• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن

صدر ٹرمپ کا دورہ سعودی عرب تعلقات عامہ کی بھرپور مشق

اسلام آباد (فصیح الرحمان)امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ تعلقات عامہ کی ایک بھرپور مشق پر عمل پیرا ہونے کے لئے سعودی عرب آئے ہیں تاکہ امریکا کے رہنما کے طور پر اپنے اس تاثر کو ٹھیک کر سکیں جسے مسلم دنیا میں ان کی اسلام مخالف انتخابی مہم کی وجہ سے ناپسند کیا جاتا ہے۔ ریاض میں اپنی تقریر کے ذریعے انہوں نے مسلم دنیا میں اپنا مزید قابل قبول عوامی تاثر فروخت کرنے کی کوشش کی۔ اسے کتنی اچھی طرح لیا گیا اس کا کوئی بھی اندازہ لگا سکتا ہے۔ عام طور پر مسلمان امریکا کو مسئلے کے ایک حصے کے طور پر دیکھتے ہیں۔ لہذا مسلما نو ں مجموعی طور پر امریکی صدر کو صرف الفاظ سے ہی نہیں بلکہ اقدمات سے بھی اپنے خیالات سے رجوع کرتے ہوئے دیکھنا چاہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے ریاض میں 50 سے زائد عرب اسلامی سربراہان ریاست و حکومت کے سامنے اپنی تقریر میں دعوی کیا کہ وہ انہیں لیکچر نہیں دینا چاہتے۔ بنیادی طور پر یہ تقریر اسلامی دنیا میں انتہا پسندی اور دہشت گردی کے خلاف ایک واضح اور صاف خطبے میں تبدیل ہوگئی، جس کے الفاظ محتاط انداز میں چنے گئے تھے لیکن پیغام سخت اور ٹھوس تھا اور یہ عرب مسلم ممالک سے ’’ڈو مور‘‘ کے مطالبے سے بھی بھرا ہوا تھا کہ وہ انتہا پسندی اور دہشت گردی کو جڑ سے اکھاڑنے کے لئے مزید ذمہ داری اٹھائیں۔ سعودی شاہ کے برعکس جنہوں نے اپنی تحریر شدہ افتتاحی تقریر پڑھی، صدر ٹرمپ نے ذرا قدرتی انداز دکھانے کی کوشش کی اور اچھی طرح سے دھرائی ہوئی تقریر ایک ٹیلی پرامپٹر کے ذریعے پڑھی جس پر مسلم سربراہان ریاست و حکومت نے پرجوش انداز میں تالیاں نہیں بجائیں۔ صدر ٹرمپ نے اس موقع کو استعمال کرتے ہوئے یہ واضح پیغام دیا کہ امریکا، سعودی عرب اور اتحادی جی سی سی ممالک مضبوطی کے ساتھ ایران کے علاقائی مقاصد کے خلاف کھڑے ہوئے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے وائٹ ہاؤس میں داخل ہونے کے بعد اپنے پہلے بیرونی دورے کے لئے سعودی عرب کا انتخاب کیا۔ تاہم انہوںنے ایک مدبر ہونے کی اداکاری کی تکلیف نہیں اٹھائی۔ وہ ایک ڈیل میکر کی طرح بے ساختہ اور کھرے تھے۔
تازہ ترین