• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

اقوام متحدہ کا کشمیر میں ذرائع ابلاغ کی قدغنوں پر ردِعمل

آخر کار اقوام متحدہ نے تھوڑی سی حرکت دکھائی ہے۔ چلئے ہم اس کو گہری نیند میں پہلو بدلنے سے تعبیر کرتےہیں۔گزشتہ ہفتے اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق نے ایک بیان کے ذریعے ریاست جموں کشمیر میں انٹرنیٹ اور سوشل میڈیا پر جاری پابندیوں کو اجتماعی تعزیر قرار دیتے ہوئے ان کو ہٹانے کے ساتھ ساتھ بھارتی حکومت سے یہ بھی مطالبہ کیا کہ وہ خطے میں ایک جمہوری طرز کی بات چیت کا آغاز کرے۔
یہ بیان اقوام متحدہ کے ہائی کمشنر برائے انسانی حقوق کے دو خصوصی مندووبین – ڈیوڈ کیے اور مشیل فروسٹ کی جانب سے جاری کیا گیا جس میں انہوں نے بھارتی حکومت کی جانب سےانٹرنیٹ پر لگائی جانے والی مسلسل قدغنوں پر ایک واضح مؤقف اختیار کرتے ہو اس بات پر زور دیا کہ نہ صرف یہ پابندیاں بے لگامی سے لگائی جاتی ہیں بلکہ ان پر من مانے اور ظالمانہ طریقے سے عمل بھی کرایا جاتا ہے۔ انھوں نے انکشاف کیا کہ 2012ء سے اب تک کم از کم 31مرتبہ انٹرنیٹ اور فون پر بندشیں لگائی گئیں اور پچھلے نو ماہ سے جاری عوامی بغاوت کے دوران یہ بندشیں بار بار لگائی جارہی ہیں۔
اس اخباری بیان کے بعد میں نے ڈیوڈ کیے سے رابطہ کیا۔ آپ اقوام متحدہ کے خصوصی مندوب برائے آزادی اظہار کیساتھ ساتھ امریکہ کی کیلی فورنیا یونیورسٹی کے اسکول آف لا کے پروفیسر بھی ہیں۔ میں نے ان کےجموں کشمیر میں جاری ذارئع ابلاغ پر پابندیوں کے حوالے سے اقوام متحدہ کا موقف جاننے کے لئے ایک تفصیلی انٹرویو ریکارڈ کیا۔ انھوں نے انٹرنیٹ پر آ ئے دن کی پابندیوں کو ’ڈیجیٹل ایج سنسر شپ‘ قرار دیتے ہوئے کہا کہ ہم اکثر یہ دیکھتے ہیں کہ یہ پابندیاں ایک مخصوص فرقے یا علاقے کے لوگوں پر لگائی جاتی ہیں۔ انھوں نے مقبوضہ جموں کشمیر کی صورتحال کو ایک چھوٹے سے افریقی ملک کیمرون سے تشبیہ دی جہاں اس سال کے اوائل میں حکومت نے ایک علاقے میں لگ بھگ سو دنوں تک انٹرنیٹ پر پابندی لگائی تھی۔
ڈیوڈ کیے نے اس بات کا برملا اعتراف کیا کہ بھارت کشمیریوں کے ساتھ اپنے دیگر شہریوں کے مقابلے میں دہرا رویہ اختیار کئے ہو ئے ہے جس کو انھوں نے افسوسناک قرار دیا۔ انھوں نے اس بات کا کھل کر اعادہ کیا کہ وہ بھارت کی جانب سے لگائی جانے والی پابندیوں پر نظر رکھے ہو ئے ہیں۔ انھوں نے حکومت ہند کو مشورہ دیا کہ وہ ان پابندیوں کو ختم کردے جن کو ہم نے اپنے بیان میں اجتماعی تعزیر سے تشبیہ دی تھی۔ انھوں نے اقوام متحدہ کے دیگر اداروں سے بھی گزارش کی کہ وہ بھی کشمیر میں جاری دیگر مسائل کی طرف توجہ دیں۔ اس کے علاوہ کشمیریوں اور دنیا بھر میں موجود ان افراد کو جو مسئلہ کشمیر کو مانیٹر کر رہے ہیں سے گزارش کی کہ وہ ان کے آفس سے رابطے میں رہیں تاکہ وہ ان پابندیوں کے ضمن میں اپنے اعترضات اٹھاتے رہیں۔جب میں نے ان سے پوچھا کہ وہ ان پابندیوں کو کس نگاہ سے دیکھتے ہیں جبکہ بھارت مسلسل دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کا دعویدار بھی ہے تو انھوں نے ایک طنزیہ قہقہہ لگاتے ہو کہا:مجھے نہیں پتا کہ میں اس کا کیا جواب دوں اور ساتھ ہی کہا:بھارت فخر سے اپنے آپ کو دنیا کی سب سے بڑی جمہوریت کہتا ہے مگر اس قسم کی قدغنیں جمہوری روایات سے میل نہیں کھاتیں۔ انھوں نے ریاست جموں کشمیر میں جاری ان پابندیوں پر بھارت میں کسی عوامی بحث کے فقدان پر حیرانی اور افسوس کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ ایک عوامی بحث کا آغاز ہو گا۔
