• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
امریکہ کے بعض بڑے بڑے سیاسی پنڈتوں اور میڈیا میں ہونے والی یہ پیش گوئی غلط ثابت ہوئی کہ’’صدرٹرمپ مواخذے (impeachment) کے نتیجے میںاپنی مدت ِ اقتدارپوری نہ کرسکیں گے‘‘ صدر ڈونلڈٹرمپ کا جاری دورہ سعودی عرب عالمی خصوصاً مشرق قریب جس میں پاکستان، افغانستان، ایران اور خلیجی خطہ شامل ہے‘‘ کے خارجی تعلقات کا موجودہ نقشہ تبدیل کرکے رکھ دے گا۔ امریکی صدر جن کی خارجہ وداخلہ پالیسیاںتادم ان کے اپنے ملک میں کسی حد تک متنازع ہی ہیں نے نائن الیون کے بعد امریکہ اور اس کے حلیف مغربی ملکوں کےمسلم دنیا کی جانب بنے زاویہ نگاہ کےمقابل ایک نیا زاویہ پیش کیا ہے، جوخود ان کی انتخابی مہم کی تقاریر میں پیش کئے جانے والے مسلمانوں کے تصور سے یکسر مختلف ہے۔ یہ زاویہ نگاہ محض صدرٹرمپ کا ہی نہیں تھا بلکہ اوسط امریکی (اوریورپی بھی) مسلم دنیا اور مسلمانوں کی جانب اسی زاویہ نگاہ کے حامل ہیں۔ ’’جہادی‘‘ انتہاپسند، دہشت گرد، اپنا کلچر غیرمسلموں پر تھوپنے کے آرزومند جو دنیامیں غلبہ اسلام کا مقصد دل میں بسائے بین الاقوامیت (انٹرنیشلزم) کے قائل ہیں اس لئے عالمی برادری انہیں اپنے مین اسٹریم میںشامل نہیں رکھنا چاہتی۔ اہم اورقابل غور نکتہ یہ ہے کہ امریکہ، یورپ اور ان کے زیراثر ممالک میں اسلام اور مسلمانوں کے بارے میں یہ زاویہ نگاہ نائن الیون کی ہی پیداوار نہیں ہے بلکہ اس سے ایک عشرہ قبل ہی سوویت یونین کے ٹوٹنے اورمشرقی یورپی ممالک کی وارسا پیکٹ سے آزادی کے تاریخی موقع پر نیٹو کے سیکرٹری جنرل نے بی بی سی کو انٹرویو دیتے ہوئے سوویت ایمپائر کے خاتمے کے بعد نیٹو کے قیام کا جواز یہ بتایا تھا کہ ابھی مغرب کو ’’ریڈیکل اسلام‘‘ سے خطرہ ہے اور سوویت یونین کے خاتمے کے بعد ہمیں اس سے بھی نمٹنا ہے۔ اس سے قبل جبکہ ابھی نائن الیون میں دس سال باقی تھے۔ یونیورسٹی آف سدرن کیلیفورنیا کے پروفیسر ہنگ ٹنگٹن نے ’’تہذیبوں کا تصادم‘‘ کا نظریہ پیش کرکے عالمی سیاست اور بین الاقوامی تعلقات کے علمی حلقوں میں دھوم مچا دی تھی۔ یہ وہ وقت تھا جب سرد جنگ نے دم توڑا جو دنیائےمغرب ہی کے دو بڑے نظریوں سرمایہ دارانہ جمہوری نظام اور کمیونزم کے درمیان لڑی گئی اور جس سے پوری دنیا دو بلاکس میں تقسیم ہوکر اس سے متاثر ہوئی، حتیٰ کہ ناوابستہ ممالک کی تحریک (NAM) بھی دھڑے بندی سے نہ بچ سکی۔ گویا سردجنگ کا خاتمہ عالمی نظریات یا تہذیبوں کےتصادم کا تاریخی مرحلہ نہیں بلکہ باقی ماندہ عالمی نظریات میں ہم آہنگی، بین المذہبی مکالمے اوران کے ذریعے پائیدار عالمی امن اور تنازعات کا سنہری موقع اور سازگار ماحول تھا۔ لیکن سموئیل ہنگ ٹنگٹن کے تھیسز ’’کلیش آف سولائزیشنز‘‘ کی ترویج عالمی سطح پرانتہائی مکاری اور شعوری کوششوں سے ہوئی، جس میں سے پہلے اسلامی بنیاد پرستی نکالی گئی جس نے اصل شکل اختیارکر ہی لی (جو مہذب دنیا سمیت دنیا کےہر خطے میں اور کسی نہ کسی شکل میں پائی جاتی ہے) تو نائن الیون ہو گیا،کیا عالم اسلام ایٹ لارج بنیاد پرست تھا؟ یا سردجنگ میں امریکہ اورسوویت یونین کی پارٹنرشپ میں تقسیم ہوا تھا؟ افغانستان میں طالبان حکومت کا قیام، عراق پر امریکی حملہ، نائن الیون، پاکستان کا دہشت گردی کی طویل ترین جنگ میں الجھ جانا اور مسلسل دہشت گردی کا شکار بن جانا، سب گھڑے گئے۔ ہنگ ٹنگٹن کے بغیر صورتحال اور کسی آثارکے (بلکہ مخالف صورتحال میں) نظریے ’’کلیش آف سولائزیشنز‘‘ کافالو اپ تھا جس سے مغربی یورپ ہی کیا سکینڈے نیویا جیسا پرامن اور مہذب ترین خطہ بھی متاثر ہوئے بغیر نہ رہا اور 2004میں یہ کیری کیچر ایشو پر پورے عالم اسلام میں شدید متنازع ہو گیا۔ یورپ میں آج تک تہذیبوں کے مصنوعی تصادم پیدا کئے جارہے ہیں۔ دنیا بھر میں آزادی و جمہوریت کی تحریکوں،مشرقی یورپ اور سنٹرل ایشیا کی آزادی اور نیپال میں بھی جمہوریت کے بعد تحریک ِ آزادی نےزور پکڑا تو ان کے تسلیم شدہ حق خودارادیت کو ایڈریس کرنے کی بجائے ریاستی دہشت گردی اور پوری وحشت سے وقتی طور پر اسے کچل دیا گیا لیکن ناکامی ہوئی۔ فلسطین کی داستان المیوں سے بھری پڑی ہے۔ ایسے میں نائن الیون ہی عالمی دہشت گردی کا مرکز و محور بن گیا جس پر پورا عالم اسلام اور مسلمان بحیثیت مذہب ملزم و مطعون ٹھہرائےگئے۔ یہ ہی تصور آج تک جامد ہے جو سیاسی چالبازیوں اور شدیدمتنازع اقدامات سے بنایا گیا جیسے عراق پرغیرمعمولی مسلح ہونے کے شبہے میں حملہ اور اس کی تباہی اور پھر بش کا اعتراف کہ غلطی ہوگئی۔
اس پس منظر اور اپنی انتخابی تقاریر میں بلاامتیاز مسلمانان عالم کے خلاف صدر ٹرمپ کے کھلم کھلا تبرّے کےبعد گزشتہ روز ریاض میں انسداد ِعالمی دہشت گردی پر ’’امریکہ عرب اسلامی کانفرنس‘‘ سے افتتاحی خطاب کرتے ہوئے صدر ڈونلڈ ٹرمپ کا یہ تسلیم کرنا کہ اسلام بہترین مذہب ہے، دہشت گردی کا حامی نہیں، دہشت گردی کے خلاف جنگ تہذیبوں کا تصادم نہیں، امن کا راستہ سعودی عرب سے نکلتا ہے، مغرب کے عالم اسلام اور مسلمانوں کےخلاف گزشتہ 25سال کے مجموعی بیانیوں کی نفی ہے اور حقائق کااعتراف ایک طرف تو مسلم دنیا کے لئے حوصلہ افزا اور باعث ِ اطمینان ہے، لیکن دوسری جانب ان کا مسلم دنیا کو ایران کو تنہا کرنے کا زوردارمشورہ پریشان کن بھی ہے جو ایسے وقت میں دیا گیا ہے جبکہ انقلابی ایران نے معتدل ہو کر دوسری مرتبہ پھرمعتدل قیادت کو منتخب کیا ہے۔ پھرسابقہ اوباما انتظامیہ نے بھی صدر روحانی کی نئی اپروچ کا خیرمقدم کرتے ہوئے ایران سے معمول کے برسوں پہلے ٹوٹے سفارتی تعلقات کی بحالی کی سفارتی کوششوں کا سلسلہ شروع کیا۔ امریکہ عرب اسلام کانفرنس میں اسلحے کے بھاری سودوں اور اس سے قبل دہشت گردی کے خلاف ایران کی شرکت کے بغیر عالمی اسلامی اتحادی فوج کے قیام سے مسلمانان عالم کو فرقہ بندی کی ایک نئی جنگ میں الجھانے کے خدشات کا دھڑکا بھی ایک قدرتی امر ہے۔ جب ایران نے بھی اپنے ایٹمی پروگرام اور امریکہ کے تعلقات کے حوالے سے ایک کروٹ لی تھی اور ایران میں اعتدال کا عمل شروع ہو کرعام انتخابات میں اس کی تصدیق بھی ہوئی ہے تو ایسے میں تہران کے حوالے سے برادران عرب میں پائے جانے والے سلامتی اور خلیج میں مداخلت و دہشت گردی کےالزامات خصوصاً شام اور یمن میں حوثیوں کی معاونت کے الزامات کے حوالے سے ایک ڈائیلاگ اور سفارتی کوششوں کا آغاز نہیں ہونا چاہئے؟ معتدل منتخب قیادت اتنی تو مستحق ہے کہ سابقہ اوباما انتظامیہ کے اقدامات اور جناب ڈونلڈ ٹرمپ کی مسلمانوں کی جانب تازہ اپروچ کی روشنی میں ایران کو چارج شیٹ جاری کرنے اور اسے تن تنہا کرکے مشتعل کرنے کی بجائے ساتھ ملانے کا ایک موقع فراہم کیا جائے؟ اس حوالے سے پاکستان کا سعودی عرب سے قربت اور ایران سے اب بگڑی ہوئی دیرینہ دوستی کو سنبھالتے ہوئے کوئی سفارتی اقدام کرنا بنتا ہے۔ ہمیں یہ اطمینان بھی حاصل ہے کہ ایران کی سرزمین پاکستان کے خلاف دہشت گردی میں حکومت سے بالا بالا استعمال ہوئی ہے کہ بہرحال کلبھوشن یادیو بھارت کا بھیجا اور تیارکردہ ناقابل معافی دہشت گرد ہی ہے۔ سعودی عرب کو ہماری مشکلات اور تفکرات کو بھی سمجھنا ہے لیکن نئے بنتے حالات میں سمجھانا یہ ہمارا بڑا سفارتی چیلنج ہے۔ یک نہ شد دو شد۔ حالت یہ ہے کہ ہمارا وزیرخارجہ ہی کوئی نہیں ۔اگر کچھ ہے تو فقط خود کو راہ راست پر لائے بغیر خالی خولی سول بالادستی کی خواہش ۔

.
تازہ ترین