• بانی: میرخلیل الرحمٰن
  • گروپ چیف ایگزیکٹووایڈیٹرانچیف: میر شکیل الرحمٰن
سینیٹر شیری رحمٰن کا قصہ بعد میں پہلے گزشتہ جمعرات کی بات ہوجائے۔ 18مئی کو صبح سویرے جی ایچ کیو میں ایک سیمینارشروع ہوا۔ سیمینار سے پہلے کچھ دوستوں سے ملاقات ہوئی۔ ہم میڈیا والے بھی روز کہاں ایک دوسرے کو ملتے ہیں۔ سیمینار کے آغاز سے پہلے ہی کچھ فوجی افسران آکربڑے تپاک سے ملے۔ میرے کئی کلاس فیلوز فوج کا حصہ ہیں۔ اس دن خاص طور پر عدیل منہاس نے تو مجھے حیران ہی کردیا۔ میں کچھ میڈیا کے دوستوں سے گپ شپ لگا رہا تھا کہ اچانک ایک فوجی افسر آیا۔ گلے ملتے ہی اپنا بتا دیا پھر وہ کچھ اور فوجی افسران کے پاس مجھے لے گیا۔ ان سے تعارف کروایا تو کسی ایک افسر نے کہا..... ’’سر آپ کیا سوچ رہے ہیں؟.....‘‘ اس سوال پر مجھ سے رہا نہ گیا جو دل میں تھا، کہہ دیا۔ چار پانچ اعلیٰ فوجی افسران کو مخاطب کرکے کہا کہ آپ لوگوں کی مجبوری ہے۔ آپ نے یونیفارم پہن رکھی ہے۔ یہ جو اتنی بڑی تعداد میں باقی لوگ ہیں جو میڈیا سے ہیں، سول اداروں سے ہیں یا پھر سول سوسائٹی کا حصہ ہیں، ان سب کے غلام ذہنوں کی عکاسی یہاں ہو رہی ہے کیونکہ یہ سیمینار نہ لندن میں ہو رہا ہے اور نہ نیویارک میں بلکہ پاکستان کے ایک شہر راولپنڈی میں ہو رہا ہے۔ آپ نظر دوڑائیں اور دیکھ لیں۔ اس خاکسار کے علاوہ ڈاکٹرشاہد مسعود، سلیم صافی، پرویز شوکت، عدیل بشیر اور بلوچستان کے ایک استاد ڈاکٹر روشن نے قومی لباس پہن رکھا ہے، باقی سب غلام ٹائی سوٹ میں ہیں۔ پتا نہیں ان کے باپ دادا انگلستان سے آئے تھے یا ان کے باپ دادا انگریزوں کے نوکرتھے۔ ان کی شکلیں دیکھ کر مجھے ندامت محسوس ہو رہی ہے۔ ان کے ذہنوں سے غلامی ابھی نہیں گئی۔ انہیں غلام رہنے کا شوق ہے، یہ اسی طرح رہیں گے۔ یہ انگریزوں کے نوکروں کے چاکر ہیں۔ چلو کسی غیرملک میں کوئی مجبوری آڑے آگئی تو ٹائی سوٹ پہن لیا۔ اصولاً تو وہ بھی غلط ہے مگر مجبوراً درست ہے۔ ہمارے حکمران جنہیں سوٹ، سوٹ بھی نہیں کرتا وہ بھی سوٹ پہن کر حاضری لگواتے ہیں کہ ہمارا نام بھی غلاموں میں لکھا جائے۔ پروفیسر احمد رفیق اسلام کی روشنی میں شدت پسندی بتارہے تھے مگر وہ بھی ٹائی سوٹ پہن کر بیٹھے ہوئے تھے۔ خیر یہ شکر ہے کہ پروفیسرصاحب نے سپریم کورٹ کی حکم عدولی نہیں کی۔اردو میں بھی باتیں کہہ گئے۔ غازی صلاح الدین نے اردو کا خاص خیال رکھا جب سپریم کورٹ آف پاکستان نے یہ حکم دےرکھا ہے کہ ہر سطح پر قومی زبان اردو کو نافذ کیا جائے توپتا نہیں کیوں ہمارےادارے، ہمارے حکمران اردو کے راستے میں رکاوٹ بنے ہوئے ہیں۔ ان میں سے اکثر غلام صبح و شام منہ ٹیڑھے کرکے انگریزوں کی نقل کر رہے ہوتے ہیں۔ ان غلاموں نے نہ ایران سے کچھ سیکھا اور نہ چین سے۔ ایرانی اپنی زبان بول کر دنیا کامقابلہ کر رہے ہیں اور چینیوں نے تو بڑے بڑوں کو اپنا مقروض بنا رکھا ہے۔ قومیں اپنے آپ پر، اپنی ثقافت اور اپنی زبان پر ناز کرتی ہیں۔ ایک ہمارا ملک ہے جہاں غلام اپنی غلامی پر ناز کرتے ہیں، غلام آپس میں بھی اپنے آقائوں کی زبان بولتے ہیں، پاکستان کے کئی سیاسی رہنما نہ اردو لکھ سکتے ہیں اور نہ اردو پڑھ سکتے ہیں، ایسے رہنمائوں کو بھی خود پر توجہ دینی چاہئے۔
راولپنڈی کے سیمینار میں جو ہوا، جو جنرل باجوہ نے کہا، وہ سب آپ پڑھ چکے ہیں۔ اس پر تجزیے اور تبصرے بھی سن چکے ہیں لیکن ایک بات جنرل باجوہ نے ایسی کی جسے فراموش نہیں کیا جاسکتا، جس کی حقیقت سے انکار بھی ممکن نہیں مثلاً انہوں نے کہا کہ ہر کام فوج کو کرنا پڑتا ہے حتیٰ کہ کلبھوشن کے معاملے میں وکیل بھی فوج ہی کو بھجوانا پڑا۔ حکومت ِ وقت کو سوچنا چاہئے کہ آخر اس نےاس اہم ترین معاملے کو اتنا غیراہم کیونکر سمجھا؟ کلبھوشن کے معاملے میں پیپلزپارٹی اور تحریک ِ انصاف دونوں نے بڑا واضح موقف اپنایا اگرچہ شاہ محمود قریشی کی باتیں ایسی تھیں کہ انہیں نظرانداز کرنامشکل تھا مگر پیپلزپارٹی کی سینیٹر شیری رحمٰن نے توبہت دھواں دھار پریس کانفرنس کرڈالی۔ خواتین پارلیمنٹرینز میں یقیناً واحد شیری رحمٰن ہیں جن کی قابلیت اور ذہانت کے ہم پلہ کوئی دوسری رکن پارلیمنٹ نہیں۔
یہ اسلام آباد کی ایک سہانی سہ پہر کا قصہ ہے جب شیری رحمٰن کہنے لگیں کہ..... ’’چین کے عظیم رہنما مائوزے تنگ کو جو آخری لیڈر ملا تھا وہ ذوالفقار علی بھٹو تھے۔ چینی آج بھی پیپلزپارٹی کی بہت قدر کرتے ہیں۔ اگر کمیونسٹ پارٹی نے سال میں پاکستان سے دس وفود کو بلانا ہو تو ان میں سے کم از کم پانچ تو پیپلزپارٹی کے ہوتے ہیں باقی پانچ کو وہ باقی پارٹیوں پر تقسیم کردیتے ہیں.....‘‘ مجھے سینیٹر شیری رحمٰن کی باتیں اس لئے یاد آ رہی ہیں کہ میں خود آج کل چین کے دورے پر ہوں۔ اس مرتبہ پیپلزپارٹی کا جو وفد چین آیا ہےاس کی قیادت پارٹی کے مرکزی سیکرٹری جنرل اور سینیٹ کے سابق چیئرمین سید نیئر حسین بخاری کررہے ہیں۔ اس وفد میں چاروں صوبوں کے علاوہ آزادکشمیر سے بھی پیپلزپارٹی کی نمائندگی موجود ہے۔ پیپلزپارٹی کی قیادت نے اس مرتبہ اپنے تین نوجوان رہنمائوں کو وفد میں اس لئے شامل کر رکھا ہے کہ مستقبل کی سیاست میں چین کا کردار بڑا اہم ہے۔ ان نوجوانوں میں قاسم نوید قمر، عباد نائیک اور سید جرار حسین شامل ہیں۔پیپلزپارٹی کے سربراہ آصف علی زرداری کا خیال ہے کہ چین کی کمیونسٹ پارٹی کی قیادت سے ہمارے نوجوان رہنمائوں کی شناسائی ہونی چاہئے۔ ویسے اس وفد کے کوآرڈی نیٹر شفیق سولنگی بھی نوجوان ہیں۔ سندھ سے تعلق رکھنے والے شفیق سولنگی بیک وقت پروٹوکول افسراور میڈیا منیجر کا کردار ادا کر رہے ہیں۔
