورث اعلیٰ ابراہیم لودھی اور بہلول لودھی نے پورے ہندوستان پر حکمرانی کی تھی۔ ڈاکٹر لیاقت علی خان نیازی کی کتاب ’’تاریخ میانوالی‘‘ کے مطابق ’’نیازی قبیلے کا تعلق لودی (لودھی) پشتون خاندان سے ہے۔ یہ وہ پہلے پختون قبیلے تھے جو میانوالی آئے اور جاٹوں اور سکھوں کو یہاں سے نکال باہر کیا۔ اس قوم کی غزنی افغانستان سے پہلی سکونت دہلی میں تھی۔ پشتونوں کی پہلی اور شروع کے دور حکومتوں میں یہ وہاں قیام پذیر تھے۔ اپنی حکومتوں کے خاتمے پر یہ ہندوستان سے موجودہ علاقے میں دیگر افغانوں کے ساتھ دریائے سندھ کے کنارے آباد ہو گئے اور وقت باوقت نیازی قبائل بھی افغانستان سے یہاں آکر آباد ہوتے گئے۔ آج بھی کچھ نیازی قبیلے پشتو بولتے ہیں جن میں بخیر خیل، سلطان خیل اور بوری خیل سر فہرست ہیں، عیسیٰ خیل نیازیوں کا سب سے بڑا قبیلہ ہے۔‘‘ہم تاریخ میں اس لئے چلے گئےکہ مصباح الحق بھی تاریخ رقم کر کے ہی گئے... ہاں! وہ صرف نیازیوں کا ناز نہیں، پوری قوم کا فخر ہیں.... اور پھر یہ بر حق آواز....
کوئی قابل ہو تو ہم شانِ کئی دیتے ہیں
ڈھونڈنے والوں کو دنیا بھی نئی دیتے ہیں



.
تازہ ترین