• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سعودی عرب میں عالم اسلام کے حکمران طبقات کی عظمت اور عروج کا نیا باب لکھا گیا۔55 سربراہان نے شرکت فرمائی اور اس بارات کا دولہا تھا ڈونلڈ ٹرمپ جس نے پچھلے دنوں کہا کہ کسی لیڈر کی اتنی بے عزتی کبھی نہیں ہوئی جتنی میری ہوئی لیکن یہ امریکہ کے اندر کی بات ہے۔ باہر خصوصاً عالم اسلام میںمیرے فیورٹ ٹرمپ کی بہت عزت ہے۔یہ ایک تصویر ہے۔ روزنامہ ’’وقت‘‘ کے فرنٹ پیج پر جس میں اسلامی ملکوں کے سربراہان سج سنورکے کھڑے ہیں۔ درمیان میں ڈونلڈ ٹرمپ ایستادہ۔ اس گروپ فوٹو کے نیچے کیپشن میں درج ہے ’’وزیراعظم نوازشریف بھی نظر آرہے ہیں‘‘۔اک اور خبر کے مطابق ’’نوازشریف اڑھائی گھنٹہ تیاری کرتے رہے لیکن تقریر کاموقع نہیں دیا گیا۔ ٹرمپ نے بھارت کا ذکر کر کے پاکستان کے زخموں پرنمک چھڑکا۔(پاکستان کا کہیں ذکر تک نہ ہوا حالانکہ موضوع دہشت گردی تھا)ذلت آمیز رویہ رکھا گیا میڈیا وفد کی اکثریت کا تبصرہ۔ وضاحت کیلئے مشیر خارجہ سمیت کوئی ذمہ دارفرد موجود نہ تھا۔ سب دکھی دل سے واپس آئے۔میزبان سربراہ شاہ سلمان نے فرمایا ’’ایران دہشت گردی کا مرکز ہے‘‘۔مسلمان لیڈرز ٹرمپ کی تعریفوں کے پل باندھتے رہے۔السیسی نے کہا ’’آپ ناممکن کو ممکن بناتے ہیں‘‘ ٹرمپ نے کہا ’’میں آپ سے متفق ہوں‘‘ اس برجستہ جواب پر ہال میں قہقہے گونجنے لگے۔ قطری شہزادے والے قطر کے امیر نے کہا ’’آپ کے خوب صورت ہتھیار خریدنا چاہتے ہیں۔ ایسے کوئی نہیں بناتا‘‘۔ٹرمپ کی بیٹی اوراس کا شوہر یہودی ریبی کی اجازت ملنے پر سعودی عرب آئے۔سعودی شاہ سلمان بن عبدالعزیز نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کیلئے مختلف انداز میں ضیافت کا اہتمام کیا۔ دونوں شاہان ’’مرکز‘‘ میں داخل ہوئے تو سعودیہ کے رقص العرض(تلواروں کے ساتھ مخصوص رقص) کی آوازیں بلند ہورہی تھیں جس میں طبل کا استعمال بھی کیا جاتاہے۔ شاہ سلمان نے اپنے معزز مہمان کو بتایا کہ یہ جنگ کا رقص ہے۔ سعودی فرمان روا اور امریکی صدر نے رقص میں شرکت بھی کی۔ ٹرمپ نے رقص کی حرکات کرنے کی کوشش بھی کی جبکہ شاہ سلمان اس موقع پر گائے جانے والے اشعار دہرا رہے تھے۔قارئین!یہاں تک کے کالم میں ’’کا‘ کے، کی‘‘ کے علاوہ میرا ایک لفظ بھی شامل نہیں۔ میں نے یہ سب کچھ مختلف اخبارات سے اٹھایا ہے اور ایسا کرتے وقت میرے تصور میں ایک تصویر بن رہی تھی لیکن افسوس یہ تصویر میں آپ کے ساتھ شیئر نہیں کرسکتا سوائے اس بات کے کہ اگر میں مصور ہوتا تو یہ تصویر کینوس پر اتارتا تو اسے ’’جنگ کا رقص‘‘ یا اس سے ملتا جلتا عنوان دیتا۔یہاں مجھے اپنے آقا ﷺ یاد آتے ہیں جنہوں نے فرمایا تھا کہ مسلمان ایک جسم کی مانند ہیں جس کے ایک عضو کو بھی تکلیف پہنچے تو پورا جسم درد میں مبتلا ہو جاتا ہے (مفہوم)۔ ایک بار آپ نے فرمایا ’’اگر دو مسلمان تلواروں کے ساتھ ایک دوسرے پر حملہ آور ہوں اور لڑائی کے نتیجہ میں ایک مارا جائے تو قاتل اور مقتول دونوں جہنمی ہوں گے‘‘ صحابہ نے حیران ہو کر پوچھا ’’یا رسول اللہﷺ! قاتل کے جہنمی ہونے کی بات تو سمجھ آتی ہے۔ مقتول کیسے جہنمی ہوا؟‘‘ فرمایا ’’کیونکہ ارادہ تو اس کا بھی یہی تھا کہ مقابل کو قتل کردے‘‘۔ہم صدیوں سے جنگ یا جنگ کے رقص میں مبتلا ہیں لیکن مجھے آج تک یہ سمجھ نہیں آئی کہ یہ جنگ اور جنگ کا رقص کس کے خلاف ہے۔ یہ جنگ جیت کون رہا ہے؟ یہ جنگ ہار کون رہا ہے؟ بلکہ کون جیت چکا ہے اور کون ہار چکا ہے اور یہ کیسی جنگ ہے جو صدیوں سے ختم ہونے میں ہی نہیں آرہی؟لڑنے والوں نے ورلڈ وارز لڑیں۔ پہلی جنگ عظیم لڑی، دوسری جنگ عظیم لڑی، سبق سیکھے اور سکھائے گئے اور پھر جنگوں کے میدان ہی نہیں ہتھیار، ہتھکنڈے اور حربے تک تبدیل کر لئے گئے۔ صدیوں آپس میں متصادم رہنے والے ’’یونین‘‘ میں تبدیل ہوگئے لیکن ہمارے ہاں عرب تا عجم جنگ کا رقص جاری ہے اور خدا جانے کب تک جاری رہے گا اور کوئی سبق نہیں سیکھا جائے گا۔

.
تازہ ترین