ان کے مطابق بھارت کی جانب سے آزادی اظہار پرلگائی گئی یہ پابندیاں بہت بھاری ہیں جو تشدد کے خلاف نہیں بلکہ تشدد کی رپورٹنگ کے بارے میں ہیں۔ جب بھی عالمی برادری کشمیر کے معاملے میں کوئی اقدام کرتی ہے تو یہ عموما احتجاج، تشدد یا جوابی تشدد کے پیرائےمیں ہوتا ہے مگر اصل مسئلہ تو تشدد ہے اور عالمی برادری کو اس معاملے پر توجہ دینی چاہئے۔ انھوں نے عالمی برادری کی جانب سے مسئلہ کشمیر پر توجہ مرکوز کرنے کی ضرورت پر زور دیتے ہو ئے امید ظاہر کی کہ اقوام متحدہ کے دیگر ادارے بھی موجودہ حالات کے بارے میں بات کرنے پر راضی ہو جائیں گے۔
انھوں نے انٹرنیٹ، سوشل میڈیا اور دیگر ذرائع ابلاغ پر بار بار کی بندشوں کو انسانی حقوق کی بنیادی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے ان پابندیوں کے حوالے سے بھارتی توجیحات کو بےبنیاد قرار دیکر ان کو مسترد کردیا۔ انھوں نے اس بات پر بھی افسوس کا اظہار کیا کہ ان بندشوں کے بموجب لوگوں کے لئے اطلاعات کی ترسیل اور رسائی کو ناممکن بنا دیا گیا ہے۔ پچھلے کئی ہفتوں سے ان بندشوں کے مختلف طریقے میرے علم میں آئے ہیں مثلا انٹرنیٹ کو مختلف فلٹرز کے ذریعے اطلاعات کی ترسیل کو محدود کر دیا گیا ہے یا اس کی رفتار کو اس حد تک کم کردیا گیا ہے کہ آن لائن جانا تقریباً ناممکن بن جاتا ہے۔اس ضمن میں حال ہی میں ایک اخباری بیان جاری کرنے کے اسباب کے متعلق انھوں نے بتایا:ہمارا اصل مقصد حکومتِ ہند کی جانب سے انسانی حقوق کے عہد ناموں کی پاسداری کروانے کی حوصلہ افزائی کے ساتھ ساتھ کشمیر میں بھارت کے طرزعمل میں تبدیلی لانا ہے۔ انھوں نے امید ظاہر کی کہ بھارت کے لوگ بشمول این جی اوز کشمیر کے مسئلے کی حساسیت کو سمجھتے ہوئے اس کو حل کرنے میں تعاون پیش کریں گے۔ اپنے بیان کے ذریعے ہم نے کشمیر کے پورے خطے میں ایک مسئلے کی طرف نشاندہی کی ہے جس پر حکومت ہند کو توجہ دینے کی ضرورت ہے۔
پس نوشت:
جموں کشمیرمیں ہندو شدت پسند جماعت بھارتیہ جنتا پارٹی کیساتھ مخلوط حکومت میں شامل پیپلز ڈیمو کریٹک پارٹی (پی ڈی پی) کےترجمان وحید پرا نے انٹرنیٹ اورسوشل میڈیا پرجاری پابندیوں کا دفاع کرتے ہوئے مقبوضہ عوام کو پیشکش کی:’اگر لوگ پر تشدد اور حساس قسم کے ویڈیوز ایک دوسرے کے ساتھ یا آن لائن شیر کرنے سے پرہیز کریں تو یہ بندشیں کل ہی اٹھائی جا سکتی ہیں‘۔ اپنی ناقابل فہم دانائی کا اظہار کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا:’’جب سے انٹرنیٹ پر پابندی کا اطلاق ہوا ہے تب سے کوئی بھی ویڈیو وائرل نہیں ہوئی‘‘۔
ضمیمہ:
بھارتی میڈیا پر نقد و تبصرہ کرنے والی ویب سائٹ ’دی ہوٹ‘ کے مطابق خود مقبوضہ علاقے کی سرکار کے کارندے بھی سوشل میڈیا اور انٹرنیٹ پر لگی ان پابندیوں کو ورچوئل پرائیویٹ نیٹ ورک (وی پی این) کے ذریعے ناکام بنا رہے ہیں۔ وی پی این بھارتی قدغنوں کو غیر مؤثر کرنے کے لئے کشمیر کے آزادی پسندوں کا ایک پسندیدہ ہتھیار بن چکا ہے۔ خود پی ڈی پی کے وحید پرا اپنی حکومت کے ٹویٹر اکاؤنٹ کو چلانے کیلئے وی پی این کا استعمال کر رہے ہیں۔



.
تازہ ترین