یہ خاکسار سفرِ نصیب پچھلے دو تین دنوں سے مسلسل سفر میں ہے۔ ابھی تھوڑی دیر پہلے ہم جیانگ سی صوبے کے دارالحکومت نان چنگ پہنچے ہیں اور میں رات گئے نان چنگ ہی سے ایک شاندار ہوٹل کی بیسویں منزل کے کمرہ نمبر ایک سے یہ سطور لکھ رہا ہوں۔ دو دن ہم اُرمچی میں تھے۔ سنکیانگ کا علاقہ خنجرات اور گلگت بلتستان کے قریب ترین ہے۔ ہمارے ترجمان کے مطابق یہ صوبہ ایسے ہی ہے جیسے آپ کا صوبہ بلوچستان یعنی کم ترقی یافتہ اور مسائل کا شکار۔ مگر مجھے اور وفد کے دیگراراکین کویہ کم ترقی یافتہ صوبہ دیکھ کر بھی حیرت ہوئی کیونکہ اُرمچی ہمارے شہروں سے کہیں زیادہ ترقی یافتہ ہے بلکہ بعض جگہوں پر تو یہ احساس ہوتا ہے کہ اُرمچی ، نیویارک سے بھی آگے ہے۔
چینی وقت کے بہت پابند ہیں۔ وہ لمحات کو ضائع کرنا گناہ سمجھتے ہیں۔ چین دنیا سے کٹ کر دنیا سے آگے چلا گیا اور ہم دنیا سے جڑ کر بھی پیچھے رہ گئے۔ جونہی ہمارا وفد اُرمچی کے ہوائی اڈے پر اترا، وہ ہمیں سیدھا اپنے زرعی تحقیقاتی مرکز لے گئے جہاں حیدر زمان قریشی اور سکھر سے سندھ اسمبلی کے سابق رکن جاویدشاہ خاصے حیران ہوئے۔ چین میں صاف ستھری سڑکیں اور ان سڑکوں پر قطاراندر قطارلگے درخت چینیوں کی ذہانت کا منہ بولتا ثبوت ہے۔ چینی بڑے تربیت یافتہ اور ترتیب میں تلے ہوئے لوگ ہیں۔ وہ کھانے کے وقت پر میز پر آپ کانام ہی نہیں سجاتے بلکہ کھانے کے تحریر شدہ کورس آپ کے ساتھ رکھ دیتے ہیں۔ آپ کھانے کے د وران صرف کاغذ دیکھ لیں آپ کوپتا چل جائے گا کہ اگلا کورس کیاہے۔ اتوارکےروز سنکیانگ کےگورنر نے ہمیں دوپہر کے کھانے پر مدعو کر رکھا تھا۔ بہت سی باتیں ہوئیں، یہ باتیں وقتاً فوقتاً لکھتا رہوںگا۔آج کل سی پیک کاچرچا ہے۔ ہمارے ساتھ بلوچستان سے میرچنگیز جمالی ہیں۔ یہاں میں وفدکے سربراہ نیئر بخاری کاتذکرہ ضرور کروںگا کیونکہ وہ ایک سچے اور کھرے پاکستانی کے طور پر چینیوں سے مخاطب ہوتے ہیں، کئی نئی باتوں کےلئے انہیں قائل کرتے ہیں۔ نیئر بخاری کا یہ چوتھا دورۂ چین ہے۔ وہ پہلی مرتبہ 2005میں این ڈی یو کے طفیل چین آئے۔ پھر 2006میں مخدوم امین فہیم مرحوم کی قیادت میں پارٹی وفد کے ساتھ، 2014میں بحیثیت چیئرمین سینیٹ، جب چینی صدر شی چن پنگ نے پروٹوکول سے ہٹ کر ان کا استقبال کیا تھا اور اب چوتھی مرتبہ یہ دورہ جاری ہے۔ اس میں ہونے والی باتوں کو تحریروں میں یاد رکھوں گا۔ ابھی دو روز صوبہ جیانگ سی میںہوں پھریہاں سے بیجنگ روانگی ہوگی۔ سچی بات تو یہ ہے کہ چینی شاندارہیں۔ انہوں نےاپنی ترقی سے ثابت کیا ہے کہ وہ سب سے آگے ہیں۔ چین کا راستہ ترقی کا راستہ ہے ۔ محسن نقوی بہت یاد آرہا ہےکہ؎
مجھ کو بھی شوق تھا نئے چہروں کی دید کا
رستہ بدل کے چلنے کی عادت اُسے بھی تھی
کل رات وہ رہا دیر تک محوِ گفتگو
مصروف میں بھی کم تھا، فراغت اُسے بھی تھی

.
تازہ ترین